شیشہ: خوشبو کے نام پر زہر

یہ دھواں ہے، مگر سگریٹ کا نہیں، یہ خوشبو ہے، مگر زہر سے بھری ہوئی،جی قارئین یہ شیشہ ہے۔ جو کبھی عربوں کے قہوہ خانوں میں ایک ثقافتی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جہاں دانشور بیٹھ کر گفتگو کرتے، قہوہ پیتے اور خیالات بانٹتے تھے۔ لیکن جب یہی روایت برِصغیر اور مغربی دنیا میں پہنچی تو اپنی اصل کھو بیٹھی۔ اب وہی شیشہ جو کبھی مجلسوں کی روایت تھا، آج نوجوان نسل کے لیے ایک فیشن، ایک شوق، اور ایک “کول” طرزِ زندگی بن گیا ہے۔
کیفے کی نرم روشنیوں میں بیٹھے لڑکے اور لڑکیاں، ہاتھوں میں رنگین نلکیاں، چہرے پر مصنوعی سکون اور تصویروں میں خوشبو کا دھواں۔ یہ منظر بظاہر خوبصورت لگتا ہے، مگر حقیقت میں یہ خوشبو نہیں، زہر ہے۔ دھواں جو ان کے گرد نہیں، ان کے اندر پھیل رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تفریح ہے، “ریلیکس ہونے کا” طریقہ ہے، مگر دراصل یہ دھیرے دھیرے ان کی سانسوں کو قید کر رہا ہے۔ ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ ایک گھنٹے کا شیشہ پینا، تقریباً دو سو سگریٹ پینے کے برابر نقصان دیتا ہے۔ لیکن کسی کو پرواہ نہیں، کیونکہ یہ زہر خوشبودار ہے، اور انسان ہمیشہ اس چیز کے قریب جاتا ہے جو دلکش لگے، چاہے وہ نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔
شیشہ کے دھوئیں میں کاربن مونو آکسائیڈ، نکوٹین، اور بھاری دھاتیں شامل ہوتی ہیں۔ یہ پھیپھڑوں کو سیاہ کرتی ہیں، دل پر دباؤ بڑھاتی ہیں، اور جسم میں آکسیجن کی مقدار کم کر دیتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان سانس کی بیماریوں، دمہ، کھانسی، اور بعد ازاں کینسر کے خطرات میں گھر جاتے ہیں۔ نکوٹین ایک ایسا زہر ہے جو آہستہ آہستہ جسم کو اپنا عادی بنا لیتا ہے، اور انسان کو خود اپنی غلامی کا احساس بھی نہیں ہونے دیتا۔ شیشہ پینے والے اکثر کہتے ہیں کہ “یہ سگریٹ سے بہتر ہے” یا “یہ نشہ نہیں، بس خوشبو ہے۔” مگر یہ دلیل بالکل ویسی ہے جیسے کوئی زہر کو کہے کہ وہ ذائقے دار ہے۔ خوشبو کے پیچھے چھپا ہوا یہ زہر آہستہ آہستہ جسم ہی نہیں، دماغ کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
شیشہ کیفے اب ہر شہر، ہر گلی، ہر چوک میں نظر آتے ہیں۔ ان کی سجاوٹ ایسی کہ کوئی بھی نوجوان وہاں جانے کو مائل ہو جائے۔ اندر دھندلا سا ماحول، رنگین لائٹس، نرم موسیقی، اور خوشبو کے ساتھ اٹھتا دھواں۔ باہر سے دیکھنے پر لگتا ہے کہ زندگی کتنی خوبصورت ہے، مگر اندر بیٹھا ہر نوجوان ایک ایسی عادت میں گرفتار ہوتا جا رہا ہے جو اسے بظاہر سکون دیتی ہے مگر دراصل اس کی زندگی سے سکون چھین لیتی ہے۔ یہ دھواں صرف پینے والے کو نہیں، اس کے اردگرد بیٹھنے والوں کو بھی زہریلا کر دیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق شیشہ پینے والے کے ساتھ بیٹھا شخص بھی تقریباً اتنا ہی نقصان اٹھاتا ہے جتنا خود پینے والا۔ بچوں، خواتین، اور بوڑھوں کے لیے یہ دھواں اور بھی خطرناک ہوتا ہے۔ اکثر گھروں میں والدین سمجھتے ہیں کہ ان کا بچہ محفوظ ہے، دوستوں کے ساتھ ہے، مصروف ہے۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ وہ کس دھوئیں میں گم ہے۔
اس کے علاوہ شیشہ پینے کے دوران استعمال ہونے والی نلکیاں، پائپ اور نوزلز کئی افراد کے ہاتھوں سے گزرتی ہیں۔ یہ عادت محض ایک لت نہیں، بیماریوں کا ذریعہ بھی بن چکی ہے۔ ہیپاٹائٹس، ٹی بی، فلو اور وائرل انفیکشن جیسے امراض ان ہی پائپوں سے ایک سے دوسرے تک منتقل ہو رہے ہیں۔ ایک لمحے کی خوشبو کے بدلے میں انسان مہینوں کے علاج کا بوجھ خرید لیتا ہے۔ یہ زہر کسی ایک جسم میں محدود نہیں رہتا، یہ ایک معاشرتی بیماری بنتا جا رہا ہے۔
نفسیاتی ماہرین کے مطابق، شیشہ وقتی طور پر دماغ میں سکون کا احساس پیدا کرتا ہے۔ نکوٹین وقتی طور پر “ریلیکس” محسوس کرواتی ہے، مگر جیسے ہی اس کا اثر ختم ہوتا ہے، انسان بے چینی، چڑچڑاپن، اور ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ وقتی سکون دراصل ایک فریب ہے جو ذہن کو آہستہ آہستہ قید کر لیتا ہے۔ شیشہ پینے والے افراد اکثر ڈپریشن، نیند کی کمی، اور اضطراب میں مبتلا رہتے ہیں۔ ان کے چہروں پر مصنوعی مسکراہٹ ہوتی ہے مگر اندر خالی پن، اداسی، اور بے سکونی۔ یہ دھواں زندگی کے اندر اتر کر احساسات کو بھی دھندلا دیتا ہے۔
اسلام نے جسم اور عقل دونوں کو امانت قرار دیا ہے۔ قرآن میں واضح حکم ہے کہ “اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔” فقہاء کی اکثریت کے مطابق جو چیز جسم یا عقل کو نقصان پہنچائے، وہ حرام یا کم از کم مکروہِ تحریمی ہے۔ شیشہ میں شامل زہریلے اجزاء جسم کو نقصان دیتے ہیں، لہٰذا علما اسے نشے کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ دین صرف شراب کے نشے کو منع نہیں کرتا، بلکہ ہر اس عمل سے روکتا ہے جو انسان کو خود سے، اپنی صحت سے اور اپنے خالق سے دور کر دے۔ شیشہ چاہے خوشبو دار ہو، مگر اس کا انجام ہمیشہ زوال ہوتا ہے۔
ایک دن میں ایک کیفے کے باہر چند نوجوانوں کو دیکھ رہا تھا۔ ہاتھوں میں نلکیاں، قہقہے، ہنسی مذاق۔ ایک نے دوسرے سے کہا: “زندگی کا مزہ یہی ہے، کل کا کیا پتا!” میں نے سوچا، شاید یہی جملہ انسان ہمیشہ اپنی تباہی سے پہلے بولتا ہے۔ ان کے چہروں پر اطمینان تھا، مگر ان کی سانسوں میں زہر گردش کر رہا تھا۔ ان کے جسم میں وہ دھواں اتر رہا تھا جو شاید سالوں بعد ان کی زندگی کا رنگ چھین لے گا۔ وہ لمحہ خوبصورت لگ رہا تھا، مگر دراصل وہ ان کی زندگی کے قیمتی لمحوں کی قیمت تھا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اب شیشہ کاروبار بن چکا ہے۔ ہر گلی میں ایک نیا کیفے، خوشبو کے نام پر زہر بیچنے کی دکان۔ والدین خاموش، حکومت لاتعلق، اور میڈیا اسے فیشن کے طور پر دکھا رہا ہے۔ یہ زہر ہمارے شہروں کی خوشبو میں شامل ہو چکا ہے۔ نوجوان نسل کو جو شعور دیا جانا چاہیے، وہ نہیں دیا جا رہا۔ تعلیمی اداروں میں صحت یا نشہ آور عادات کے خلاف شعور بیدار کرنے کے پروگرام نہیں۔ اگر ہم نے ابھی بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والے وقت میں یہ دھواں صرف کیفے تک محدود نہیں رہے گا، یہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
حل صرف قانون نہیں، شعور ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے قریب رہیں، ان کے دوست بنیں، ان کی زندگی کے معمولات کو سمجھیں۔ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کو اس موضوع پر کھل کر بات کرنی چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کیفوں کے خلاف سخت کارروائی کرے جو قانون کی آڑ میں زہر بیچ رہے ہیں۔ میڈیا کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے، اور اس دھوئیں کو “کول کلچر” کے طور پر دکھانے سے گریز کرنا چاہیے۔
زندگی بہت قیمتی ہے، سانسیں بہت نایاب ہیں۔ یہ دھواں وقتی سکون دیتا ہے مگر زندگی سے رنگ چھین لیتا ہے۔ ایک لمحے کی لذت کے بدلے زندگی بھر کا نقصان خرید لینا دانشمندی نہیں۔ کبھی کسی اسپتال کے کینسر وارڈ میں جا کر دیکھیں، جہاں نوجوان ماسک لگائے سانس لینے کی جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں۔ وہی نوجوان جو کبھی کہتے تھے، “یہ نشہ نہیں، خوشبو ہے۔” آج وہی خوشبو ان کے لیے موت کی بدبو بن چکی ہے۔
شیشہ چاہے خوبصورت شیشی میں ہو، چاہے اس میں خوشبو دار تمباکو ہو، حقیقت یہ ہے کہ وہ زہر ہے۔ ہم دھوئیں میں نہیں، روشنی میں جینے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنی نسلوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ حقیقی سکون مصنوعی دھوئیں میں نہیں، زندگی کی سچائیوں میں ہے۔ جب ہم اپنی سانسوں کی قدر کریں گے تو زندگی بھی ہمیں قدر دے گی۔ خوشبو کے نام پر زہر نہ پیجیے۔ یہ دھواں خوشبو نہیں، فریب ہے۔ اور فریب ہمیشہ تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔
حسیب اعجاز عاشر

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 139 Articles with 156980 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More