قر با نی کی حقیقت

رسول للہ ﷺ سے صحابہ کر ام ؓ نے پو چھا ”کہ اے خدا کے رسول ﷺ یہ قر با نیا ں کیا ہے “ آپ ﷺ نے فر ما یا ” تمھا رے با پ حضرت ابر ہیم ؑ کا طریقہ کہ اللہ کی راہ میں بلا چوں و چرا کسی حیل و حجت کے اپنا مال جا ن اور قیمتی سے قیمتی شئے اللہ کی راہ میں قربا ن کر نے عہد ،، اس سے معلو م ہو تا ہے کہ عید الاضحی ٰ کی حقیقت کیا ہے یعنی حضرت ابر اہیمؑ کے طر یقے کو علا متی طور پر اپنا کراس کو عملی طریقے سے اپنی زندگی میں شامل کر نے کا عہد کر لینا ، ہر مسلما ن اپنی اپنی استطا عت کے مطا بق سنت ابرا ہیمی ؑ پر عمل پیر ا ہو کر اللہ کی خوشنودی و رضا کی خا طر قر با نی پیش کرنے کی کو شش کر تا ہے عید الاضحی ٰ ہر سال ذوالحج کی مخصو ص تا ریخو ں میںمنا ئی جا تی ہے اور حج جو حضرت ابر ہیم ؑ اور ان کے خا ندان کی زند گیوں کی آز مائش کے مختلف پہلو ﺅں کا اعادہ کر تا ہے اسی کاایک حصہ قر با نی کی شکل میں عید الضحیٰ کے دن منا یا جا تا ہے حضرت ابر ہیم ؑ اور ان کے خاندان نے اپنی پوری زندگی اللہ کی رضاکے لیے وقف کر دی ۔

86 سا لہ بر گز یدہ پیغمبر حضرت ابرہیم ؑ جنھوں نے خدا کی جا نب سے د ی گئی ہر آزما ئش میں کا میا بی کا امتحان پا س کیا ہو بھلااللہ تعا لیٰ انکی دعا کیسے رد کر سکتے تھے حضرت ابر ہیم علیہ سلا م جو اولاد کی نعمت سے محروم تھے آپؑ نے اولا د کے لیے پر ور دگار ر عالم سے دعا کی جو منظور ہو ئی اور بی بی حا جرہ کے بیٹا پیدا ہو ا فر شتے کی بشارت کے مطا بق اس بچے کا نا م اسما عیلؑ رکھا گیا ،یہ چو نکہ ا ٓپؑ کی اکلو تی اولا د تھی اس لیے آپؑ حضرت اسما عیل ؑ سے بے حد محبت کر تے تھے ہر وقت انھیں ساتھ لیے پھرتے انھیں ایک پل کے لیے بھی اپنی نظروں سے او جھل نہ ہو نے دیتے تھے خدا کو ان کا امتحان لینا مقصود ہو ا تو حکم ہوا کہ اپنے شیر خوار بچے اور اہلیہ کومکہ کے بیا باں صحرامیں چھو ڑ دو “ آپؑ کی فر شتہ صفت اہلیہ کو جب معلوم ہو ا کہ یہی اللہ کا حکم ہے تو انھوںنے سر اطاعت خم کیا ا ٓپؑ نے حکم خداوندی کی تعمیل کی اپنے رب سے ان کی حفا ظت اور امن وا طمینا ن کی دعا کر تے ہو ئے انھیں عرب کے لق ودق صحرا میں اللہ تعالی ٰ کی خوشنودی کے لیے اکیلا چھوڑ دیا حضرت ابر اہیم ؑ کی دعا اور بی بی حاجرہؑ کی صفا ومروہ کی پہا ڑیوں پر دیوانہ وار سعی کو پرور دگا ر عالم نے ایسا قبو ل کیا کہ یہ بے بس خاتون اور بچہ نہ صرف خود آباد ہو ئے بلکہ ان کے طفیل ایک عظیم شہر آباد ہوا اور آ ج اہل مکہ ان کے صدقے ہر طرح کی نعمتو ں سے ما الامال ہے ۔

حضرت اسما عیل ؑ کی عمر مبا رک جب سات سال ہو ئی تویکم ذو الحج کو حضرت ابرا ہیم ؑ کو خواب میں اپنی سب سے عزیز چیز قر با ن کر نے کا حکم ہوا مسلسل نو راتوں کو ایک ہی خواب دیکھنے پر ا ٓپؑ نے بیٹے کو جب یہ با ت بتا ئی تو بیٹے نے کہا ابا جان ٓاپ مجھے ہر آ زما ئش میں کا میا ب پا ئیں گے آپ کو جو حکم ملا ہے کر گزرے ۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے لو گو ں میں انبیا ءکی آزا مائش سب سے زیا دہ شدید ہو تی ہے پھر جو انبیا ءکے لیے زیا دہ قر یب ہو تا ہے اس کی آز مائش بھی اتنی ہی زیا دہ سخت ہو گی جس وقت بیٹے کی قر با نی کا حکم آ یا اس وقت حضرت ابرا ہیم ؑ کی اور کو ئی اولا د نہ تھی آپؑ بیٹے کو لے کر قربا نی کے لیے نکلے تو شئطا ن نے کئی مر تبہ روکنے کی کو شش کی آخر آپ نے اسے کنکریا ں ما ر کر بھگا یا حضرت اسما عیل ؑ کو منہ کے بل لٹایا اور قربا نی کے لیے ہا تھا بڑ ھا یا تو اسی لمحے حضرت جبرا ئیل ؓ آسما ن سے خوشخبری لے کر اتر ے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ قر با نی قبو ل کی اور آپ ایک بڑی آزمائش سے سر خرو ہو ئے اللہ تبا رک تعا لیٰ کو آپ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک تما م صا حب حیثیت مسلما ن پر اسے قائم کر دیا گیا ایک روایت کے مطا بق حضر ت اسما عیل ؑ کے فدیہ میں دیے گئے مینڈھے کے سینگ ججا ج بن یو سف کے زمانے تک محفوظ تھے مگر جب حجا ج بن یو سف کے حکم پر حضرت عبدللہ بن زبیر کو حراست میں لیے جا نے کے لیے خا نہ کعبہ کو مسما ر کیا گیا تو اس دوران وہ بے مثل یا د گا ر بھی ضائع ہو گئے۔

10 ذو لحجٰ کے موقع پر ابر اہیمی عمل میںجو قر با نی دی جا تی ہے وہ در اصل جسمانی قر با نی کی صورت میں اس با مقصد قر با نی کے عزم کو دہرا یا جا تا ہے قر با نی کے وقت جب یہ دعائیہ کلمات ادا کیے جا تے ہیں کہ” بے شک میری نما ز اور میری قر با نی اورمیراجینا اور میرا مر نا اللہ رب العالمین کے لیے ہو گا“ تو در حقیقت حضرت ابرا ہیم ؑ نے اپنے وقت کی آبا د دنیا میں جوایثار، عبا دت اور اطاعت انجا م دیں اسی طرح آج تمام مسلما ن اپنے خدا کی پکا ر پر لبیک کہنے اور اپنے اندر کی روح ایما نی کو زندہ کر نے کے لیے تیا ر رہنے کا عزم لیے ہو ئے یہ دعا ئیہ کلما ت ادا کرتے ہیں کیو نکہ اللہ تعا لیٰ کی خوشنودی اور مخلوق خدا کی بھلا ئی کے لیے جان ومال کی قر با نی اللہ کے نز دیک سب سے زیا دہ پسند ید ہ عمل ہے ۔

مگر بد قسمتی سے آج قربا نی کی یہ مقدس روایت بھی اسٹیٹس سمبل کے بھینٹ چڑھ گئی ہے لو گ با گ فخریہ جا نو روں کی تعداد اور قیمتیں بتا کر بلکہ جتا کر نام و نمود کے لیے قر بانی کی رسم ادا کرتے ہیں طرح طرح کے فضول رسوم میں مشغول ہیں اپنے ا نفرادی مفا دات کو ترجیح دیتے ہیں محض دکھا وئے کے لیے ان لو گوں کے گھروں میں گو شت بھیجنے کا کیا فا ئدہ جن کے گھر قربا نی ہو ئی ہو ،گو شت کے اصل حق دار تو وہ ہیں جو قربا نی کر نے کی استطاعت نہیں رکھتے اس سال وطن عزیزمیں سیلاب کی تبا ہ کاریوں کے با عث مستحقین کی تعدادمیں اضافہ ہواہے بہت سے لو گ تو اب بھی خیموں میں زندگی بسر کر نے پر مجبور ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ اس بار قر با نی کا گوشت زیا دہ سے زیا دہ سیلا ب متا ثر ین میں تقسیم کیا جا ئے تا کہ وہ بھی ایک وقت سیر ہو کر اس نعمت خداوندی سے لطف اندوز ہو سکیں ۔

آج کے دن قر با نی کی سنت کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ قر با نی کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے حج اور قربانی کا صیح مفہو م فر ما نبرداری ،خلوص اور ایثار ہے اور آج کا دن ہمیںاپنے دین اپنے ملک اوراپنے ہم وطنوں کے ساتھ مل جل کر آپس میں محبت وایثا ر کا درس دیتا ہے
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 161523 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.