قربانی کے احکام و مسائل

ِ عن البراءرضی اللّٰہ عنہ قال خطبنا النبی ﷺ یوم النحر فقال ان اول ما نبدا بہ فی یسومنا ھٰذا ان نصلی ثم نرجع فننحر فمن فعل ذالک فقد اصاب سنتنا ومن ذبح قبل ان نصلی وانما ھو شاة لحم مجلہ لاھلہ لیس من النسک فی شی ء۔حضرت براءرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے عید قربان کے دن ہمیں خطبہ دیا آپ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے ہمیں آج کے دن نماز پڑھنی چاہیے ۔پھر لوٹ کر قربانی کرنی چاہیے ۔جس نے ایسا کیا اس نے سنت پر عمل کیا اور جس نے ہماری نماز پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر لیا تو وہ قربانی گوشت کی بکری ہے جس کو اس نے اپنے گھر والوں کے لئے جلدی سے ذبح کر لیا ہے ۔قربانی نہیں ۔(مسلم شریف)

قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ہے ۔یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو بارگاہِ رب العزت میں انتہائی مقبول ہے کیونکہ قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور بندہ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کر کے در حقیقت اپنے جذبہ عبودیت کا اظہار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو بڑا ہی پسند ہے کیونکہ توحید باری تعالیٰ کا سب سے بڑا تقاضہ یہی ہے کہ انسان کی محبت کا محور صرف ذات باری تعالیٰ ہو اس کی جان نثاری ،اس کی عبادت غرض کہ اس کا ہر فعل اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اسی طرح انسان کے مال و جان کی قربانی بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہو ۔لیکن انسان اپنے ابتدائی دور ہی میں زندگی کے اس مقصد سے دور ہو گیا ۔شیطان نے صراطِ مستقیم سے اسے بھٹکا دیا اس کی سوچ کو محسوسات کا گرویدہ کر دیا اور اسکے دل میں یہ وسوسہ ڈال دیا کہ توبن دیکھے خدا کو کیوں مانتا ہے؟ چونکہ حضرت انسان خدائے واحد کی پوجا کو چھوڑ کر مظاہر فطرت اور اپنے ہاتھ سے تراشیدہ بتوں کے آگے جھکنے لگا ۔اپنی محبت ،عجز و نیاز ،عقیدت اور ایثار و قربانی انہی بتوں کے لئے مخصوص کر بیٹھا ۔ آخر اللہ تعالیٰ کو اپنے تخلیق کر دہ انسان پر رحم آیا او ر اس نے مختلف اوقات میں اپنے برگزیدہ پیغمبروں کو مبعوث فرمایا کہ وہ اہل دنیا کو راہ حق کا درس دیں اور اسی سلسلہ کی آخری ہستی حضور انور سید دو عالم حضرت محمد ﷺ کے ذریعے لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ تمہاری ہر طرح کی عبادت اور قربانی صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے تاکہ انسان اللہ کے حضور سر بسجود رہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نظام عبادت میں ہر لحظہ قربانی کا وجود پایا جاتا ہے یعنی نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے ۔زکوٰة انسان کے مال وزر کی قربانی ہے ۔حج بیت اللہ بھی انسان کی ہمت ،مال و زر کی قربانی ہے غرض کہ حقوق اللہ اورحقوق العباد میں بہت سے تقاضے ایسے ہیںجو انسانی قربانی کے مترادف ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو لاکھوں نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں سے ایک عظیم نعمت عید قربان بھی ہے ۔مسلمان اس عید کے دن تین ایام میں مخصوص جانوروں کو ذبح کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور بطور ہدیہ پیش کرتے ہیں لیکن جب تک ہمیں صحیح طور پر قربانی کے فضائل و مسائل کا علم نہ ہو گا اس وقت تک اطمینانِ قلبی کا حصول ممکن نہیں ۔اسی عظیم مقصد کے تحت درج ذیل سطور ضبط تحریر میں لائی جا رہی ہیں۔

قرآن اور قربانی:انسان کی طرح قربانی کی تاریخ بھی بہت قدیم ہے چنانچہ قرآن مجید کی مختلف آیات مقدسہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی امتِ محمدی ﷺ سے قبل امتوں پر بھی لازم تھی ۔حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا تذکرہ قرآن حکیم میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

ترجمہ آیت نمبر1:” اور ہر امت کے لئے ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں اسکے دیئے ہوئے بے زبان چوپائیوں پر “

یعنی مطلب یہ ہے کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے لیکر سابقہ تمام امتوں میں سے ہر امت کے لئے قربانی کا ایک خاص طریقہ مقرر کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی قربانیوں پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیں۔

ترجمہ آیت نمبر 2:”اللہ تعالیٰ کو ہر گز ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ۔ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک بار یاب ہوتی ہے ۔“

اس آیت مقدسہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اللہ کے لئے تقوی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کسی جانور کے خون یا گوشت کو قبول نہیں فرماتا مزید بر آں یہ تنبیہ ہے کہ جب کسی عمل کی نیت نہ صحیح ہو تو اس عمل کا کوئی فائد نہیں ہے ۔

ترجمہ آیت نمبر3: ”تو تم اپنے رب کے لئے نماز اور قربانی کرو۔“

مفسر شہیرمفتی احمد یار خان نعیمی رحمة اللہ علیہ میں لکھتے ہیں کہ قربانی اسلامی شعار ہے اس کے بدلہ میں قیمت وغیرہ نہیں دی جا سکتی حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت امام حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نحر سے مراد قربانی کے اونٹ اور دوسرے جانوروں کو اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنا ہے ۔

حدیث اور قربانی
حدیث نمبر1:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دس برس تک مدینہ منورہ میں رہے اور برابر قربانی کرتے رہے ۔(جامع ترمذی جلد نمبر1صفحہ نمبر277)
حدیث نمبر2:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عید قربان کے دن حضور اقدس ﷺ مدینہ منورہ میں اونٹ یا کسی دوسرے جانور کی قربانی کرتے ۔ (سنن النسائی صفحہ202)
حدیث نمبر3:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں گندمی رنگ کے دو مینڈھے ذبح کئے ۔(صحیح بخاری جلد نمبر2صفحہ835)
حدیث نمبر4:حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہر صاحب نصاب پر سال بھر میں ایک قربانی واجب ہے ۔(ابن ماجہ صفحہ226)

فضائل قربانی:دین اسلام میں قربانی کی بے پناہ فضیلت ہے کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو اللہ کریم کی بارگاہ میں بہت زیادہ قبولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی بنا پر قربانی کی ضرورت و اہمیت کتاب و سنت میں بڑی شد و مد کے ساتھ بیان کی گئی ہے کیونکہ اسلامی معاشرے میں تعمیری طور پر قربانی کے بے شمار فوائد ہیں ۔قربانی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ انسانی افکار میں جذبہ ادائے اطاعت پیدا کیا جائے اسی عظیم جذبہ کے تحت انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے جانور کو قربان کرے جس سے اس میں حکم خدا وندی پر عمل پیر ا رہنے کی قوت برقرار رہے ۔

الغرض قربانی کے ظاہر فعل سے جو فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

حدیث نمبر5:حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ۔کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بیان فرمایا ”اے فاطمہ ! کھڑی ہو ! اور اپنی قربانی پر حاضر ہو بیشک قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کیساتھ لایا جائے گا اور اسے ستر گنا بڑھا کر تمہارے میزان میں وزن کیا جائے گا حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما نے کہا :یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ اجر اٰل محمد ﷺ کیساتھ مخصوص ہے کیونکہ وہ اس خیر کے اہل ہیں یا آل محمد اور تمام لوگوں کے لئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا بلکہ یہ اجر آل محمد ﷺ اور تمام لوگوں کے لئے ہے۔(کتب احادیث)

قربانی نہ کرنے پر وعید :اگر کوئی قربانی واجب ہونے کے باوجود نہ کرے تو وہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا نافرمان ہے۔ قرآن مجید فرقانِ حمید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔فصل لربک وانحر۔ترجمہ ”اور تم رب کےلئے نماز پڑھو اور قربانی کرو ۔“ نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے استطاعت کے باوجود قربانی نہ کی وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔(ابن ماجہ جلد2صفحہ232)

قربانی کا حکم :حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اور تمام احناف کے نزدیک قربانی واجب ہے۔ جس کا ثبوت مندرجہ ذیل حدیث مبارک سے ہو رہا ہے۔روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کیا قربانی واجب ہے ؟

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کی اور مسلمانوں نے قربانی کی اس نے پھر سوال کیا تو انہوں نے کہا کیا تم میں عقل ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کی اور مسلمانوں نے قربانی کی ۔(جامع الترمذی)

قربانی سنت ابراہیمی:حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔آپ ﷺ سے پوچھا گیا ہمارے لئے ان میں کیا اجر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے آپ ﷺ سے پوچھا گیا اور خون کے بدلہ میں ؟آپ ﷺ نے فرمایا ہر خون کے قطرے کے بدلہ میں ایک نیکی ہے ۔(ابن ماجہ جلد نمبردو م صفحہ نمبر233)

قربانی کے واجب ہونے کی شرائط:

قربانی واجب ہونے کی چند شرائط ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔مسلمان ہونا کیونکہ غیرمسلم کےلئے قربانی نہیں ہے۔
۲۔مقیم ہونا لہٰذا مسافر پر قربانی کرنا ضروری نہیں البتہ وہ نفلی قربانی کرسکتا ہے ۔
۳۔صاحب نصاب ہونا ،صاحب نصاب سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ملکیت ہو جو قرض یا حاجت اصلیہ کے علاوہ موجود ہو۔
۴۔بالغ ہونا لہٰذا نا بالغ بچہ خواہ کتنا ہی مالدار ہو اس پر قربانی کرنا لازم نہیں ہے ۔(ہدایہ شریف جلد نمبر2و فتاویٰ رضویہ جلد نمبر20)

مقروض کے لئے قربانی کا حکم:اگر کوئی شخص اتنا مقروض ہو کہ اس کے پاس قرض کی ادائیگی کے بعد نصاب کے برابر حاجت اصلیہ سے زائد دولت موجود ہو تو اس پر قربانی واجب ہے ورنہ نہیں ۔ہاں اگر قربانی پھر بھی کرتا ہے تو ثواب کا پورا پورا مستحق ہو گا۔

عورت کے لئے قربانی کا حکم:اگر کوئی عورت صاحب نصاب ہو یعنی اسکے پاس مذکورہ بالا نصاب کے برابر دولت موجودہو تو اس پر علیحدہ اپنی قربانی کرنا واجب ہے ۔

قربانی کی بجائے رقم صدقہ کرنا:جس شخص پر قربانی واجب ہے اور وہ قربانی کی بجائے اتنی رقم صدقہ کر دے تو اس کی طرف سے واجب کی ادائیگی نہیں ہو گی ۔ ہاں البتہ ! اسے صدقہ کا ثواب علیحدہ سے ملے گا ۔
فوت شدہ والدین کی طرف سے قربانی کرنا :والدین اور دیگر قرابت داروں کے لئے ایصال ثواب کرنا درست ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اپنی ذاتی قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ مزید قربانی کرتا ہے تو اس کا ثواب والدین یا قریبی رشتہ داروں کو ایصال کرسکتا ہے اگر اپنی قربانی نہیں کرتا اور دوسرے لوگوں کو ایصال ثواب کےلئے ان کی نیت سے قربانی کرتا ہے تو فوت شدہ لوگوں کو ثواب مل جائے گا لیکن یہ خود جس پر شریعت کی طرف سے قربانی واجب ہے اپنی قربانی نہ کرنے کی وجہ سے گناہ کا مرتکب ہو گا۔

فوت شدہ آدمی کی وصیت پر قربانی کرنا:اگر کوئی شخص فوت ہونے سے پہلے وصیت کرتا ہے کہ میری طرف سے قربانی کرتے رہنا تو اس کی طرف سے جس کو وصیت کی گئی ہے وہ قربانی کرے اور مستحب یہ ہے کہ سارے کا سارا گوشت فقراءمیں تقسیم کر دیا جائے ۔(فتاویٰ رضویہ جلد نمبر20صفحہ نمبر460)

قربانی کا جانور:مینڈھا ، بھیڑ اور دنبہ افضل ہے اور بکرا بکری سے افضل ہے ۔گائے بیل سے اور اونٹنی اونٹ سے افضل ہے ۔جبکہ گوشت اور قیمت میں برابر ہو اگر گوشت کی مقدار میں فرق ہو جس میں گوشت زیادہ ہوں وہ افضل ہے ۔(بہار شریعت جلد نمبر2)

ایک گھر میں ایک سے زائد صاحب نصاب:کیونکہ شریعت کی رو سے ہر عاقل بالغ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے عمل کا جوابدہ ہے لہٰذا اگر ایک گھر میں ایک سے زائد صاحب نصاب ہوں یعنی عاقل بالغ اور صاحب نصاب ہوں تو ہر ایک پر علیحدہ علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے صرف ایک قربانی سب گھر والوں کے لئے کافی نہیں ہو گی ۔

جانور ادھار لے کر قربانی کرنا:اگر آدمی صاحب نصاب نہیں ہے البتہ عاقل اور بالغ ہے اُس کے لئے اور جانور ادھارلے کر قربانی کرنا بھی جائز ہے اور وہ پورے ثواب کا مستحق بھی ہے ۔

قربانی کے جانور مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کرنا:اگر کوئی شخص قربانی کا جانور مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کر دے تو قربانی نہیں ہو گی البتہ ذبح کرنے والے کو اسکی قیمت ادا کرنا پڑے گی ۔

قربانی کے جانور کا قربانی کرنے والے کی ملکیت ہونا:قربانی کا جانور قربانی کرنے والے کی ملکیت ہونا ضروری ہے ورنہ قربانی قابل قبول نہ ہو گی ۔

قربانی کے جانور کا مرجانا :اگر قربانی کا جانور مرجائے تو غنی پر دوسرے جانور کی قربانی ضروری ہو گی جبکہ فقیر پر ضروری نہ ہو گی ۔

قربانی کے جانور کے پیٹ سے بچہ نکلنا:قربانی کے جانور کو ذبح کیا اور اس کے پیٹ سے بچہ نکلا تو قربانی بالکل جائز اور درست ہو گی اگر بچہ مردہ نکلے تو اسکے گوشت کو کھانا حرام جبکہ بچہ زندہ نکلے تو ذبح کرنے سے حلال ہو جائے گا۔

قربانی کا ایک جانور فروخت کر کے نیا خریدنا:صاحب نصاب قربانی کے جانور کو فروخت کر کے اس کے برابر دوسرا جانور خرید سکتا ہے اور اگر رقم بچ جائے تو اس رقم کو صدقہ کر دے ۔

اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ قربانی:نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ قربانی وہ ہے جو زیادہ مہنگی ہو۔

قربانی کن جانوروں کی جائز ہے ؟:بکرا ،دنبہ ،اور بھیڑ کی قربانی ایک شخص ہی کر سکتا ہے جبکہ گائے بھینس اور اونٹ میں سات آدمی شامل ہو سکتے ہیں لیکن اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ شرکاءکی نیت قربانی ہی کی ہو نہ کہ گوشت کھانے کی ۔البتہ قربانی کے ساتھ ساتھ عقیقہ کو شامل کیا جا سکتا ہے ۔

قربانی کے جانور کی عمر:بکرا، بکری ایک سال کا ہونا ضروری ہے ۔اس سے ایک دن بھی کم ہو گا تو قربانی کے قابل نہیں ہے ۔ بھیڑ اور دنبہ چھہ ماہ کا اور اتنا موٹا تازہ ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہو تو وہ بھی جائز ہے ۔گائے اور بھینس کا دوسال اور اونٹ سال کا ہونا ضروری ہے ۔

قربانی کے جانور کے بارے میں مستحب امور:
۱۔ قربانی کے جانور کے بارے میں مستحب یہ ہے کہ وہ خصی ہو۔
۲۔ قربانی کا جانور موٹا اور خوبصورت ہو کیونکہ وہ آخرت کی سواری ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنی قربانی کے جانوروں کو خوب پالا کر و وہ پل صراط پر تمہاری سواریاں ہوں گے۔
۳۔ قربانی کرنے سے چند ایام پہلے قربانی کے جانور کو باندھنا اوراس کے گلے میں ہارڈالنا بھی مستحب ہے۔
۴۔ قربانی کے جانور کو آہستہ آہستہ قربان گاہ کی طرف لے جایا جائے ۔

قربانی کرنے والے کےلئے استحاب امور:
۱۔ قربانی کرنے والے کے لئے مستحب یہ ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے اور اگر خود نہ کر سکے تو ایسے شخص سے ذبح کرائے جو اچھی طرح مسائل کو جانتا ہو۔
۲۔ قربانی کرنے والے شخص کو چاہےے کہ وہ قربانی کے روز صبح کے وقت کچھ نہ کھائے اور اس کا پہلا کھانا قربانی کا گوشت ہی ہو ۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺعید الفطر پر کچھ کھائے بغیر عید گاہ نہیں جاتے تھے اور عید الاضحی کے دن عید گاہ سے واپس آئے بغیر نہیں کھاتے تھے پھر آکر آپ اپنی قربانی کی کلیجی سے کھاتے تھے ۔(کتب احادیث)

رسول اللّٰہ ﷺ کی طرف سے قربانی کرنا:اپنی واجب قربانی ادا کرنے کے بعد حضور اکرم ﷺ کی ذ ات اقدس کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کرنا افضل ہے اس کا ثواب قربانی کرنے والے کو بھی ملے گا۔

قربانی کرنے کا وقت:قربانی کا وقت دس ذی الحجہ کی طلوع صبح صادق سے لے کر بارہ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک یعنی تین دن اور دو راتیں ہے ۔البتہ غلطی کے احتمال کی وجہ سے رات کو قربانی کرنامکروہ ہے ۔عید الاضحی کے چوتھے دن قربانی کرنا جائز نہیں اگر کسی نے چوتھے دن قربانی کی تو اس پر لازم ہے کہ گوشت اور کھال صدقہ کر دے اور زندہ و ذبح شدہ جانور کی قیمت میں جو فرق آیا وہ بھی صدقہ کر دے ۔

شرکائے قربانی میں کسی کا کافر ہونا:اگر شرکائے قربانی میں سے کوئی کافر (یا بد مذہب) ہو تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہو گی ۔لہٰذا شرکاءکا انتخاب جانچ پڑتال کے ساتھ کیا جائے ۔اہل سنت کے لئے بد عقیدہ لوگوں کی اجتماعی قربانی میں شرکت کرنا یا انہیں قربانی کی رقم مہیا کردینا حرام ہے اس طرح قربانی نہیں ہو گی ۔
شرکاءکی نیت کا مختلف ہونا:اگر قربانی کے جانور کے شرکاءمیں سے کسی کی نیت گوشت کا حصول ہو قربانی کرنا مقصود نہ ہو تو کسی کی قربانی نہیں ہو گی ۔لہٰذاپہلے شرکاءمیں سے ہر ایک کی نیت کا معلوم کرلینا ضروری ہے ۔

شرکاءمیں گوشت تقسیم کرنے کا طریقہ:شرکاءمیں اندازے سے گوشت تقسیم کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ وزن کر کے تقسیم کیا جائے ۔

قربانی کے جانور میں شرکاءکی تعداد:بھیڑ ،دنبہ ،بکری اور بکرا فقط ایک آدمی کی طرف سے ذبح کیے جا سکتے ہیں جبکہ گائے ،بیل ،بھینس ،بھینسا ، اونٹ ،اونٹنی میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں کیونکہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا گائے کی قربانی سات کی طرف سے ہو سکتی ہے اور اونٹ کی قربانی سات کی طرف سے ہو سکتی ہے ۔(کتب احادیث)

آداب قربانی:قربانی کے جانور کا دودھ نکالنا جائز نہیں اور نہ ہی بال کاٹنا جائز ہے اگر ایسا کیا تو دودھ ،بال یا اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے ۔

اندھے جانور کی قربانی:ایسا جانور جو کہ اندھا ہو اس کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے ۔

کانے جانور کی قربانی :جس جانور کا کانا پن ظاہر ہو اس کی قربانی ناجائز ہے ۔

دم کٹے جانور کی قربانی : اگر کسی جانور کی دم تہائی سے زیادہ کاٹ لے گئی یا اسے کوئی بھیڑیا وغیرہ کھا گیا تو اسکی قربانی وغیر نہیں ہو سکتی ۔

جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں اسکی قربانی: جس جانور کے دونوں یا ایک کان پیدائشی طور پر نہ ہوں تو اس کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے ۔

خنثیٰ جانور کی قربانی: ایسا جانور جس میں نرو مادہ دونوں کی علامات پائی جاتی ہوں اس کی قربانی کرنا ناجائز ہے۔

جس جانور کے کان چھوٹے ہوں: جس جانور کے کان چھوٹے ہوں اسکی قربانی کرنا جائز ہے ۔

خارشی جانور کی قربانی :اگر خارشی جانور خوب موٹا تازہ ہو تو اس کی قربانی کرنا جائز ہے اور اگر اتنا لاغر ہو کہ اسکی ہڈی میں مغزنہ ہو تو ناجائز ہے ۔

جس جانور کا سینگ ٹوٹ جائے : جس جانور کا سینگ جڑ سے ٹوٹا ہو تو اسکی قربانی کرنا جائز نہیں ۔

جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں:جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا اس کے سینگ کا کچھ حصہ ٹوٹ جائے تو اس کی قربانی کرنا جائز ہے ۔

جس جانور کے دانت نہ ہوں:جس جانور کے دانت نہ ہوں اگر وہ چارہ کھا لیتا ہے تو اس کی قربانی جائز ہے اگر چارہ نہیں کھا سکتا تو جائز نہیں ہے ۔

ناک کٹے جانور کی قربانی :جس جانور کی ناک کٹی ہو اور وہ چارہ کھالیتا ہے تو اس کی قربانی جائز ہے اگر چارہ نہیں کھا سکتا تو جائز نہیں۔

حلال جانور کے مکروہ و حرام اجزائ:حلا ل جانور کے مندرجہ ذیل اجزاءکھانا مکروہ ہیں ۔آلہ تناسل ،مادہ جانور کے پیشاب کی جگہ ،خصیتین ،دبر کی جگہ ،مثانہ ،حرام مغز ،اوجھڑی، آنتیں ذبح کے وقت بہنے والے خون کو کھانا حرام ہے ۔

تھن کٹے جانور کی قربانی: جس جانور کے تھن بالکل کٹے ہوئے ہوں یا ایک تھن تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو اس کی قربانی جائز نہیں ۔اگر بکری کے ایک تھن کا سرکٹ جائے اور گائے دو تھنوں کا سر کٹ جائے تو ان کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے ۔

تھن سوکھے جانور کی قربانی:اگر بیماری کی وجہ سے بھیڑ ،بکری کا ایک تھن یا گائے ،بھینس اور اونٹنی کے دو تھن سو کھ گئے ہوں تو ان کی قربانی کرنا جائز نہیں اور اگر بغیر بیماری کے سوکھ جائیں تو پھر ان جانوروں کی قربانی کرنا جائز ہے ۔

لنگڑے جانور کی قربانی :جوجانور ایسا لنگڑا ہو کہ فقط تین پاﺅں سے چلتا ہو اور چوتھا پاﺅں زمیں پر نہیں رکھ سکتا ہو اس کے بغیر چل نہیں سکتا تو اس کی قربانی کرنا جائز نہیں اور اگر چوتھا پاﺅں ٹیک کر چل سکتا ہے تو قربانی کرنا جائز ہے ۔

کمزور جانور کی قربانی:ایسے دبلے کمزور جانور کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے جس کی ہڈیوں میں گودانہ رہا ہو اگر اتنا کمزورنہ ہو تو پھر جائز ہے ۔

جو جانور خریدنے کے بعد عیب دار ہو جائے : خریدتے وقت جانور میں کوئی عیب ایسا نہ تھا جس کی وجہ سے قربانی ناجائز ہو جاتی ہے لیکن خرید نے بعد عیب پیدا ہو گیا تو دیکھا جائے گا اگر وہ شخص صاحب نصاب ہے تو دوسرے جانور کی قربانی دے اور اگر مالک نصاب نہیں تو اسی کی قربانی دے ۔

کان چرے جانور کی قربانی:جس جانور کا کان چرا ہوا ہو یا اس پر سوراخ ہو بشرطیکہ سوراخ کان کی تہائی سے کم اس کی قربانی کرنا جائز ہے ۔

قربانی کے جانورکا مرجانا: اگر قربانی کا جانور مر جائے تو مالدار پر لازم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرے جبکہ فقیر پر دوسرا جانور خریدنا لازم نہیں۔

دو آدمیوں کا ایک جانور کا ذبح کرنا: اگر کسی شخص نے دوسرے سے ذبح کرایا اور خود اپنے ہاتھ بھی چھری پر رکھ دیا کہ دونوں مل کر ذبح کریں تو دونوں پر بسم اللہ پڑھنا واجب ہے اگر ان میں سے کسی ایک نے قصدا چھوڑ دی یا یہ خیال کر کے چھوڑ دی کہ دوسرے نے پڑھ لی ہو گی دونوں صورتوں میں جانور حلال نہیں ہو گا۔

بوقت ذبح جانور کی گردن کا جدا ہونا:جانور کو اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام مغز تک پہنچ جائے یا سر کٹ کر جدا ہو جائے مکروہ ہے مگر وہ ذبیحہ کھایا جائے یعنی کراہت اس فعل میں ہے نہ کہ ذبیحہ میں۔

تمام لوگوں میں مشہور ہے کہ ذبح کرنے میں اگر سر جدا ہو جائے تو سر کا کھانا مکروہ ہے یہ درست نہیں بلکہ فقہاءکا یہ ارشاد ہے کہ ذبیحہ کھایا جائے گا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سر بھی کھایا جائے گا۔

ذبح کے وقت مستحب امور:
۱۔ قربانی کے دنوں میں مستحب یہ ہے کہ پہلے دن قربانی کی جائے ۔
۲۔ دن کے وقت قربانی کرنا مستحب ہے۔

قربانی کے گوشت کی تقسیم:گوشت تقسیم کرنے کی تین صورتیں ہیں۔
۱۔ سارا گوشت غرباءو مساکین میں تقسیم کردیا جائے ۔
۲۔ اگر ضرورت ہو تو سارا گوشت گھر رکھ لیا جائے ۔
۳۔ گوشت کے تین حصے کئے جائیں ایک غرباءو مساکین میں تقسیم کر دیا جائے ایک حصہ دوست احباب میں جبکہ ایک حصہ گھر والوں کے لئے رکھ لیا جائے ۔یہی طریقہ سب سے عمدہ ہے اور بہترین ہے کیونکہ اس طرح مقصد قربانی پایا جاتا ہے ۔جو کہ ایثار و شفقت علی خلق اللہ ہے ۔اگر میت کی طرف سے قربانی کی گئی ہو تو اس کی قربانی کے گوشت کی تقسیم بھی اسی طرح ہو گی ۔اگر میت نے مرنے سے قبل قربانی کی وصیت کر رکھی تھی تو پھر سارا گوشت تقسیم کیا جائے گا۔

جانور کی کھال کا مصرف:قربانی کے جانور کی کھال کے بے شمار مصارف ہیں ان میں سے چند ایک کو قلمبند کیا جاتاہے ۔

ذاتی استعمال میں لانا: قربانی کی کھال کو جائے نماز ،مشکیزہ ،یا موزے وغیرہ بناکر اپنے ذاتی استعمال میں لانا بھی جائز ہے ۔

مگر کھال کو بیچ کر رقم ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے اب اس رقم کو صدقہ کرنا ضروری ہے ۔
قربانی کی کھال امام و خطیب کو دینا:قربانی کے جانور کی کھال امام و خطیب کو بطور ہدیہ دینا جائز ہے جبکہ معاوضہ کے طور پر دینا جائز نہیں ہے ۔

مالدار امام کا اپنے لئے کھال مانگنا: اگر امام مالدار ہو تو اس کا قربانی کی کھال اپنے لےے مانگنا بہت برا ہے اور منصبِ امامت کی تذلیل ہے ۔

قربانی کی کھال کو فروخت کرنا: اگر کوئی شخص قربانی کی کھال کو اپنے مصرف میں لانے کےلئے فروخت کرتا ہے تو اس کی قیمت صدقہ کرنا لازمی ہے ورنہ قربانی نہیں ہو گی اور اگر کھال کو اس لئے فروخت کرتا ہے کہ اس کی قیمت کسی مدرسہ میں دے گا تو پھر کوئی حرج نہیں ۔لیکن جہاد کے نام پر فساد پھیلانے والی تنظیموں کو کھال نہیں دینی چاہئے ۔

قربانی کی کھال کا مصرف کیا کیا ہو سکتا ہے :قربانی کی کھال ہر اُس کام میں صرف کی جا سکتی ہے جو باعث ثواب ہے ۔البتہ فنکاروں کو دینا مناسب نہیں۔

قربانی کی کھال کا بہترین مصرف: قربانی کی کھال کا بہترین مصرف دینی مدارس اہلسنت و جماعت ہیں ۔مدارس میں کھال صدقہ جاریہ بن جاتی ہے ۔

قربانی کا چمڑا قصاب کو دینا: قربانی کا چمڑا گوشت یا اس میں سے کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو اُجرت میں دینا جائز نہیں ہے ۔

قربانی کی کھال مالدار بیوہ کو دینا: بعض لوگ قربانی کی کھال کی قیمت بیوہ عورتوں کو دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے پاس سونا چاندی یا نقد بقدر نصاب موجود ہے کہ نہیں ہاں اگر بیوہ عورت غریب ہے تو اسے قربانی کی کھال دینا صحیح ورنہ نہیں۔

قربانی کے جانور کی چربی ،سری پائے اور اون وغیرہ کا حکم: قربانی کرنے کے بعد جانور کی چربی ،سری پائے ،اون ،بال اور دودھ وغیرہ کو ایسی چیز کے عوض فروخت نہیں کرنا چاہےے جس سے بعینہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا جیسے روپے پیسے اور کھانے پینے کی چیزیں ۔اسی طرح ان چیزوں کو فروخت کر دیا تو ان کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے ۔

جانوروں کی کتنی رگوں کو کاٹنا ضروری ہے :جانوروں کی چار رگوں میں سے کم از کم تین کا کٹنا ضروری ہے اور کوشش تو یہ ہونا چاہےے کہ چاروں کی چاروں رگیں کاٹی جائیں اگر تین سے کم کٹیں تو جانور حلال نہ ہو گا۔

ذبح میں کاٹی جانے والی رگیں:جو رگیں ذبح میںکاٹی جاتی ہیں وہ چار ہیں۔
۱۔ حلقوم۔یہ وہ ہے جس میں سانس آتی ہے ۔
۲۔ وتری ۔اس سے کھانا یا پانی اُتر تا ہے ۔
۳۔ ان دونوں کے اغل بغل اور دو رگیں ہیں جن کو درجین کہتے ہیں۔

کافر کی چھری سے ذبح کرنا :کا فر کی چھری سے ذبح کرنا ممنوع و گناہ ہے ۔

کس کا ذبیحہ حلا ل اور کس کا حرام ہے :کافر ،مرتد ،مشرک ،بد مذہب،قادیانی ،مجوسی ،مجنوں، ناسمجھ اور وہ شخص جو قصداً تکبیر ترک کردے اس کا ذبیحہ حرام و مردار ہے اور ان کے علاوہ کا ذبیحہ حلال ہے جبکہ رگیں ٹھیک ٹھیک کٹ جائیں۔

ذبح کرنے کی جگہ :پورا حلقوم ذبح کی جگہ ہے ۔یعنی اس کے اعلیٰ ،اوسط ، اسفل ،جس جگہ میں ذبح کی جائے جانور حلال ہو گا۔ آج کل چونکہ چمڑے کا نرخ زیادہ ہے اور یہ وزن یا ناپ سے فروخت ہوتا ہے اس لئے قصاب کو شش کرتے ہیں کہ کسی طرح چمڑے کی مقدار بڑھ جائے اور اس کے لئے یہ ترکیب کرتے ہیں کہ بہت اوپر سے ذبح کرتے ہیں اور اس میں علماءکا اختلاف ہے کہ جانور حلال ہو گا یا نہیں اس باب میں قول فعیل یہ ہے کہ ذبح فوق العقدہ میں اگر تین رگیں کٹ جائیں تو جانور حلال ہے ورنہ نہیں ۔

جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ اور دعا:قربانی کرنے سے پہلے جانور کو چارہ پانی دے دیں بھوکا پیاسا ذبح نہ کریں اور ایک جانور کو دوسرے کے سامنے نہ ذبح کریں چھری پہلے سے تیز کر لیںجانورکو بائیں پہلو میں اس طرح لٹائیں کہ قبلہ کو اسکا منہ ہو اور اپنا داھنا پاﺅں اس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری سے جلدی جلدی اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو اس کے پاس کھڑے رہیں ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھیں۔اِنِّی وَجَہتُ وَجہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰاتِ وَالاَرضَ حَنِیفاً وَّ مَا اَنَا مِنَ المُشرِکِین، اِنَّ صَلَاتِی وَ نُسُکِی وَ مَحیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِین، لَا شَرِیکَ لَہُ وَ بِذٰلِکَ اُمِرتُ وَ اَنَا مِنَ المُسلِمِینَ،پھر جانور کی گردن پر چھری رکھیں اور بلند آواز پڑھیں بسم اللہ اللہ اکبر یہ تکبیر ذبح کرنے والا پڑھے اور اگر آپ نے بھی چھری پر ہاتھ رکھا ہوا ہے تو آپ بھی پڑھیں نیز اگر آپ دوسرے کی طرف سے ذبح کر رہے ہیں تو مِنیِ کی جگہ مِن ± کے بعد اس کا نام لیں جانور کی چار یا تین رگیں کاٹنا ضروری ہےں ۔نہ تو اس سے کم ہو ں اور نہ ہی زیادہ ۔جانور کو ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھیں۔اَللّٰھُمَّ تَقَبَّل مِنِّی کَمَا تَقَبَّلتَ مِن خَلِیلِکَ اِبرَاھِیمَ عَلَیہِ السَّلاَم وَ حَبِیبِکَ مُحَمَّد ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں تمام احکامات قربانی اور مسائل پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 615904 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.