سرمایہ داری نظام کے خلاف
نیویارک سے پھوٹنے والے عوامی مظاہروں نے پہلے امریکہ کے 70 سے زیادہ شہروں
کو اپنی لپیٹ میں لیا اور اب یہ طوفان آگ کی مانند پورے یورپ میں پھیلتا
ہوا دیکھائی دے رہا ہے۔ جس طرح ماضی میں یہ کہا جاتا تھا کہ ایک دن کیمونزم
کو ماسکو کی دیواروں کے اندر بھی پناہ نہیں ملے گی، اسی طرح اب صاف
دیکھائی دے رہا ہے کہ انسانیت کُش سرمایہ داری نظام کو خود سرمایہ داری کے
سب سے بڑے گڑھ نیو یارک میں دفن ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اب سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ کیمونزم نظام جس وقت تحلیل ہوا تو اس کی جگہ سرمایہ داری
نظام نے لے لی تھی لیکن جب سرمایہ داری نظام عنقریب ڈالر کے ساتھ ڈوب جائے
گا تو کون سا معاشی نظام اس کی جگہ لے گا؟ اس تمام خلا کو پُر کرنے کے لئے
صرف اسلام کا اقتصادی نظام رہ جاتا ہے جو کاغذ کی فراڈ کرنسی کی بجائے اصل
زر یعنی سونے اور چاندی میں لین دین کو حرکت میں لاتا ہے۔
سرمایہ داری کے زوال کے معاشی پہلو اپنی جگہ خاصے ٹھوس ہیں لیکن اس کا ایک
پہلو سیاسی بھی ہے جو تاریخ انسانیت میں انتہائی حیران کُن ہے۔سیاسیات کے
سکالروں اور طالبعلموں کے لئے اس میںاللہ رب العزت کی بڑی واضح نشانیاں
موجود ہیں۔ سابق سوویت یونین اور امریکہ کو اگر دو ملکوں پر قیاس نہ کیا
جائے تو یہ دونوں اپنی اپنی جگہ دو نظاموں کے نمائندے ضرور کہلائیں گے اور
اس ساری بساط میںسیاسی پہلو کے حوالے افغانستان اس میںمرکزی محور
ہے۔حیران کُن بات یہ ہے کہ ان دونوں انسانی ساختہ و پرواختہ نظاموں پر سب
سے زیادہ کاری ضرب اسی خطے میں لگائی گئی۔ افغانستان جسے پتھر کے زمانے کا
ملک کہا گیا، جو لاقانونیت میں صف اول میں شمار کیا جاتا رہا، غربت کا یہ
حال ہے کہ یہاں خارجی استعماریت کے خلاف مزاحمت کاروں کے پیروں میں ایک
جیسی جوتیاں بھی نہیں ہوتیں۔ قبضے کے دوران کاروبار تجارت اور کسی بھی قسم
کی معاشی سرگرمی کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔ لیکن اس کے باوجود یہ “جان
لیوا حالات” یہاں کے لوگوں کے معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ
ایک عالمی قوت اپنے مضبوط نظام اور عسکری قوت کے ساتھ یہاں حملہ آور ہوتی
ہے اور ٹھیک بارہ برس بعد وہ اور اس کا کیمونزم کانظام تاریخ کا حصہ بن
جاتے ہیں۔ سوویت یونین کی تحلیل کے دس برس بعد دنیا میں رہ جانے والی واحد
عالمی قوت امریکہ اسی خطے پہ لشکر کشی کرتا ہے۔ اور ٹھیک گیارویں برس اس کے
اپنے ملک میں اقتصادیات کا دھڑن تختہ ہوچکا ہوتا ہے۔ یوں سرمایہ دارانہ
نظام امریکہ کی بیل آؤٹ پالیسی کی ڈرپ کے سہارے پر آجاتا ہے، جبکہ 2012ء
میں اس لشکر کشی کو 12 برس ہوجائیں گے۔۔۔!!! بارہ برس سوویت یونین کو لگے
تھے اور اتنا ہی عرصہ امریکہ کو لگ رہا ہے۔ کیا یہ سب محض اتفاقات ہیں ؟
کیا یہ سب بھی اتفاق ہے کہ جدید تاریخ کے دو بڑے عالمی نظام (کیمونزم اور
سرمایہ داری) کھنڈر بنے کابل میں ہی دم توڑ دیں گے؟ افغانستان میں ایسی کیا
مقناطیسی قوت ہے جو مکافات عمل کے ایک بڑے میدان کی طرح انسانیت کُش قوتوں
کو کھینچ کر اپنے اندر دفن کرلیتی ہے ؟صرف اس پہلو سے ہی اگر غور کیا جائے
تو دیکھنے والوں کو اس میں اللہ رب العزت کی بے شمار نشانیاں ملیں گی۔
موجودہ سرمایہ داری نظام کے زوال کے بعد ابھی مسلمانوں کے لیے منزل اتنی
آسان نہیں ہے کہ مواقع انہیں پلیٹ میں رکھ کر پیش کردئیے جائیں گے۔ ابھی
عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ اللہ رب العزت نے تاریخ کے مختلف ادوار میں جو
نظام اپنے بندوں پرا تارے انہیں انبیاء کرام نے صحائف اور آسمانی کتابوں کی
شکل میں اپنی اپنی امتوں تک پہنچایا۔ اس آسمانی نظام میں ہمیشہ سے اخلاقی
پہلووں کے بعد سب سے زیادہ زور معاشی پہلووں پر دیا جاتا رہا ہےاور اس میں
پائی جانے والی قباحتوں سے بچنے کی سختی سے تلقین موجود رہی ہے۔ خاتم
الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ سلم کے ذریعے جو آخری اور ابدی پیغام قرآن
کریم کی شکل میں تمام انسانیت کو پہنچایا گیا اس میں بھی دیگر امور کے
ساتھ ساتھ معاشی امور کے حوالے سے سخت قسم کی ہدایات دی گئی ہیں۔ سود کو
حرام قرار دیکر اس جاری رکھنے والے کو اللہ رب العزت اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ والہ سلم کے ساتھ حالتِ جنگ میں آنے کی وارننگ دی گئی ہے۔ اللہ
رب العزت جب کسی چیز کو انسانیت کے لئے حرام قرار دے دیں تو اس میں انسانوں
کے لئے سخت قسم کی ہلاکت خیزی رکھ دیتے ہیں۔ اور آج دنیا جس سرمایہ داری
نظام کے ملبے تلے دبی ہوئی کراہ رہی ہے تو یہ سب اللہ تعالٰی سے بغاوت کا
نتیجہ ہے۔ اگر طاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات احسن طریقے سے ہماری
سمجھ میں آجائے گی کہ دنیا میں ہمیشہ سرمایہ داروں نے اللہ تعالی کے بنائے
ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کی اور اللہ تعالٰی کے بھیجے ہوئے برگزیدہ انبیاء
کو تکلیفیں پہنچانے سے بھی گریز نہ کیا۔ نمرود اور فرعون کون تھے ؟ قارون
کون تھا ؟ اسلام کی تحریک کے خلاف نبرد آزما قریشِ مکہ کون تھے ؟ یہ سب
اپنے اپنے دور کے سرمایہ دارتھے جو نئے مذہب کو رسومات کی حد تک تو دیکھ
سکتے تھے لیکن دین کی شکل میں کسی نظام کو برداشت نہیں کرسکتے تھے۔عیسی ابن
مریم کو بنی اسرائیل کے جس طبقے اور ہیکل کے کاہنوں نے رومیوں کے ہاتھوں
گرفتار کرایا وہ سب سرمایہ داری نظام کے خوگر تھے۔ خود انجیل مقدس میں عیسی
علیہ السلام ہیکل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ “ہم نے اسے مقدس گھر بنایا تھا
اور تم کاہنوں نے سے چوروں کا گڑھ بنادیا” ۔اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ شیطان
نے انسانیت پر جتنے بھی بڑے حملے کئے وہ سب سرمایہ داری نظام کے ذریعے کئے
ہیںکیونکہ انبیاء کے تمام بڑے مخالفین سرمایہ دار اور ان کے سکوں پر پلنے
والے مذہبی پیشوا ہوا کرتے تھے۔
دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی اور معاشی حالات میں دنیائے اسلام
خصوصاََ پاکستان کو انتہائی چوکنا اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ
عالمی صہیونیت کے معاشی سیسہ گر اب دنیا کو عالمی معاشی نظام کے زوال کے
بعد ون ورلڈ کرنسی کے جال میں پھانسنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ جس کا سارا
کنٹرول سسٹم دنیا بھر کے پھیلے ہوئے بینکوں کے ذریعے اسرائیل میں ہوگا۔ یہی
وجہ ہے کہ ایک طرف ڈالر اور یورو زوال پذیر ہیں تو دوسری جانب اچانک
اسرائیلی سکہ “شیکل”عالمی اقتصادیات میں طاقت پکڑتا جارہا ہے۔ اس سارے
دجالی منصوبے میں پاکستان کے جوہری ہتھیار سب سے بڑی رکاوٹ تصور کئے جارہے
ہیں، اس لئے پاکستان کوہی سب سے زیادہ خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ |