2004ء میں جب پہلی بار کراچی گیا
تھا، تو وہاں کی دیواروں پر 'جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے' لکھا
ہوا دیکھ کر کراچی والوں کی قائد اعظم سے محبت پر رشک آیا۔ سوچا، یہ لوگ تو
واقعی قائداعظم سے محبت کرتے ہیں۔ وہ تو بعد میں معلوم پڑا کہ وہ قائد تو
آؤٹ ڈیٹڈ ہوگئے ہیں، اب یہ نئے قائد کی باتیں اور ان کا دور ہے۔
ایم کیو ایم کراچی کی ایک بڑی جماعت ہے، اور پاکستان کی سیاست میں اس کا
اہم حصہ ہے۔ مثبت یا منفی طرز عمل، یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن ان کے سیاسی
وزن سے انکار ممکن نہیں۔ ہم لوگ ان کی پالیسیوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ صرف
اس لئے کہ وہ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے لوگوں پر اپنی رائے ٹھونستے ہیں۔
اپنے لیڈر کے خلاف ایک لفظ سننے کو تیار نہیں، اور جو غلطی سے بولے، اس کے
لئے کراچی کی دیواریں صحیح معنوں میں نوشتہ دیوار ہیں۔
سیاست میں تشدد کا وسیع پیمانے پر استعمال ایم کیو ایم سے شروع ہوا۔ عدم
برداشت اور سیاسی قتل ان کے دور میں فروغ پائے۔ اس سے پہلے اگر چہ پاکستان
کی سیاست میں یہ حربے استعمال ہوتے تھے لیکن ایک محدود اور مستثنٰی صورتحال
میں۔
اگر ایم کیو ایم مندرجہ بالا خصوصیات کی بناء پر ہم لوگوں کی نفرت کا نشانہ
بنتی ہے، تو آخر ایسی کیا وجہ ہوگی کہ یہی طرز عمل اگر دوسری پارٹی اختیار
کرے تو لوگ صرف انقلاب کی امید میں اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرلے؟ مانا
کہ مینار پاکستان کے سامنے لاکھوں لوگوں کا اجتماع عوامی مقبولیت کی نشانی
ہے، لیکن اگر صرف لوگوں کی حمایت اور چند لاکھ کا اجتماع ہی کسی کے صحیح
ہونے کی دلیل ہے تو پھر ایم کیو ایم کے جلسوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟
جماعت اسلامی بارہا مینار پاکستان کے سامنے لاکھوں کا اجتماع کرچکی ہے۔
مانا کہ عمران خان کے بیانات پاکستان کے لوگوں کے دل کی آواز ہیں، تبھی تو
لوگوں کی اکثریت سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ان کے جلسے میں شریک ہوئی۔
لیکن ایک کامیاب جلسے کی بنیاد پر انقلاب کے خواب صرف ایک دیوانہ ہی دیکھ
سکتا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جو حربے پرانی سیاسی جماعتیں پہلے استعمال کرتی
تھیں، تحریک انصاف انہی حربوں کے ذریعے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ تحریک
انصاف میں بھی موقع پرست سیاستدان ہوا کا رخ دیکھ کر شامل ہورہے ہیں اور
آنے والے دنوں میں اس میں اضافے کی توقع بھی کی جارہی ہے، لیکن اگر انقلاب
صرف حکومت کی تبدیلی کا نام ہے تو ایسے انقلاب سے کچھ زیادہ توقعات رکھنا
بعد میں مایوسی کا سبب بنتا ہے۔
تحریک انصاف کے جلسے کے بعد ڈاکٹر عبد القدیر خان کے بارے میں جو کچھ میڈیا
میں سامنے آرہا ہے، اللہ جانے کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے، لیکن اگر یہ واقعی
سچ ہے تو پھر پاکستان کو ایک نئے ایم کیو ایم کے لئے تیار ہونا چاہیئے،
جہاں انقلاب کے مخالفین کو اپنا نوشتہ دیوار پڑھنے کے لئے کراچی جانے کی
ضرورت نہیں رہے گی۔ |