مالیگاﺅں:جانچ کا دائرہ وسیع کیوں نہیں کیا جاتا؟

ممبئی کی ایک مکوکا عدالت نے5ستمبر کے ان9ملزمان کی درخواست ضمانت منظور کرلی جن کو مہاراشٹرپولیس انسداد دہشت گردی دستہ (اے ٹی ایس) نے قصبہ مالیگاﺅں ضلع ناسک میں 8ستمبر 2006کے بم دھماکوں میں ملوّث ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے پانچ سال سے جیل میں ڈال رکھا تھا۔ شکر الحمد اللہ۔عین شب برات (14شعبان) کے دن نماز جمعہ کے وقت تین دھماکے مسجد محمدیہ کے گرد اور ایک مشاورت چوک پر ہوا ،جن میں 37مسلمان شہید اورزاید از250زخمی ہوئے تھے جن میں کچھ روزہ دار بھی تھے۔اہل اسلام کے نزدیک شبِ برات کی عبادات کو خاص اہمیت حاصل ہے چنانچہ دن میں روزہ رکھتے ہیں، رات دعا و استغفار اور قرآن خوانی میں گزارتے ہیں ، قبرستان جاکر اپنے مرحومین کےلئے فاتحہ خوانی کرتے ہیں اور غریبوں کو کھاناکھلاتے ہیں ۔ یہ بم سائکلوں پررکھے گئے تھے جن کو نمازیوں کی سائکلوں کے ساتھ مسجد کے پاس کھڑدیا گیا تھا۔

دھماکے کے فوراً بعد ناسک ضلع پولیس نے جانچ شروع کردی۔ دوسرے دن (9 ستمبر) کو واردات کی خبر کے ساتھ پولیس ذرائع کے حوالے سے یہ رپورٹ آئی کہ بجرنگ دل شک کے دائرے میں ہے کیونکہ سنگھ پریوارکے اس گروہ کے دہشت گرد عناصرنے ایسے ہی دھماکے پربھنی ، پورنہ اور جالنہ کی مساجد میں بھی کئے تھے ۔ (ٹائمز آف انڈیا) پولیس نے کسی مفروضہ کے بجائے تفتیش کو اس کے اصول کے مطابق جائے واردات سے ملی شہادتوں کی بنیاد پر آگے بڑھایا اوردو ہی دن میں اس دوکان کا پتہ چلا لیا جس سے سائکلیں خریدی گئی تھیں ۔ آئی جی پی ناسک پی کے جین نے ان دونوں افراد کے خاکے جاری کئے جنہوں نے یہ سائکلیں خریدی تھیں۔ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ پولیس کے ہاتھ دوتین پختہ سراغ اور لگے ہیں، جن پر مزید جانچ کی جارہی ہے۔ خاکے جاری ہوتے ہی وی ایچ پی دفاعی پوزیشن میں آگئی اوراس کے جنرل سیکریٹری پروین توگڑیا بھنا گئے۔ دراصل ان دھماکوں سے پہلے مسٹر توگڑیا ناسک آئے تھے اور وی ایچ پی کے مقامی لیڈر ونایک کے گھر پر میٹنگ کی تھی ۔ مالیگاﺅں 2008کے بم دھماکوں کے ایک ملزم کرنل پرساد پروہت کے مطابق یہ میٹنگ فروری 2006میں ہوئی تھی جس میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کےلئے ایک گروہ ’ابھینو بھارت‘ کا نظریہ زیر غور آیا تھا۔ توگڑیا نے ان سرگرمیوں کےلئے دولاکھ روپیہ دئے تھے۔ (ٹیرارزم واچ، 25 نومبر 2008 )۔ وی ایچ پی اور بھاجپا کے شور مچانے کے باوجود ناسک ضلع پولیس نے سراغوں کی بنیاد پرتفتیش جاری رکھی اور غیر مسلم اکثریتی علاقوں سے پوچھ تاچھ کےلئے 20 افراد کوحراست میں لیا گیا۔

مہاراشٹر کے ایک سابق آئی جی پولیس مسٹر ایس ایم مُشرِف نے اپنی کتاب(کرکرے کے قاتل کون؟) میں اس گمان کا اظہار کیا ہے کہ اس مرحلہ پر آئی بی (میں سنگھ نوازافسران) کے اشارے پرمہاراشٹرا اے ٹی ایس نے از خود اس معاملے میں مداخلت شروع کردی ۔ اس وقت کے پی رگھونشی اے ٹی ایس کے سربراہ تھے جن کا شمارآئی بی کے (سنگھ نوازافسران) کے پسندیدہ افسروں میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اے ٹی ایس کی مداخلت نے حقیقی تفتیش کو رکوادیا اور معاملہ کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ دیا۔ اس کے بعد ان خاکوں کا بھی ذکر نہیں آیا اور نہ ان افراد سے پازپرس کی گئی جو غیر مسلم محلوں سے پکڑے گئے تھے۔ گویا جانچ کا سرا حقیقی سراغوں سے ہٹا دیا گیا اور اے ٹی ایس کے دفتر سے چلایا جانے لگا۔

30اکتوبر کواے ٹی ایس نے ممبئی میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کردیا کہ سیمی کے ایک کارکن نورالہدٰی کو گرفتار کرکے معاملہ کو سلجھا لیاگیا ہے۔ نورالہدی ایک شخص شبیر بیٹری والا کے ساتھ انورٹر بناتا تھا۔ اے ٹی ایس نے الزام لگایا کہ سازش کے پیچھے اصل ذہن شبیر کا تھا جو سعودی عرب اور پاکستان گیاتھا اور وہیں اس نے بم سازی کی تربیت حاصل کی تھی ۔ایک شخص مزمل کا بھی نام لیا گیا جو مبینہ طور سے پاکستانی تھا ، جس نے بم سازی میںمدد کی تھی۔اس طرح سازش کا سرا پاکستان سے جوڑ دیا گیا۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ شبیرکو اے ٹی ایس نے ممبئی بم دھماکوں کے الزام میں گرفتارکررکھاتھا اور وہ دو ماہ سے ممبئی کی جیل میں تھا۔ کہا گیا کہ نورالہدٰی نے شبیر کی ہدایت پر اس کی فیکٹری میں بم بنائے اور یہ سازش 8ماہ قبل نورالہدٰی کی شادی کے دوران رچی گئی تھی۔ یہ دعوا بھی کیا گیا کہ شبیر کی فیکٹری میں آرڈی ایکس کے سراغ ملے ہیں لیکن فورنسک جانچ سے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہوئی۔ نورالہدی کو بابری مسجد انہدام کے سانحہ کے بعد پہلی مرتبہ حراست میں لیا گیاتھاوہ بھی اس لئے نہیں کہ اس کے خلاف کوئی شہادت یا شکایت تھی بلکہ اس لئے کہ پولیس کواطلاع ملی تھی کہ فسادیوں میں نورنام کا کوئی شخص شامل تھا، چنانچہ قصبہ کے ان تمام افراد کوجن کے نا م میں نور آتا تھا شک کی بنیاد پر پوچھ تاچھ کےلئے پکڑا گیا تھا۔ نورالہدی کا نام دوبارہ اس وقت روشنی میں آیا جب کچھ نوجوانوں نے عریاں فلمیں دکھانے والے کیبل آپریٹرس کے خلاف مہم چلائی اور ان کی شکایت پولیس سے کی۔ بہرحال اے ٹی اے نے یہ کہانی تراشی کہ پانچ، چھ ماہ قبل نورالہدی کی شادی کے دوران دھماکوں کی سازش رچی گئی تھی سازش جس وقت بنائی گئی ملزمان سوئیاں کھا رہے تھے۔گرفتار شدگان میں ابرار احمد کی داستان بڑی سبق آموزہے۔اس کی شادی ایک ایسے گھر میں ہوئی تھی جومبینہ طور سے پولیس کاتنخواہ دار مخبر تھا ۔ ابرا ر کے بھائی کے مطابق اس کی عقل اوربینائی دونوں کمزور ہیں اور اس کو آسانی کےساتھ لالچ میںلیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اپنی پولیس مخبر بیوی اور دیگر رشتہ داروں کے بہکانے پر وہ کچھ پیسوں کے عوض اے ٹی ایس کامہرہ بن گیا ۔ اس کو وعدہ معاف گواہ بنا کر اس کے’ اقبالیہ بیان‘ اور ’نشاندہی‘ پر جرم کی کہانی رقم کی گئی اور گرفتاریاں کی گئیں۔

اے ٹی ایس کی ’تفتیش‘ پر عوام میںشدیدغم و غصہ کو دیکھتے ہوئے جب یہ تقریباً طے ہوگیا کہ معاملہ سی بی آئی کے حوالہ کردیا جائے گا، ڈی جی پی ڈاکٹر پسریچا نے پریس کو مطلع کیا کہ جانچ مکمل ہو گئی ہے ۔ نورالہدٰی اور آٹھ دیگر ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے، مزید آٹھ کی تلاش جاری ہے۔ کہا گیا کہ ان سب کا تعلق سیمی سے ہے۔ جانچ سی بی آئی کو منتقل کئے جانے سے چند گھنٹہ قبل اے ٹی ایس نے عدالت میں فرد جرم داخل کردی جس کے تانے بانے ابرار کے ’اقبالیہ بیان‘ پر بنے گئے ہیں۔ ابرار مبینہ طور سے کوئی بیس دن تک پولیس کی غیراعلانیہ گرفت میںرہا ، پولیس اس کو کئی جگہ ساتھ لیکر بھی گئی، جس سے اس کااقبالیہ بیان غیر معتبر ہوجاتا ہے۔ بہرحال جب اس کو جیل میں ڈالدیا گیا، تو اس کواپنی نادانی کا احساس ہوااور اس نے عدالت میں اپنااقبالیہ بیان واپس لے لیا۔ یہ واقعہ 2008کے دھماکے میں ہیمنت کرکرے کی تفتیش دوران سنگھی دہشت گردوں کے پکڑے جانے سے قبل کا ہے۔ گواہوں میں صرف ایک آزاد گواہ کاذکر ہے مگر اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

ہرچند کہ اے ٹی ایس نے جانچ کے مکمل ہوجانے کادعوا کیا تھا مگروہ ابھی تک مکمل نہیں ہوئی۔اے ٹی ایس کے بعد سی بی آئی نے اور پھر نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی( این آئی اے ) نے تفتیش کوجاری رکھا۔ پانچ تاریخ کو اے ٹی ایس نے اگرچہ عدالت کو مطلع کیا کہ وہ درخواست ضمانت کی مخالفت نہیں کریگی تاہم یہ بھی کہا کہ جانچ ابھی جاری ہے اور فائنل رپورٹ بعد میںپیش کی جائیگی۔ کرنل پروہت کے اس بیان کے باوجود دھماکے سے پہلے ڈاکٹر پروین توگڑیا ناسک میں سرگرم رہے اور ابھینو بھارت نام کے دہشت گرد گروہ کی تشکیل میں بھی شریک رہے، ابھی تک ان سے پوچھ تاچھ نہیں کی گئی اور ناسک میں ان کے ہم نواﺅں کو جانچ کے دائرے میں لایا گیا۔ سوال یہ ہے اس جانچ کا دائرہ سنگھی دہشت گردوں تک وسیع کیوں نہیں کیا جاتا؟ مہاراشٹر کی سرکارمسلمانوںکو پھنسانا اور سنگھیوںکو بچانا کیوں چاہتی ہے؟

سنگھ نوازافسران کی پشت پناہی سے 2006کے اصل خطاکاروں کے صاف بچ نکل جانے سے حوصلہ پاکر اس شہر کوسنگھی دہشت گردوں 2008 میں پھر نشانہ بنایا۔ اس بار ایک فرض شناس افسر ہیمنت کرکرے کی جانچ میں جب سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور دیگر سنگھی دہشت گرد پکڑمیں آگئے تویہ معاملہ اور مشکوک ہوگیا ۔ ہرچند کے 2006کے دھماکوں کے بعد بھی بجرنگ دل اوروی ای پی لیڈر توگڑیا کا نام آیا تھا لیکن بدقسمتی سے ایک گہری سازش کے تحت ممبئی میں9/11 کے دہشت گردانہ حملے کے دوران ہیمنت کرکرے کو شہید کردیا گیا اور آناً فاناً مسٹر رگھوونشی پھر اے ٹی ایس سربراہ بنادئے گئے ، چنانچہ سنگھی دہشت گرد عناصر پوری طرح بے نقاب نہیں ہوسکے اور عملاً جانچ رک گئی اور توگڑیا سمیت متعدد لوگوں کاکردار واضح نہیں ہوسکا۔ نام سنگھ کے ایک اور بڑے لیڈر اندریش کمار کا بھی آیا مگر حکومت اتنی ہمت نہیں کرسکی کہ ان پر ہاتھ ڈالے۔ بہرحال سوامی اسیمانند کے اعتراف کے بعد کہ مکہ مسجد، اجمیر شریف ،مالیگاﺅں اور سمجھوتہ ایکپریس کے دھماکے اسی سنگھی گروہ کی حرکت تھے جس کی مالی امداد توگڑیا نے اور خود انہوں نے کی، ان نوبے قصور ملزمان کی رہائی کےلے سرکارپر دباﺅ بڑھ گیا۔ایک کے بعد ایک تین ایجنسیوں کو معاملہ منتقل کئے جانے سے بھی بے قصوروں کی قید نے طول کھینچا۔ بہر حال یہ بات اب وثوق سے کہی جارہی ہے کہ ان ملزمان کے خلاف کوئی بھی قابل اعتماد ثبوت آج تک نہیں مل سکا۔ہونا یہ چاہئے تھا کہ جانچ مکمل ہو جانے کے اے ٹی ایس کے اعلان کے بعد جو فرد جرم داخل کی گئی تھی اسی کی بنیاد پر بلاتاخیر مقدمہ کی کاروائی کو آگے بڑھایا جاتا۔ اے ٹی ایس نے ساڑھے چار ہزار صفحات کی جو چارج شیٹ داخل کی ہے اور ساتھ میں جو شہادتیں لگائی ہیں وہ سب فرضی بتائی جاتی ہیں چنانچہ مقدمہ کی سماعت کے دوران ان کو باطل ثابت کیا جاسکتا تھا۔ مگر یہ اسی صورت میں ہوتا جب مہاراشٹرا کی دوغلی سرکار کو مظلوم مسلمانوں کی دادرسی میں دلچسپی ہوتی۔دہشت گردی کے معاملے میں مسلمانوں پر الزام رکھے جانے کے معاملہ میں سابق مرکزی وزیر داخلہ شیو راج پاٹل کانظریہ بھی بڑا ہی افسوسناک رہا ۔ وہ بھی ہمیشہ اپنے بیانات سے ’مسلم دہشت گردی‘ کے فریب کو ہوا دیتے رہے۔ البتہ مسٹر پی چدمبرم نے اس روش کو بدلا ہے۔جس سے ناراض ہوکر بھاجپا ہرروز ان کونشانہ بناتی رہتی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ اب ان کی ہی اشارے پر این آئی اے نے اس بار درخواست ضمانت کی مخالفت نہیں کی۔ این آئی اے نے فائنل رپورٹ موخر کردی ہے اس لئے ضمانت کے باوجود مقدمہ کی تلوار بدستورملزمان کے سروں پر لٹکی ہوئی ہے۔ضمانت کے ساتھ عدالت نے یہ شرط بھی لگادی ہے کہ وہ ہرہفتہ تھانے میں حاضری درج کرائیں گے۔ کئی ملزمان کےلئے 50ہزار روپیہ زر ضمانت فراہم کرناناممکن ہے تاہم بعض انجمنوں نے آگے بڑھ کر مدد کا عندیہ ظاہر کیا ہے ۔ چنانچہ اس ضمانت کو انصاف قراردینا درست نہیں ہے۔ ظلم سے جزوی نجات ضرور ملی ہے، اصل خطاکار ابھی گرفت سے باہر ہیں لہٰذا نہ تو ان ملزمان کو انصاف ملا ہے اور نہ ان افراد کے اہل خاندان کوجو شہید یا زخمی ہوئے۔ملزمان کی زندگی کے بیش قیمت پانچ سال تباہ کردئے گئے۔انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کو بھرپور معاوضہ ادا کیا جائے ، سرکار ان کی بازآبادکاری کی ذمہ داری لے اور ان افسران کی سرزنش کی جائے جنہوں نے بے قصوروں کو پھنسایا۔اب یہ مطالبات اٹھائے جارہے ہیں اور حق بجانب ہیں۔ حکومت کو توجہ دینی چاہئے۔

معاملے کی پیروی میں ممبئی کے غیور وکلاء، جمعیة علماءو دیگر تنظیموں کی خدمات قابل ستائش ہیں۔امید کی جانی چاہئے کہ آئندہ بھی مقدمہ کی پیروی اسی طرح جاری رہیگی تاوقتیکہ تمام ملزمان بری نہ ہوجائیں ۔ متعدد برادران وطن اورمیڈیا کے حق پسند دوستوںنے بھی مظلومین کے حق میں آواز بلند کی۔ان کا بھی شکریہ ۔ سیاسی اسباب کچھ بھی ہوں، یو پی اے حکومت اب مسلم مسائل اور مطالبات کو پورا کرنے کی طرف مائل نظرآتی ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ (ختم)

(مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں۔)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163943 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.