اس ملک کیلئے ہم نے کیا کچھ نہیں
کیا۔ اس کی آزادی کیلئے ہمارے آباﺅ اجداد نے تن من دھن کی قربانی دیکر آگ
وخون کے دریا عبور کئے ۔ اپنے لخت جگروں کو دشمنوں کے ہاتھوں کٹتے اور مرتے
دیکھا ۔ اسی ملک ہی کی خاطر تو مسلمان ماﺅں ۔۔بہنوں اور بیٹیوں کے دوپٹے
نوچے گئے اور ان کی عصمتیں تار تار ہوئیں۔ یہی وہ ملک تو تھا کہ جس کی مٹی
سے مسلمانوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد جناح کی قیادت میںوفا کا وہ
عظیم رشتہ نبھایا کہ جسے دیکھ کر ہندو کیا انگریز بھی پاکستانی قوم کے
سامنے سر خم تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے اور یوں ہمارے آباﺅ اجداد کی انہی
قربانیوں کی بدولت یہ ملک جسے تم پاکستان کے نام سے پکارتے ہو معرض وجود
میں آیا لیکن بابا جی تم ہی مجھے بتاﺅ اس ملک نے 64سالوں میں دہشت
گردی۔۔۔مہنگائی۔۔۔غربت۔۔۔بیروزگاری۔۔۔چینی۔۔۔۔پانی۔۔۔بجلی سمیت درجنوں
بحرانوں اور غم و الم کے سوا ہمیں کیا دیا۔ ۔۔۔؟کیا ہمارے آباﺅ اجداد نے وہ
قربانیاں اس لئے دی تھیں کہ ان کی آنے والی نسلیں مہنگائی غربت اور
بیروزگاری کا طوق گلے میں ڈال کر پانی ۔۔ بجلی ۔۔ چینی اور دیگر بحرانوں
میں قید اور انہیں اس ملک میں ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہ ہو ۔۔۔؟نوجوان
جب اپنے دل کا بھڑاس نکال چکے تو وہ بابا جی جن کی عمر اسی نوے برس لگ رہی
تھی نوجوان کی جذباتی تقریر ختم ہوتے ہی گویا ہوئے نوجوان! یہ ٹھیک ہے کہ
اس ملک کوحاصل کرنے کیلئے تمہارے آباﺅ اجداد نے قربانی کی عظیم تاریخ رقم
کی اور اس ملک کی آزادی کیلئے تمہارے آباﺅ اجداد نے اپنا سب کچھ لٹایا لیکن
نوجوان! تم نے 64سالوں میں اس ملک کو لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں
دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک نے تمہارے آباﺅ اجداد کی قربانیوں کا توقرض
اتار کر تمہیں بہت کچھ دیا مگرتم 64سالوں میں اس ملک کو کچھ نہیں دے سکے۔
64سالوں میں جب بھی اس ملک کی تقدیر بدلنے کا وقت آیا تو ذاتی مفاد کیلئے
تم نے اس ملک کی بھاگ دوڑ ایک سے بڑھ کر کرپٹ ، ڈاکو اور چور کے ہاتھ میں
تھمائی۔ آج اگر ملک میں مہنگائی ، غربت اور بیروزگاری و دہشت گردی کا راج
ہے اور ایک کے بعد ایک بحران سر اٹھارہا ہے تو اس میں بھی سب سے بڑا ہاتھ
تمہارا اپنا ہے ۔ نوجوان تم 64سالوں میں جن کرپٹ، لٹیرے ، ڈاکو اور چوروں
کے انتخاب کو اپنا کارنامہ قرار دے رہے ہو وہی تو اس ملک کی تباہی و بربادی
کی بنےادی وجہ ہے ۔ اس ملک نے تمہیں آزاد فضائیں اور دنیا کی تقریباً تمام
سہولیات دیں اورسب سے بڑھ کر اس ملک کی مٹی نے ہمےشہ تمہیں ماں جیسا پیار
دیا لیکن تم نے ہربار انتخابات میں ذاتی مفاد و لالچ کی خاطر کسی نہ کسی
چور، ڈاکو اور لٹیرے کو منتخب کر کے نہ صرف اپنے آباﺅ اجداد کی قربانیوں پر
خود پانی پھیرا بلکہ اس ملک کو اپنے ہی ہاتھوں تباہی کی طرف دھکیلا۔ آج ملک
آپ ہی لوگوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے کھڑاہے ۔بابا جی اور نوجوان کے
درمیان ہونے والے اس مکالمے یا شکوہ جواب شکوہ کو سماعت کئے کافی عرصہ گزر
چکا لیکن آج بھی جب میں مہنگائی ، غربت بیروزگاری ، دہشت گردی اوربحران کا
لفظ سنتا ہوں یا کہیں پڑھتا ہوں تو بابا جی کی وہ تلخ باتیں فوراً میری
کانوں سے ٹکراتی ہیں اور مجھے 17کروڑ پاکستانی مجرم دکھائی دینے لگتے ہیں ۔
بابا جی نے ٹھیک کہا اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا لیکن ہم نے آج تک اس کو
کچھ نہیں دیا۔ 64سالوں میں جب بھی اس ملک کی تقدیر بدلنے کا وقت آیا ہم نے
وہی چوروں، ڈاکوﺅں ، لٹیروں ، خانوں ، نوابوں ، وڈیروں ، چوہدریوں اور
رئیسوں کے ہاتھ مضبوط کر کے اس ملک کی تقدیر کو کبھی بدلنے نہیں دیا۔ آخر
سوچنے کا مقام ہے چوروں، ڈاکوﺅں اور لٹیروں کو سیاسی امام بنا کر کیسے یہ
کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے بھی اس ملک کیلئے کچھ کیا ہے ۔۔۔؟ ملک کی تباہی و
بربادی اور اس کو اس مقام تک پہنچانے کے اصل ذمہ دار نہ سیاستدان ہیں نہ
حکمران اور نہ ہی کوئی اور۔۔۔۔ بلکہ اس کے اصل ذمہ دار اور حقیقی مجرم ہم
خود ہیں۔ ظالم کا تو کام ہی ظلم کرنا ہے اب اگر کوئی ظلم میں ظالم کا ساتھ
دیتا ہے تو وہ اس سے بڑا مجرم قرار پاتا ہے ۔ چوہدریوں، وڈیروں،
خانوں۔۔۔نوابوں اور رئیسوں کا تو کام ہی لوٹ مار ، غریبوں پر ظلم وستم اور
حقوق غضب کرنے ہیں۔ یہ حقیقت جاننے اور آزمانے کے باوجود 64سال تک ذاتی
مفاد اور چند ٹکوں کی خاطر ملک وقوم کا مستقبل ضمیر فروشوں کے ہاتھ میں
دیکر ہم نے بہت بڑا جرم کیا ہے ۔ آج ملک میں غربت، بیروزگاری ، مہنگائی ،
لوٹ مار کرپشن، دہشت گردی جیسے بے شمار مسائل ہمارے اسی جرم کا نتیجہ ہے ۔
اگر گناہوں کاکفارہ ادا کر دیا جائے تو عذاب ٹل جاتے ہیں ورنہ بسا اوقات
یہی گناہ انسانوں کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں ۔ ہمیں تباہی سے بچنے کے
لئے 64سال سے اپنے کئے گئے جرائم کا اب کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ کفارہ کیلئے
ہم نے نہ کوئی روزے رکھنے ہیں اور نہ ہی کوئی صدقہ و خیرات۔۔ بس صرف ایک
کام کرنا ہے مجھے امید ہے کہ اس سے نہ صرف کفارہ ادا ہو جائے گا بلکہ ملک
میں ترقی و خوشحالی کی 64سال سے بند راہیں بھی کھل جائیں گی۔ اب ہم نے یہ
کرنا ہے کہ 64سالوںسے ہم نے جن چوروں، ڈاکوﺅں ، لٹیروں اور کرپٹ افراد کو
سیاسی امامت کا حقدار ٹھہرایا اب ان اور ان کے خاندانوں کومیدان سیاست میں
ووٹ کی پرچی سے شکست فاش دے کر غریب پرور، محب وطن اور خدمت خلق کے جذبے سے
حقیقی معنوں میں سرشار افراد کوکامیاب اور ان کے سروں پر سیاست کی امامت کا
تاج رکھیں ۔ اس ملک میں ایم پی اے نعیمہ نثار جیسے غریب پرور اور محب وطن
سیاستدانوں کی کمی ضرور ہے لیکن اگرہم نعیمہ نثارجیسے صرف 100سیاستدان
ڈھونڈنے میں بھی اگر کامیاب ہوگئے توپھر64سال میں نہیں دنوں کے اندراس ملک
وقوم کی تقدیربدل جائےگی کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جونہ صرف غریبوں کےلئے درددل
رکھتے ہیں بلکہ انہوںنے خود ی کواس ملک اور قوم کیلئے وقف کر رکھا ہے ، ایم
پی اے نعیمہ نثار پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے خواتین کی مخصوص نشست پر ممبر
صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں کسی کے ووٹ اور سپورٹ سے نہیں لیکن اس کے باوجود
نعیمہ نثارنے خدمت خلق کواپناشعاربنائے رکھا۔عوامی مسائل کے حل کےلئے
دوڑدھوپ۔۔غریبوں کی آشک شوئی۔۔مظلوموں بے سہاراوبے کسوں کی دلجوئی اورمایوس
لوگوں کےلئے روشن مستقبل کی شمع جلانے کےلئے حقیقت میں نعیمہ نثار نے ذات
ومفاد کوبھی بھلایا۔غریب عوام کےلئے وہ کام جو منتخب ممبران اسمبلی ووٹ
لےکر بھی نہ کرسکے نعیمہ نثار نے کرکے دکھائے۔ مخالفین تو سیاسی اوراق
پلٹتے پلٹتے تھک گئے پر اس کا ایک کام اور قدم بھی عوامی مفاد سے ہٹ کر
ثابت نہ کر سکے ۔ نعیمہ نثار نے نہ صرف پارٹی ورکروں کو جینے کا حوصلہ دیا
بلکہ ہر مشکل میں غریبوں کو بھی سہارا دیا۔ ایبٹ آباد میں ہزاروں افراد
پانی کی بوند بوند کو ترس رہے تھے اور منتخب ممبران اسمبلی یہ تماشا آرام و
سکون سے دیکھ رہے تھے مگر نعیمہ نثار سے عوام کی یہ تکلیف بھی برداشت نہ ہو
سکی اور انہوں نے اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر کے عوامی تکلیف اور
پریشانی کا ہمیشہ کیلئے ازالہ کیا۔خواتین کے لئے ایبٹ آباد میںنادرا سنٹر
اورعوام کوسستے داموں اشیاءخوردونوش کی فراہمی کےلئے یوٹیلٹی سٹور کے قیام
کے علاوہ بھی نعیمہ نثار نے جس کسی غریب کو کسی درد و تکلیف میں دیکھا تو
اس نے کسی غریب کے آنکھوں سے آنسوﺅں کو زمین پر کبھی ٹپکنے نہیں دیا ۔ غمی
ہو یا خوشی غریبوں نے نعیمہ نثار کو ہمیشہ اپنے درمیان پایا۔ جو لوگ خدمت
خلق میں گھر بار ذات پات اور خودی کو بھی بھول جائے وہی عوام کے حقیقی خادم
ہوتے ہیں اورحقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں جہاں عوام کی اکثریت غربت کے سائے
تلے زندگی گزار رہے ہیں انہیں شہزادوں کی نہیں نعیمہ نثار جیسے غریب
سیاستدانوں کی ضرورت ہے۔ 64سال تک کھرے کھوٹے میں تمیز کئے بغیر آنکھیں بند
کر کے خانوں۔۔۔نوابوں۔۔۔۔چوہدریوں اور وڈیروں کو ووٹ دیکر ہم نے خود اور
آنے والی نسلوں پر بہت بڑا ظلم کیا ہے ۔ ہم اگر شروع سے نعیمہ نثار جیسے
لوگوں کا ساتھ دیکر ملک وقوم کی امانت ان کے ہاتھ میں دیتے تو آج نہ تو ہم
بھوک و افلاس سے مرتے اور نہ ہی ملک تباہی کے دہانے پر پہنچتا۔ ملک کو
64سال تک ضمیر فروشوں اور لٹیروں کے حوالے ہم نے کیا اور اب ہم کہہ رہے ہیں
کہ اس ملک کیلئے ہم نے بہت کچھ کیا ہے ۔۔۔؟بابا جی تم ٹھیک کہہ رہے ہو اس
ملک کو اس مقام تک پہنچانے کے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔ہم اگران ظالموں کوووٹ
دےکر ان کاساتھ نہ دیتے توآج اس ملک اور ہماری یہ حالت نہ ہوتی۔جوہوناتھاوہ
تو سو ہو گیا مگر اب وقت آ گیا ہے کہ خانوں۔۔۔نوابوں۔۔۔وڈیروں اور چوہدریوں
کاراستہ روک کر نعیمہ نثار جیسے غریب مگر خدمت خلق کے جذبے سے سرشار محب
وطن اور غریبوں کا دکھ درد سمیٹنے والے خدا ترس سیاستدانوں کاساتھ دینا
ہوگا ۔ ہم 64سالوں سے جن لوگوں کا ساتھ دے رہے ہیں وہ ہمارے خادم نہیں حاکم
بنتے جا رہے ہیں اور ہمیں حاکموں نہیں خادموں کی ضرورت ہے اس لئے اب ہمیں
ہر حال میں نعیمہ نثار جیسے لوگوں کا ساتھ دینا ہی ہوگاتاکہ ملک سے لوٹ
ماراور کرپشن کاہمیشہ کےلئے خاتمہ ہوسکے اور غریب عوام آرام وسکون سے جی
سکیں- |