سیلابی سیاست ،میڈیا اور کمپنیاں

پاکستان گزشتہ دس سال سے شدید مشکلات اور مسائل کا شکار ہے سب سے بڑا مسئلہ ”دہشت گردی“کے خلاف جنگ ہے جس کے مطابق سابق صدر پر ویز مشرف نے امریکی حمایت کے لئے اس جنگ میں اپنا ملک دھکیل دیا اور اس میں آج تک پاکستان نے کئی ہزار جانیں ،کروڑوں ڈالر کا نقصان اور اپنوں کو ہی پرایا کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ 2005کے المناک زلزے کے زخم آج بھی اس کے سینے میںخنجر بن کر چبھ رہے ہیں اس زلزے نے دنیا عالم کو یہ بات پھر سے باور کروائی تھی کہ” کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے،وہی خدا ہے“اس عظیم اور المناک امتحان کے اثرات آج بھی ہمارے ملک سے نہیں گئے وہاں آج بھی زندگی بہت مشکل اور کٹھن نظر آتی ہے لوگ اپنے پیاروں کو نہیں بھولے اور نہ ہی ان کی جدائی کے دکھ کی شدت کو کم محسو س کر رہے ہیں بلکہ ہر سال وہ تاریخ(8اکتوبر) ان لوگوں کے زخموں کو کرید کر چلی جاتی ہے لوگ زندہ تو ہیں مگر زندہ لاشوں کی طرح اور شاید یہی زندگی ہے کہ مرکر بھی جینا پڑتا ہے اپنے پیاروں کا دکھ سہہ کر بھی شاہراہ زندگی پر قدم بڑھانا پڑتا ہے اور اپنے پیاروں کا دکھ اور ان کی محبت کو نہ بھول پانا بھی ایک عظیم جذبے ”محبت“ کا نام ہے-

پاکستان ابھی اس امتحان سے باہر نہیں آپایا تھا اور وہاں زندگی کی چہل پہل مکمل نہیں ہو ئی تھی کہ پاکستان کو زلزے کے بعد سیلا ب نے آن لیا اس سیلاب نے بھی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور ہر طرف سے پاکستانی سیلاب زدگان کی اور ان کی بحالی کے لئے امداد اور قرضے دینے میں ہر ملک نے اپنا مو ثر کردار ادا کیا یہ سیلاب اتنی شدت کا تھا کہ کسی کو اپنے باپ کی فکر تھی تو کسی کو مرنے والے کی تدفین کیے لئے جگہ نہیں مل رہی تھی کسی کو اپنے ما ل و جان اور مویشو ں کی فکر تھی تو کوئی اپنے بچھڑے ہو ﺅو ں کو سیلاب میں بہتا دیکھ چکاتھا گویا تما م کے تمام ورثا اور زندہ بچ جا نے والوں کے لئے زندگی مو ت سے مشکل ہو گئی تھی اور اس کے اوپر ضروریات زندگی کی عدم فراہمی ان لوگوں کے لئے مشکلات کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ شروع کر گئی تھی مگر خدا کا شکر ہے اور اس کی دی ہو ئی ہمت تھی کہ پاکستان نے ان سیلا ب زدگان کو مدد دی ان کی بحالی کے لئے دن رات ایک کیا اور وہ لوگ کافی حد تک اپنی بحالی پر خوش ہو گئے اس سیلاب میں سو ل سو سائٹی، فوج،بیرونی ممالکی کی امداد،حکو مت و میڈیا سب نے اپنا اپنا کردار بھرپور طریقے سے اداکیا جہاں حکومت لمحہ بہ لمحہ متاثرین کی مدد کے لئے کو شا تھی وہاں سو ل سو سائٹی ان کی مدد کے اشیاءجمع کر نے میں سر گرم عمل تھی جگہ جگہ ان کے لئے امدا دی کیمپ لگائے گئے ان کی لئے کیش کی صور ت میں بھی امداد اکٹھی کی گئی اس کے ساتھ ساتھ فوج نے اپنی پیشہ ورانہ صلا حیتوں کا لوہا منوا تے ہو ئے ان متاثرین کو فوری طور پر امدادی کیمپوں میں پہنچایاوہاں ان کا طبی معا ئنہ کروایا اور ان کو رہنے کے لئے چھت اور کھا نے کے لئے کھا نا دیااور بیرونی دوستوں نے امداد کے وعدے ،و فائیں کیں جس سے پاکستان تھوڑے عرصے میں ہی اس سیلاب پر قابو پا چکا تھا اور ابھی بھی بحالی کے کام جاری تھے اور میڈیا نے بھی پوری محنت سے کام کر تے ہو ئے حکو مت کو ایک روشن راہ دکھائی اور متاثرین سیلا ب کی مشکلات اور امداد کے بارے میں حکومت کو ایک آ ئیڈیا دیا تاکہ تمام لوگوں کو ان کی امداد مل سکے ۔حکومت کے لئے بھی کو ئی پر یشا نی نہ بن سکے گویا تما م کے تما م ادارے اور عوام یکجا ہو گئی تھی اور اس امتحان سے سرخرو ہو نے کے لئے پر عز م تھے ابھی اس امتحان سے گزرے تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے کہ آ ج ایک بار پھر سیلا ب نے کراچی، صوبہ سندھ اور اس کے گردونواح کو اپنی لیپٹ میں لے لیا ہے یہ سیلا ب بھی پچھلے سیلا ب کی طرح عوام کو پریشا نیوں میں مبتلا کر تا جا رہا ہے اس سیلاب سے 21 اضلاع متا ثر ہوئے ہیں 40لاکھ افراد بے گھر ہو کر بے یارو مددگار ہو ئے ہیں اور ایک لاکھ متا ثرین کو امداد ی کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے جب کہ 7لاکھ مکانات اس سے متا ثر ہو ئے ہیں اور 64ہزار ایکڑ رقبہ سیلا ب کی نظر ہو ا ہے یہاں بھی پھر سے تمام کے تما م اداروں نے جذبہ حب و طنی سے سر شار ہو کر کام کر تے ہو ئے لوگوں کی امداد کے لئے کام شروع کر دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صدر مملکت نے بھی اقوام متحدہ سے مدد کی اپیل کی ہے اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے اس اپیل کو پوری دنیا کے سامنے پیش بھی کر دیا ہے یہاں فوج بھی اپنی پیشہ ورانہ صلا حیتوں کا استعمال کر تے ہو ئے اپنے ملک پر آ ئے ہو ئے امتحان میں کا میا بی و سرخروہی کے لئے دن رات ایک کئے ہو ئے ہے اور حکومت بھی امداد فراہم کر نے اور ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے ہمہ وقت مصروف نظر آ تی ہے ۔ مگر یہاں شکوہ صرف اپنی عوا م سے ہے کہ اس دفعہ نہ تو عوام میں پہلے جیسا جذبہ حب و طنی نظر آ یا اور نہ ہی ان کی مدد کے لئے خا طر خواں کا م کیا جارہا ہے اور نا ہی یہا ں اب میڈیا اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔ نہ ہی یہ حکومت کو لمحہ بہ لمحہ حالا ت سے آگا ہ کر رہا ہے اور نہ ہی کو ئی روشن را ہ دکھا رہا ہے اور آ ج عوامی حلقوں کا سوال یہ ہے کہ کیا حکومتی اہلکاروں، سیا ست دانوں، نے بھی اپنے اثا ثوں سے کچھ نکال کر ان متاثرین کے لئے کچھ کیا ہے ؟بڑی بڑی کمپنیوں نے جو رمضان میں تو اپنا نام کما نے کے لئے سڑکوں پر افطاری کرواتی ہیں اور رمضان بچت جیسی سکیمیں عوام کو سہولت دینے کے لئے لا تی ہیں انھوں نے ان کے لئے کو ئی اقدا ما ت اٹھا ئے ہیں اور میڈیا کے بڑ ے بڑ ے برجوں جو اس سیلاب کو اپنے ٹی وی چینلز پر دکھا کر اسے کیش کر نے میں مصرو ف ہیں انھوں نے اپنے کروڑوں اربوں کے اثاثوں سے ان متاثرین کی مدد کی ہے؟عوامی حلقوں کے مطا بق کسی کو بھی یہ تو فیق نصیب نہیں ہو ئی۔(اگر کسی نے کی ہے تو اللہ تعالی ٰ اس کے بزنس کو اور ترقی دے آمین)اور یہ سیا ست دان اور میڈیا گروپس ان متا ثر ین کو ہر طرح سے کیش کر رہے ہیں سیاست دان ان کے نام سے بیرونی دوروںپر ہیں اورا ن متاثرین کی بحالی کے لئے اپنے دوستوں اور دوسری دنیا سے امداد کے لئے اپیل کر رہے ہیں اور ٹی وی چینلز ز اسے بریکنگ نیو ز بنا بنا کر ان کی عزت نفس مجرو ح کر رہے ہیں حالا نکہ ان تمام لوگوں کو چا ہیئے کہ وہ ان متا ثرین کی مدد سچے دل سے کر یں اور بڑی بڑی کمپنیوں ، اداروں ، میڈ یا گروپس،پر بھی بھاری ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان متا ثرین کے لئے اقدامات اٹھا ئیں کیو نکہ اسی قوم کے پیسے سے وہ آ ج لاکھوں کروڑوں میں کھیل رہے ہیں اور حکومت کو بھی چا ہیئے کہ چند ایک امدا دی ٹرک اور اشیاءکو بھجوا کر ان کی دل آزاری نہ کر ے بلکہ ایک جا مع پلان تر تیب دے اور تمام کا تمام امدای کام فو ج کے سپرد کر دے کیونکہ وہ ایک منظم ادارہ ہے اور ایسی مشکلات پر جلد قا بو پا سکتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج جیسا کو ئی اور ادارہ بھی نہیں کہ وہ ان متاثرین کو سنبھال سکے وہ اسے اپنی پیشہ ورانہ صلا حیتوں سے بخوبی سر انجام دے دی گئی اور تما م متاثرین کو بلا امتیا ز امداد ملے گی ۔ حکومت کو اور اس کے اتحادیو ں کو بھی اپنے اثاثوں سے کچھ حصہ ان متا ثرین کے لئے صرف کر نا چا ہیئے اور سب سے بڑا فرض ہمارے ٹی وی چینلز اور بڑی بڑی کمپنیوں کا ہے کہ وہ اس کار خیر میں دل کھو ل کر حصہ لیں کیونکہ وہ اس امتحان پر سیا ست چمکا ئے ہو ئے ہیں خدا پاکستان کو اس امتحان سے بھی کامیا بی عطا فرمائیں آ مین پاکستان زندہ آ با د پاکستان پا ئند ہ ا ٓ باد٭٭٭٭
Muhammad Waji Us Sama
About the Author: Muhammad Waji Us Sama Read More Articles by Muhammad Waji Us Sama: 118 Articles with 122014 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.