ہنستا ، مسکراتا ، بیگانوں
کو اپناتا، اپنوں کے لئے دامانِ اُلفت وا کرتا ، نا مرادوں کی جھولیاں
مرادوں سے بھرتا ، خوابوں کو حقیقتوں کے رنگ بخشتا ، اشکوں کو گلابی شفقتوں
کی نرم و نازک پنکھڑیوں سے صاف کرتا، خوشیاں بانٹتا ، مسرتیں بکھیرتا
روشنیوں سے جگمگاتا شہرِ قائد ان دنوں سوگ میں ڈوبا ہوا ہے ۔خوف کے طویل
سایوں تلے گہری اداسیاں خیمہ زن اور ہر کواڑ کے عقب سے کربناک سسکیوں کی
گونج سنائی دیتی ہے۔پورا شہر دہشت گردوں ، بھتہ خوروں ، قبضہ گروپوں اور
اٹھا ئی گیروںنے یرغمال بنا رکھا ہے، جن سے رہائی کی کوئی راہ سجھائی دیتی
ہے نہ دکھائی ۔
سوال مگر یہ ہے کہ اتنے طاقت ور یہ یرغمالی آخر ہیں کون؟۔ وہی جنہیں کاتبِ
تقدیر نے حقِ حکمرانی عطا کر رکھا ہے ۔تین اتحادی ، تینوں حاکم اور تینوں
ہی باہم الزام تراش۔ کیا اس عالمِ آب و گِل میں ایسا بھی ہوتا ہے یا ہو
سکتا ہے ؟ کیا یہ نمرود کی خِدائی ہے جہاں بندگی میں بھی بھلا نہیں ہوتا ؟۔با
ایں ہمہ ، اصرار مگر یہ کہ فوج کو اقتدار نہیں سنبھالنا چاہیے مگر کیوں ؟
کیا گزشتہ آمر ان سے زیادہ خائن ، بد دیانت اور ظالم تھے ؟ کیا یہ قوم کا
مقدر ٹھہرا کہ وہ ہمیشہ ان خواجاؤں ، نیازیوں ، اور بلند اختروں جیسے
حکومتی کارندوں کے ہاتھوں لُٹتی رہے گی۔اگر گیلانیوں نے اپنے اور حواریوں
کے آلودہ دامنوں کی صفائی کے لئے کسی بد دیانتی کی باس سے متعفن وجود رکھنے
والے ” جاروب کش “ کا انتظام کر لیا ہے تو کیا قوم پر لازم ٹھہرا کہ وہ سرِ
تسلیم خم کرتے ہوئے کسی کو اپنی مدد کے لئے پکارنے کی گستاخی بھی نہ کرے ؟
زرداری صاحب نے بجا طور پر بلند اختر کو ”موزوں ترین“ شخصیت قرار دیا کہ ”
کند ہم جنس ، باہم جنس پرواز “ لیکن کتنے کربناک ہونگے وہ لمحے جب انتہائی
دیانت دار منصف نے انتہائی بد دیانت شخص سے محض آئین کی پاسداری کی خاطر یہ
سوچتے ہوئے حلف لیا ہو گا کہ یہاں محض بد دیانتوں کے ” اختر “ ہی بُلند
ہوتے ہیں ۔محترم عرفان صدیقی نے سچ ہی لکھا ہے کہ ” حکومتی مقناطیس ہر اس
شخص کو کوسوں دور سے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے جس کے دامن پر نا اہلی ، کرپشن
، فراڈ ، بد دیانتی ، خیانت یا شخصی کردار کی کمزوری کا کوئی داغ ہو “ ۔
لیکن یہ الزام تو کم و بیش ان کے ممدوحین پر بھی آتا ہے ۔کبھی قلم کی حرمت
کا پاس کرتے ہوئے یہ بھی لکھ دیجئیے کہ دودھ کی دھلی نواز لیگ بھی نہیں ہے
اور اسی بنا پر قوم ایک دفعہ پھر فوج کی طرف دیکھ رہی ہے کہ فوج برائی سہی
پھر بھی بِلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ حکمرانوں کی موجودہ کھیپ سے
کہیں چھوٹی بُرائی ہے ۔اور آج ذو الفقار مرزا کی ” قُرآنی پریس کانفرس “ کے
بعد تو یہ حقیقت کھُل کر عیاں ہو گئی ہے کہ ” پاکستان کھپے “ کا نعرہ لگانے
والوں کے قول و فعل میں کتنا تضاد ہے یہاں یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ ذو
الفقار مرزا نے اپنی پریس کانفرس میں اپنا سارا زورِ بیاں ایم۔کیو۔ایم اور
رحمٰن ملک کو ملک دشمن قرار دینے میں صرف کر دیا لیکن اے۔این۔پی کے بارے
میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا ۔حالانکہ اس جرم میں اے۔این۔پی برابر کی شریک
ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ پشاور سے اسلحہ کس ڈیلر سے خریدا جاتا ہے اور
کراچی میں کون وصول کرتا ہے۔ رہی پی۔پی۔پی کی بات تو اس کے گڑھ لیاری سے
رینجرز نے اسلحے کے ڈھیر بھی بر آمد کئے ہیں اور میڈیا والوں کو عقوبت
خانوں کی سیر بھی کروائی ہے ۔مرزا صاحب شاید اس لئے طرح دے گئے ہیں کہ قُر
آن سر پر اٹھا کر اے۔این۔پی اور پی۔پی۔پی کی بے گناہی ثابت کرنے کی اُن میں
ہمت نہیں تھی ، وگرنہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس حمام میں تینوں ننگے ہیں اور
تینوں ہی برابر کے مجرم ۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جناب زرداری کے قریبی دوست ذوالفقار مرزا
نے یہ پریس کانفرس صدر زرداری کی ایما ء پر ایم۔کیو۔ایم کو کونے میں لگانے
کے لئے کی ہے ۔ میں اس تجزیے سے اتفاق نہیں کر سکتی کہ اس پریس کانفرس سے
ایم۔کیو۔ایم کو جو نقصان پہنچا لیکن پی۔پی۔پی کے پاس تو اپنے دفاع میں کہنے
کے لئے کچھ بھی باقی نہیں بچا ۔اگر مرزا صاحب یہ جانتے تھے کہ ایم۔کیو۔ایم
اور رحمٰن ملک صاحب ملک دشمن ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ صدر اور وزیرِ اعظم
بے خبر ہوں ؟۔ پھر مرزا صاحب نے تو اپنی پریس کانفرس میں متعدد بار یہ کہا
کہ ہر اعلیٰ سطحی اجلاس میں پورے ثبوتوں کے ساتھ یہ سب کچھ صدر اور وزیرِ
اعظم کے علم میں لایا گیا اگر ایسا ہی ہوا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ
محترم زرداری صاحب ایک ملک دشمن جماعت کے ساتھ مفاہمت کے لئے اتنے بے تاب
کیوں تھے، اُن کا گورنر کیوں سندھ پر مسلط کیا گیا اور اطاف حسین کی کل تک
کاسہ لیسی کیوں کی جاتی رہی ۔؟ مستقبل قریب میں زبان زدِ عام ہونے والے ان
سوالات کا پی۔پی۔پی کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا ۔شاید اسی لئے ذوالفقار
مرزا کا دورانِ کانفرس ہی استعفیٰ قبول کر لیا گیا ۔انہیں ایک ہفتہ تک
ایوانِ صدر میں رکھا گیا ، انہیں کسی سے بات نہیں کرنے کی اجازت تھی نہ
ملنے کی ، اُن کے تمام فون بند تھے اور انہیں سمجھانے کی کوشش کی جاتی رہی
۔ ہو سکتا ہے کہ وعدے وعید لے کر انہیں جانے کی اجازت دی گئی ہو جن کو مرزا
صاحب ایفاءنہ کر سکے کہ ان کے دوست اور لیڈر کے مطابق ” وعدے قُرآن و حدیث
نہیں ہوتے “ ۔
معزز قارئین ! میں نے محض چار دن پہلے اپنے کالم میں جس طرف اشارہ کیا تھا
، آج ذوالفقار مرزا نے پورے ثبوتوں کے ساتھ کھول کے رکھ دیا لیکن بہرحال
انہوں نے آدھا سچ بولا ہے ، پورا سچ نہیں ۔ پھر بھی قوم کو ان کا شکر گزار
ہونا چاہیے کہ انہوں نے کراچی کے معاملے پر قوم کو گو مگو کی کیفیت سے نکال
دیا اور دعا کی کہ چیف جسٹس انہیں طلب کریں تاکہ وہ تمام تر ثبوتوں کے ساتھ
اپنی پریس کانفرس میں لگائے گئے الزامات کو سچ ثابت کر سکیں ۔وہ سارے ثبوت
چیف جسٹس صاحب ، چیف آف آرمی سٹاف ، آئی۔ایس۔آئی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کو
دینے کو تیار ہیں ہمیں یقین ہے کہ محترم منصفِ اعلیٰ اپنی اولین فرصت میں
ذوالفقار مرزا صاحب کو طلب فرمائیں گے کہ یہ کوئی عام معاملہ نہیں بلکہ
وطنِ عزیز کی بقا کا سوال ہے ۔۔۔ بصد ادب ۔۔۔ بصد ادب اگر آج آپ نے دودھ کا
دودھ اور پانی کا پانی نہ کیا تو پھر مارشل لاءآئے گا ۔۔۔ صرف مارشل لاء
اور انتہائی معذرت کے ساتھ آنے والا مورّخ اس مارشل لاءمیں کہیں نہ کہیں آپ
کا کردار بھی تلاش کرے گا ۔۔۔۔ |