سیاست میں گرماگرمی

اگرچہ اس وقت سیاسی موسم جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا نہیں ہے٬ مگر ملکی سیاسی حالات میں یکدم پیدا ہونے والی گرماگرمی نے سیاسی درجہ حرارت کو بہت بلندی بلکہ خطرے کی حد تک پہنچا دیا ہے۔سب جانتے ہیں کہ ملکی سطخ پر انتخابات کا انعقاد 2011 میں ہونا ہے۔مگر پھر بھی کبھی کبھی حالات کی سنگینی ٬ اور گٹھن سے تنگ آ کر کوئی نہ کوئی سیاسی رہنما فوری انتخابات کی بات کر دیتا ہے۔حد سے بڑھتی ہوئی مہنگائی ٬ بے روزگاری٬ بدامنی اور کرپشن کا حل کسی کو نئے انتخابات میں نظر آتا ہے۔حکمران جماعتوں کی لوٹ کھسوٹ ٬ اقربا پروری ٬ بد انتظامی اور ہوس زر کا علاج عوام سے رجوع تجویز کیا جاتا ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) جو کہ گزشتہ تین سالو ں سے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کامیابی سے ادا کرتی چلی آ رہی ہے۔البتہ کبھی کبھی وقمی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے سخت ٬ زوردار بلکہ دھواں دار تقریر کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں ٬ تاہم پیپلز پارٹی اور ان کی اتحادی جماعتوں پر چوہدری نثار علی کی تقریر کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا۔شاید وہ ان کی باتوں کو سنجیدگی سے ہی نہیں لیتے۔بعینہ صورتحال میاں محمد نواز شریف کی بھی ہے۔وہ بھی وقفو ں وقفوں سے صدر مملکت آصف علی زرداری اور حکومت کا ذکر خیر کرتے اور پھر کئی ہفتوں بلکہ مہینوں کے لئے لمبی تان کر سو جاتے ہیں یا پھربیرون ملک سدہار جاتے ہیں۔میاں نواز شریف کے دوسرے بھائی میاں شہباز شریف جو کہ خیر سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے حاکم اعلیٰ ہیں۔ ان کے بارے میں بعض لوگوں کا گمان ہے کہ موصوف میاں نواز شریف سے قدرے زیادہ سمجھ دار اور دانا وبینا شخص ہیں۔مگر افسوس کہ وہ بھی اپنے بھائی میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے نقش قدم پر ہی چلتے چلے آ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں موصوف کو نہ جانے کیا سوجھی کہ لاہور میں ایک عدد جلسہ کر ڈالا ٬ جس میں جوش خطابت میں یا غصے کی حالت میں کچھ سخت سست باتیں بھی کہہ ڈالیں ٬ جن کا پاکستان پیپلز پارٹی والوں نے بہت برا منایا۔وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے تو یہاں تک کہا کہ شاید شہباز شریف اس وقت ہوش میں نہیں تھے۔شہباز شریف کے جلسے نے حکومتی حلقون میں ہل چل مچا دی ۔سرکاری میڈیا نے تو آسمان سر پر اٹھا لیا۔سرکاری دانشوروں نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کو سینگوں پر اٹھا لیا۔ٹی وی ٹاک شوز ٬ اخباری کالموں اور خبروں میں مسلم لیگ(ن)کے وہ لتے لیے گئے کہ الامان و الحفیظ۔اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے کہ ہم وہ زبان استعمال نہیں کر سکتے جو زبان شہباز شریف نے صدر مملکت آصف علی زرداری کے بارے میں استعمال کی ہے۔کسی نے کہا کہ آئندہ اگر اس قسم کی زبان استعمال کی گئی تو ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہنی ہوئی ہیں۔گویا اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بات کی جاتی رہی۔

پیپلز پارٹی والوں نے تو ٹی وی اور اخبارات میں جلوہ گری پر ہی اکتفا کیا مگر ایم کیو ایم نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارکا کردار ادا کرتے ہوئے کراچی میں جی ہاں لاہور کے جلسے کا جواب کراچی میں دیا۔یعنی ایک عدد جلسہ ایم اے جناح روڈ پر کیا اور ایک بار پھر قائد تحریک پیر الطاف حسین کا مسجع و مقفح ٬ بڑھکوں اور وعظ و نصیحتوں سے بھرپور خطاب ٹی وی چینلوں نے بے چارے پاکستانی عوام کے کانوں میں زبردستی انڈیلا۔ادہر تحریک انصاف کے عمران خان نے بھی اسی دن لاہور کے تاریخی میدان مینار پاکستان میں ایک بڑا اور شاندار جلسہ کرکے الطاف بھائی کے جلسے کی ساری شو ہی مار دی ٬ کیونکہ قومی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی میڈیا بھی عمران خان کے جلسے کی طرف متوجہ ہوا۔تحریک انصاف کے اس پہلے بڑے جلسے نے کچھ لوگوں کو حیران اور کچھ کو پریشان کر دیا ہے۔اس جلسے کی وجہ سے پہلی بار عمران خان کو سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔بعض من چلوں نے تو یہ نعرہ بھی بلند کر دیا کہ حکمرانوں عمران خان آرہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ عمران خان کے جلسے میں پیپلز پارٹی نے اپنے کارکنوں کو بھجوایا تھا۔ اس طرح وفاقی حکومت نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ساتھ تحریک انصاف کی محاذ آرائی کروا کر خود تماشائی کا کردار ادا کیا۔گویا ایک تیر سے دو نشانے لگائے گئے۔پی ایم ایل (ن) کو سمجھداری سے کام لے کر اپنے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے سے گریز کرنا چائیے تھا۔عمران خان کا جلسہ پنجاب حکومت اور مسلم لیگ(ن) پر ڈینگی سے بھی بڑا حملہ تھا۔

ہر پارٹی اور لیڈر کے کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو ہوتے ہیں۔ہر چاہنے والے کو تو مثبت پہلو اور خوبیاں ہی خوبیاں نظر آتی ہیں٬ مگر ناقدین اور مخالفین کی نظریں تو منفی پہلوﺅں اور کمزوریوں پر ہی لگی رہتی ہیں۔دونوں بڑی سیاسی جماعتیں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) بار باراقتدار کے ایوانوں تک پہنچ چکی ہیں۔پیپلز پارتی چوتھی بار اور مسلم لیگ مرکز میں دو دفعہ اور پنجاب میں تیسری بار برسراقتدار ہے۔عوام ان کو باری باری بھگت کران سے تنگ آچکے ہیں۔مگر افسوس کہ کوئی تیسری بڑی قوت موجود نہ ہونے کی وجہ سے عوام مایوسی اور پریشانی کے عالم میںپھر انہی جماعتوں کے چکر وں میں آجاتے ہیں۔2002کے انتخابات میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو صوبہ سرحد کے عوام نے بھاری مینڈیٹ سے نوازا تھا مگر وہ لہردیگر صوبوں اور علاقوں تک نہ پہنچ سکی ۔18فروری2008 کے انتخابات کے موقع پر ایم ایم اے منتشر ہو چکی تھی۔اب عمران خان کرپشن کے خلاف نعرہ زن ہو کر سامنے آئے ہیں تو عوام ان کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔اگر چہ عمران خان ماضی میں جنرل(ر)پرویز مشرف کے بھی حامی رہ چکے ہیں اور ابھی سیاسی میدان میں ناتجربہ کار بھی ہیں۔کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس وہ ٹیم نہیں ہے کہ جس کے بل بوتے پر حکومت چلائی جا سکے۔اسی طرح کچھ تجزیہ نگار یہ بھی نقطہ اٹھاتے ہیں کہ شاید ابھی ان کے پاس اتنے امیدوار ہی نہیں ہیں کہ جن کی قوت سے وہ اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کر سکیں۔تاہم ان کا یہ کہنا ہے کہ عمران خان ہو سکتا ہے کہ اس دفعہ قومی اسمبلی میں ایک سے زائد ارکان کا گروپ لیڈر بن جائے۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔ان دنوں عمران خان جس قسم کی تقاریر کر رہے ہیں٬ ان کے معیار پر پورا اترنے والے امیدواران کہاں سے آئیں گے ۔اگر انھو ں نے مختلف جماعتوں کے بھگوڑے ٬ لوٹے اور مسترد شدہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا اور ٹکٹ جاری کئے تو ان کا گراف بھی تیزی سے نیچے کی طرف لڑھک جائے گا۔بہرحال لگتا ہے کہ اس دفعہ عمران خان لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اترنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیسی ٹیم کو لے کر آگے لے کر بڑھتے ہیں۔کیا وہ اکیلے ہی پرواز کریں گے یا کسی سیاسی اتحاد کا حصہ بنیں گے؟۔ابھی اس ضمن میںشاید عمران خان خود بھی حتمی طور پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔اس لے لیے ہم سب کو ابھی اگلے انتخابات کا انتظار کرنا ہو گا۔
Malik Muhammad Azam
About the Author: Malik Muhammad Azam Read More Articles by Malik Muhammad Azam: 48 Articles with 47133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.