موسمِ بہار اکاّدکا ّچیدہ چدثہ
حادثات وواقعات کو نہیں کہتے بلکہ یہ ایک خوشگوار کیفیت کا نام ہے جورب
کائنات کے اذن سے ظاہر ہوتی ہے تو بس پھر چھا جاتی ہے اور ہر چیز کو
اپنےآغوشِ رحمت میں لے لیتی ہے قرآنِ مجید میں اس کی منظر کشی ملاحظہ
فرمائیں ارشادِ ربانی ہے “ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل
اٹھاتی ہیں، پھر وہ اِن بادلوں کو آسمان میں پھیلا دیتا ہے جس طرح چاہتا ہے
اور انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تُو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے
بادل سے ٹپکے چلے آتے ہیں یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے
برساتا ہے“
یونیسکو میں فلسطین کو حاصل ہو جانے والی رکنیت اپنے آپ میں کوئی بہت بڑا
انقلاب نہیں ہے جیسے ہواؤ ں کا چلنا یا بادل کا چھا جانا لیکن یہ اس بہار
کی علامت ضرور ہے جس کی آمد آمد ہے ۔وہ موسمِ گل جس کو دیکھنے کیلئے نہ
جانے کب سے ہماری آنکھیں ترس رہی ہیں جسکی خاطر امت کے بزرگ رات کے آخری
پہر آنسو بہاتے ہیں اور جس پرملت کےنونہال صبح دم اپنے گرم لہو کا نذرانہ
پیش کرتے ہیں اور اللہ کی مدددو نصرت کا اپنے آپ کو حقدار وسزاوار بناتے
ہیں اور جب بشارتوں کا موسم آنے لگتا ہے تو فرمایا “
یکایک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں حالانکہ اس کے نزول سے پہلے وہ مایوس ہو
رہے تھے“یہ آیت یقیناً ہمارے اندرون کی ترجمان ہے باوجود اس کے کہ مایوسی
کفر ہے ہم میں سے بہت سے لوگ اس کے دہانے پر پہنچ چکے تھے ۔ہم بھولنے لگے
تھے کہ “
اللہ اپنی رحمت سے مُردہ پڑی ہوئی زمین کو کس طرح جِلا اٹھاتا ہے، یقیناً
وہ مُردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے“ فلسطین کیلئے
اقوام متحدہ میں یونیسکو کی رکنیت مردہ زمین ایک ننھی سی کو نپل کی مانندہے
۔ گزشتہ ۷۰ سالوں سے عالمی استعمار نے اپنی مکاریوں اور چالبازیوں سے کچھ
ایسے حالات پیدا کردیئےکہ سر زمین ِ فلسطین ظلم و استحصال کی آماجگاہ بن
گئی لیکن افسوس کہ اس ظلم کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو نام نہاد امن و
سلامتی کے علمبرداروں نے اپنے ویٹو کے زور سے دبا دیا ہے ۔آج کے حالات میں
یونیسکو کے امداد کاا گر کوئی سب سے زیادہ مستحق ہے تو فلسطین ہے مگرافسوس
کہ اگر کوئی اس ادارےکی رکنیت سے محروم ہے تو وہ بھی فلسطین ہی ہے ۔اس سے
پہلے کہ اقوام متحدہ میں فلسطین کا باقائدہ ممبر بنایا جائے بین الاقوامی
منظر نامے پرپنجہ آزمائی کی ایک مشق یونیسکو کی رکنیت کے حوالے سے ظاہر
ہوئی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس نمائشی رکنیت کے لئے امریکہ اور اسرائیل
اپنی حمایت کی پیش کش کر کے سیاسی سودے بازی کی کوشش کرتے لیکن کبر غرورکے
نشے میں چور مغرب کے سرخیلوں سے یہ نہ ہو سکا اور اللہ تعالیٰ نے سرِ بازار
ان لوگوں کو رسوا کر دیا جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے “جو کوئی عزت چاہتا ہو
اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے اُس کے ہاں جو چیز
اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے
رہے وہ لوگ جو بیہودہ چال بازیاں کرتے ہیں، اُن کیلئے سخت عذاب ہے اور اُن
کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے ۔“
امریکہ ،اسرائیل اور اسکے مٹھی بھرہمنواوں کو ان کے مکروفریب نےکس طرح غارت
کیا اسکی منہ بولتی تصویر اگر کوئی دیکھنا چاہتا ہے تو یو ٹیوب پر روزنامہ
ٹیلی گراف کے ذریعہ بنائی گئی انتخاب کی فلم دیکھ لے ۔یونسیکومیں فی الحال
۱۹۳ ارکان ہیں اور انتخاب کا طریقہ کار یہ ہے کہ ہر ملک کا نام پکارا جاتا
ہے اور اس کا ترجمان علی الاعلان اثبات یا نفی کرتا ہے ۔ ہوتا یوں تھا کہ
جب بھی کوئی ملک فلسطین کی تائید کرتا تھا سارا ہال تالیوں کی گڑگڑا ہٹ سے
گونج اٹھتا تھا اور جیسے ہی کوئی مخالفت کا ووٹ پڑتا تھا خاموشی چھا جاتی
تھی یہی کچھ اس وقت بھی ہوا جب امریکی نمائندے نے ‘‘نہ’’کہاچہار جانب
خاموشی چھائی رہی موت کی خاموشی لیکن اس سلسلے میں دلچسپ موڑ اس وقت آیا
جب اسرائیل نے اپنی مخالف رائے کا اظہار کیا اور اس پر لوگ ضبط نہ کر سکے
اورانہوں نے قہقہہ لگا کر اس کا تمسخر اڑایابالآخر ۱۰۷ کے مقابلے ۱۴ ووٹوں
سے فلسطین کو یونیسکو کی رکنیت حاصل ہو گئی ۔۵۲ ممالک نے امریکی دہشت کے
پیش نظر غائب رہنے میں عافیت سمجھی لیکن اب جبکہ یہ امریکیوں کی ہوا اکھڑ
چکی ہے اگلی مرتبہ وہ ۵۲ بھی امریکہ و اسرائیل کی قبر کھودنے میں اپنا حصہ
بٹائیں گے اس لئے کہ ان منافقین کا شیوہ ہے چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
اتفاق سے اس بار ان لوگوں میں برطانیہ اور اٹلی جیسے ممالک بھی شامل ہیں ۔
انتخاب کے بعد جبکہ ساری دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی امریکہ میں صفِ
ماتم بچھی ہوئی تھی اوبامہ انتظامیہ اسے افسوسناک اور قبل ازوقت قرار دے
رہاتھا۔اسکی احمقانہ دلیل یہ تھی کہ اس سے مشرق وسطیٰ جامع پائیدار اور
مبنی بر انصاف مشترکہ مقصد کمزور ہوا ہے ۔ یہ مقصدصرف اور صرف امریکہ اور
اسرائیل کے درمیان مشترک ہے اور فی الحال اسے ان دونوں کے علاوہ محض ایک
درجن ممالک کی حمایت حاصل ہے ۔امریکی ردعمل جس میں یونیسکو کو دی جانے والی
۸۰ لاکھ ڈالر جس کا ۶۰ لاکھ نومبر میں ادا ہونا ہے کی منسوخی نے اس کے چہرے
پر پڑی انسانیت و بھائی چارے کی نقاب کو بھی نوچ کر پھینک دیا اورثابت کر
دیا کہ وہ تعاون نہیں رشوت اور سودے بازی تھی جو اپنی بات منوانے کیلئےدی
جاتی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے امریکی کانگریس یعنی پارلیمان نے ایک قانون بنا
رکھا ہے جس کی روُ سے امریکہ اقوام متحدہ کے کسی بھی ایسے ادارے کی معاونت
نہیں کرے گا جو فلسطین کو تسلیم کرتا ہو لیکن امریکیوں کو نہیں پتہ کہ اپنی
امداد روک لینے سے اس ادارے پران کے اثرات مزید سمٹ جائیں گے مبادہ اسے اس
ادارے کی رکنیت سے بھی محروم کر دیا جائے اور اگر کل کو ایسی تجویز آتی ہے
تو اسرائیل کے علاوہ ایک بھی ملک اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔ جہاں تک امداد
کی رقم کا سوال ہے یہ یونیسکو کے بجٹ کا ۲۰ فی صد ہے جسے بڑی آسا نی سے چین
اور سعودی عرب پورا کر دیں گے ویسے مشرق وسطیٰ کے علاوہ ایشیا میں
ہندوستان،لاطینی امریکہ کا برازیل بھی اس موقع پر فلسطین کا حامی بنا ہوا
ہے ۔ اگر یہی روایت آگے بڑھتی ہے اور بین الاقومی جوہری توانائی کی ایجنسی
میں بھی فلسطین شامل ہو جاتا ہے تووہاں سے بھی امریکہ کا پتہ صاف ہوجائے
گااسی کے ساتھ ایران پر امریکی دباو اپنے آپ ختم ہو جائیگا۔امریکی انتظامیہ
دراصل نہ تو خود چین سے بیٹھتے ہیں اور نہ دوسروں کو بیٹھنے دیتے ہیں گزشتہ
دنوں سعودی عرب کو ایران سے لڑانے کی ناکام کو شش کے بعد اب اسرائیل کو اس
کام کیلئے ورغلا رہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب اس کے چل چلاو کا وقت
آگیا ہے بقول انشا
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
یونیسکو کے اندر امریکہ اور اسرائیل کی سبکی کا یہ دوسرا واقعہ ہے فروری
۲۰۱۰ میں اسرائیل نے امریکہ کی مدد سے یونیسکو کی بین الاقوامی رابطہ کے
نائب ڈائرکٹر جنرل کے منصب کی خاطر اپنا امیدواری ظاہر کی تھی اور اس مقصد
کیلئے یونیسکو کی ڈائرکٹر جنرل بلغاریہ نژاد آئرینا بوکوا پر دباو ڈالنے کی
درخواست امریکہ سےکی تھی جو انکی کی احسانمند ہیں ۔اس لئے کہ بوکوا نے
امریکی مدد سے مصر کے امیدوار فاروق حسنی کو شکست دے کر یہ منصب حاصل کیا
تھا لیکن اسرائیل کو اپنے الگ تھلگ ہونےکی کیفیت کے خاتمے کی اس کوشش کو
شدید جھٹکا اس وقت لگا جب آئرینا نے اپنے سارے نائبین کے تقرر میں کسی بھی
اسرائیلی نمائندے کو شامل کرنے سے انکار کر دیا چونکہ وہ سارا معاملہ پس
پردہ ہوا تھا اور وکی لیکس کے ذریعہ بہت بعد میں سامنے آیا اس لئے دنیا اس
سے واقفیت حاصل نہ کر سکی ۔اس کے برخلاف یونیسکو میں فلسطین کی شمولیت کا
معاملہ علی اعلان ہوا اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو گیا ۔آجکل تیونس سے
لے فلسطین تک کی صورتحال پر یوں تبصرے ہو رہے ہیں کہ بہارِعرب کی فصل اسلام
پسند کاٹ رہے ہیں اس موقع پرامریکہ بے صبری اور اسرائیل کی بے شرمی دیکھ کر
انشاء اللہ خان انشاء کی مشہور غزل کے یہ ا شعار یاد آتے ہیں :
نہ چھیڑ اے نکہت بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
کہاں صبر و تحمل، آہ ننگ و نام کیا شے ہے
یہاں رو پیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں
تیونس کا رخ کرنے سے پہلے کہ جہاں سے بادِ نسیم نے اس سال کی ابتداء میں
گلشن ِ اسلام کا رخ کیا تھا وہاں کے انتخاب سے قبل غزہ میں رونما ہونے والے
ایک اہم واقعہ پر گفتگو مناسبِ حال معلوم ہوتی ہے ۔پانچ سال کے طویل انتظار
کے بعد اس ماہ اسرائیل کے اغواشدہ فوجی جلاد شالط کو رہائی نصیب ہوئی۔ یہ
بات قابل غور ہے کہ حماس نے اقتدار میں آنے سے قبل اسے گرفتار کیا تھااور
اس دلیری وشجاعت کے عوض اللہ رب العزت نے اسے اقتدار سے نوازہ ۔ جلاد شالط
کے بدلے اسرائیلیوں کو ۱۰۲۷ فلسطینیوں کو رہا کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ اب
بحث اس بات پر ہو رہی ہے کہ ایک کے مقابلے ۱۰۲۷ زیادہ ہیں یا ۴۰۰۰ فلسطینی
قیدیوں کے بالمقابل جو اسرائیل کی جیلوں میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر
رہے ہیں ۱۰۰۰ کم ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس نفسیاتی جنگ میں
اعدادوشمارکی اہمیت بہت زیادہ نہیں ہے ۔یہ صلح حدیبیہ جیسی صورتحال ہے جس
میں کیا کھویا اور کیا پایا کا تعین معاہدے میں لکھی شرائط کی بنیاد پر
نہیں کیا جاسکتا ۔ جو لوگ معاملہ اور معاہدہ کے درمیان فرق نہیں جانتے وہ
اس کاادراک نہیں کر سکتے ۔ معاملہ اپنے سے طاقتور اور کمزور دونوں کے ساتھ
ہوتا ہے لیکن معاہدہ اپنے ہم پلہ کے ساتھ ممکن ہے ۔دستورِزمانہ یہ ہے کہ جب
کمزور سے معاملہ کیا جائے تواس پر اپنی شرائط اس پر تھوپ دی جائیں اور جب
طاقتور سے پالہ پڑے تواس کے آگے سرِ تسلیم خم کر لیا جائے لیکن جب سابقہ
کسی برابر والے سے پیش آئے تو باہم گفت وشنید سے ایسامعاہدہ کیا جائے جو
دونوں فریقوں کیلئے قابل قبول ہو ۔
مشرکین مکہ مسلمانوں کو ایک باغی گروہ قرار دیتے تھےاور اس زعم میں گرفتار
تھے کہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اس چراغ کو گل کر دیں گے ۔ ایسا ہی کچھ
معاملہ اسرائیل کا حماس کے ساتھ تھا وہ حماس کودہشت گرد قرار دیتا تھا اور
کسی بھی قسم کی گفتگو کو خارج ازامکان ٹھہراتا تھا ۔ اسے بھی یہ غلط فہمی
تھی کہ غزہ کا مقاطعہ کر کے، اس کے معصوموں پر بمباری کر کے اس کے رہنماوں
کو شہید کر کے وہ اس تحریک کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا ۔ مشرکین مکہ نے اپنے
ناپاک عزائم کو بروئے کار لانے کی غرض سے پہلے بدر پھر احد اور بالاآخر
احزب کے میدان میں مقابلہ آرائی کی اور پے در پے ناکامی کے بعدانہیں ادراک
ہوا کہ اب یہ آندھی رکنے والی نہیں ہے اس لئے اس سے ہاتھ ملا لینے میں
عافیت ہے ۔اسرائیل نے پہلے تو غزہ کی ناکہ بندی کر دی ۔ اس سے بات نہیں بنی
حماس کے فرشتہ صفت رہنما شیخ یٰسین اور شیردل رنطیسی کو شہید کردیا اس سے
بھی حوصلے پست نہ ہوئے تو باقائدہ حملہ کردیالیکن اس کے باوجود جلاد کو رہا
کرنے کیلئے حماس کو مجبور نہ کر سکے۔فلوٹیلا کے قافلے پر ہلہ بولنے کے بعد
اسرائیل کو دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہو گیا اور وہ لوگ سمجھ گئے کہ اس
سرفروش طاقت کو جھکانا ان کے بس کی بات نہیں ہے اور بات چیت کے بغیر اس
مسئلہ کا حل ممکن نہیں ہے ۔ جلاد شالط کے بدلے ۱۰۲۷ معصوموں کی رہائی دراصل
اس بات کا اعتراف ہے کہ حماس کو دہشت گرد ہے اور کمزور سمجھنے والے غلطی پر
ہیں ۔اس معاہدے سے غزہ کی گھیرابندی کے دونوں جواز جلاد کا اغوا اور حماس
کا دہشت گرد ہونا اپنے آپ ختم ہو گئے ہیں۔
قیدیوں کی رہائی کے اس عمل سے جہاں فلسطین میں خوشی کے رنگ بکھر گئے وہیں
۷۹ فیصد یہودیوں نے بھی اس اقدام کی تائید کی جس سے ظاہر ہوتاہےاسرائیلی
حکومت کی ترجیحات جو بھی ہوں عوام امن کوجنگ پر ترجیح دیتے ہیں ۔اس لئے اس
سے سبق سیکھ کر کے غزہ کا معاشی مقطعہ فوراً ختم کر دیا جانا چاہئے ۔حزبِ
اختلاف قدیمہ پارٹی کےرہنما ناشمن شائی نے یہی مطالبہ کیا کہ اسرائیلی
حکومت کواپنی حکمت عملی میں تبدیلی لاکر حماس اور فتح سے بات چیت کا آغاز
کرنا چاہئے اور غزہ پر لگی پابندیوں کو ختم کر دینا چاہئے ۔اقوام متحدہ کے
مہاجرین کی مدد کیلئے کام کرنے والے ادارے یونروا کے ترجمان کرس گنس نے بھی
یہی بات کہی کہ اب وقت آگیا ہے کہ غزہ کی معاشی خوشحالی کا جامع منصوبہ بنا
کر اس پر لگائی گئی پابندیوں کو فی الفور ختم کر دیا جائے ۔ اس ظالمانہ
پابندی نے غزہ کوایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہےاوروہاں رہنے والے ۱۵لاکھ
لوگوں بالواسطہ قیدوبند کی سی کیفیت میں مبتلا ہیں۔غزہ کے۸۰ فیصد عوام
اقوام متحدہ کی جانب سے دی جانے والی غذائی امدا د پر گزربسر کرنے کیلئے
مجبور کر دئیے گئے ہیں اور وہاں بیروزگاری کا تناسب ۶۵ فیصد ہے ۔جلاد شالط
کی رہائی کیلئے مگر مچھ کے آنسو بہانے والے اگر عصبیت کی عینک اتار کر
دیکھیں تو یہ ظلم عظیم انہیں نظر آئے گاکہ یہاں کسی بھی وقت آسمان سےبلا
جواز اسرائیلی دہشت گردی برسنے لگتی ہے اور معصوموں کا لہو بہنے لگتا ہے ۔
رہائی سے قبل جلاد شالط سے شاہیرہ امین نامی صحافی نے پوچھاآپ جان چکے ہو
کہ قید میں رہنا کیسا ہوتا ہے ۔اسرائیل کی جیلوں جو ۴۰۰۰ فلسطینی قید ہیں
کیا ان کی رہائی کی مہم کا تم ساتھ دوگے؟جلاد نے ایک طویل خاموشی کے بعد
جواب دیا اگر ان قیدیوں کو رہا کردیا جائے تاکہ وہ اپنے خاندان میں لوٹ
جائیں تو مجھے خوشی ہوگی۔رائد ابولبدیہ کو تیرا سال قبل اس وقت گرفتار کیا
گیا تھا جب اسکی بیٹی مریم بطنِ مادر میں تھی اب جبکہ تیرہ سال بعد پہلی
بار مریم اپنے والد سے ملی تو اس نے کہا مجھے ایسا لگ رہا گویا میں آج
پیدا ہوئی ہوں ۔ ۵۲ سالہ توفیق عبداللہ جنہیں ۲۶ سال بعد رہائی نصیب ہوئی
کہتے ہیں میں بیم ورجا کی کیفیت میں مبتلا ہوں مجھے اپنی رہائی کی خوشی ہے
مگر میرے جو بھائی ہنوز بند ہیں میں ان کے لئے غمگین ہوں ۔
شمالی جلیلی سے رہا ہونے والی ۲۷ سالہ خودکش حملہ آور بِس کو بھی رہائی مل
گئی جنہیں ۲۲ پاؤنڈبارود کے ساتھ حملے سے قبل گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ ان
کا کہنا ہے کہ ۶سال کی قیدو بند میں اگر مجھے افسوس ہے تو بس اس بات کا کہ
میں اپنے گرفتار کرنے والے والے فوجی سمیت اپنے آپ کو ہلاک نہ کر سکی ۔بِس
کے مطابق وہ اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے والی اولین خاتون شہید کا اعزاز
حاصل کرنا چاہتی تھی۔ بچپن ہی سے انکی یہ خواہش تھی اسلئے کہ یہ نہایت مقدس
فریضہ ہے انہیں دکھ ہے ان کاخوابِ شہادت منظورِ الٰہی نہ تھا ۔انہوں نے
اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا جب تک سرزمین فلسطین پر یہ غاصبانہ قبضہ
رہے گا مجاہدین اپنی مزاحمت اور جہاد جاری رکھیں گےاور میں ان میں پیش پیش
رہوں گی۔ میں صرف ایکبار نہیں بار بار خود کش حملہ کر کے جامِ شہادت نوش
کرنا چاہتی ہوں ۔بس کی ماں سلمیٰ کا کہنا ہے کہ مجھے اپنی بیٹی کے عزائم کا
علم نہیں تھا لیکن میں اسکی حوصلہ افزائی کرتی ہوں یہ جہاد ہے اور مجھے
اپنی بیٹی پر ناز ہے ۔ ساری امت کو اس ماں بیٹی پر فخر ہے جنہوں نے ساری
دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ جس قوم میں جذبہ جہادو شہادت موجزن ہوتا ہے وہ
کبھی بھی زیر نہیں ہوسکتی ۔
فلسطینی مجاہدین کی رہائی پر جشن منانے والے ا یک لاکھ افراد کا ہجوم نعرے
لگا رہا تھا ہمیں ایک اور جلاد چاہئے ایسے میں سعودی شہزدہ خالد طلال نے
اعلان کیا کہ جو کوئی اسرائیلی فوجی کو اغوا کرے گا وہ اسے ایک لاکھ ڈالر
کےانعام سے نوازیں گے۔اس طرح کے بیانات پر جن لوگوں کو بےچینی ہوتی ہے ان
کا جواب یحیی الظہر نامی استاذ نے یوں دیا کہ ہمیں پتہ ہے شالط کو بڑی
مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہزاروں فلسطینی بھی تو اسرائیل کی قید میں
ہیں اور اب ہمیں اس بات کا علم ہو چکا ہے کہ اسرائیل صرف طاقت کی زبان
سمجھتا ۔ہمارے پاس اغوا کرنے کے علاوہ کوئی متبادل موجود نہیں ہے اس لئے کہ
ہم امن کی زبان کو آزما کر دیکھ چکے ہیں اسرائیل کے کانوں پر اس سے جوں
نہیں رینگتی ۔اسی بات کو علامہ اقبال یوں بیان کرتے ہیں
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر زبانِ نرم و نازک بے اثر |