بھان متی کا کنبہ۔۔ اور۔۔۔ میڈیا

آل پارٹی کانفر نس اعلامیہ ابھی جاری نہیں ہوا تھا لیکن اندر کی ساری باتیں یکے بعد دیگرے باہر آتی جا رہی تھیں اور ہمیں گھر بیٹھے بٹھا ئے پتہ چل رہا تھا کہ ”بھان متی کا کنبہ“ اندر کیا گُل کھلا رہا ہے ۔اگر اندرونی کہانیاں یوں ہی طشت از بام ہونی تھیں تو ”میڈیا کوریج“ میں ہرج ہی کیا تھا؟۔اگر میڈیا موجود ہوتا تو کم از کم اتنا تو ہوتا کہ افواہ طرازوں کو کھُل کھیلنے کا موقع نہ ملتا ۔خیر جو ہوا ، سو ہوالیکن اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ مجھے بھی پتہ چل گیا کہ پاکستان میں قوی قسم کی اٹھاون (58) سیاسی جماعتیں ہیں۔چلئیے پاکستان کسی لحاظ سے تو خوش حال اور خود کفیل ثابت ہوا وگرنہ ہم تو ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ وطنِ عزیز میں ہر شئے کم کم ہی ہے ،پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک معروف نیوز چینل پر بار بار یہ بریکنگ نیوز جاری تھی کہ وزیرِ اعظم کے کچن میں شرکاءکے لئے کھانے تیار ہو رہے ہیں اور مینو کے مطابق پہلے گرما گرم سوپ سے تواضع کی جائے گی ، پھر چکن کڑاہی اور ویجیٹیبل رائس پیش کئے جائیں گے۔افسوس کہ مذکورہ نیوز چینل نے ادھوری ”بریکنگ نیوز“ جاری کی،حالانکہ ہمیں گھر بیٹھے پتہ تھا کہ ساتھ رائیتہ اور سلاد ، پینے کے لئے کوک اور منرل واٹر ، حتیٰ کہ ہاتھ صاف کرنے کے لئے ٹشو پیپرز بھی ہیں۔اگر متذکرہ نیوز چینل ادھوری کی بجائے پوری خبر نشر کرتا تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ قوم متحد ہو جاتی اور امریکہ دم دبا کر بھاگ جاتا۔لیکن مجھے جس بات پر بار بار غصّہ اور اپنی کم عقلی پر افسوس ہو رہا ہے و ہ یہ ہے کہ اگر میں نے بھی اپنی پارٹی رجسٹر کروائی ہوتی تو میں بھی اٹھتی بھاپ والے سوپ کے مزے لوٹ رہی ہوتی۔اگر مسرت شاہین اپنی پارٹی رجسٹر کروا سکتی ہے تو میں کیوں نہیں؟۔پھر یہ بھی تو ہے کہ وہاں تو ”سنگل مین“ کئی پارٹیاں پہلے سے ہی موجود تھیں اگر میں بھی ہوتی تو ہرج ہی کیا تھا ؟۔

شنید ہے کہ APC میں میاں نواز شریف نے حسبِ عادت اور حسبِ سابق یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ ”دال میں کچھ تو کالا ہے “ جبکہ محمود اچکزئی نے تو پوری دال کو ہی ”کالا“ قرار دے دیا۔اس سے پہلے جناب گیلانی نے اپنے افتتاحی کلمات میں امریکہ کے ساتھ ہر سطح پر مذاکرات کی خواہش کا اظہار کر دیا ۔عمران خان بھلا کب کسی سے پیچھے رہنے والے تھے انہوں نے متفقہ اعلامیہ کے مسودے کو ”ویٹو“ کر دیا۔شکر ہے کہ شیخ رشید اس وقت اپنے قیمتی سگار سے کھیل رہے تھے وگرنہ عمران خان سے پہلے انہوں نے ویٹو کرنا تھا۔ایک انتہائی معروف اینکر پرسن حیران تھے کہ میاں نواز شریف پہلے تو جنا ب کیانی کے ساتھ ہنس ہنس کر مل رہے تھے لیکن جب APC شروع ہوئی تو وہ فوج پر ہی برس پڑے۔شاید محترم اینکر پرسن نہیں جانتے ہوں گے کہ آج کل میاں صاحب کے اندر بھارتی محبّت کے سُوتے پھوٹ رہے ہیں۔شاید انہوں نے اِنہی جیسا بننے کی خاطر ”بغل میں چھری ، منہ میں رام رام “ والے محاورے پر عمل کر ڈالا ہو ۔محترم اینکر پرسن اس میں بھی کسی بہت بڑی سازش کی بُو سونگھتے پائے گئے کہ جنابِ گیلانی نے جان بوجھ کر اپنی ایک طرف چوہدری شجاعت حسین اور دوسری طرف میاں نواز شریف کو بٹھا دیا ۔شاید وہ اس میں میاں صاحب کی اہانت کا پہلو تلاش کر رہے ہوں کہ ”کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی“ اور یہ ہے بھی بجا کہ ”چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک“ لیکن میاں صاحب کے اطمینان کے لئے یہ کافی ہونا چاہیے کہ امریکی سفیر کیمرون منٹر ان کے بیان پر ہد یہ تبریک کے طور پر بہادری کا تمغہ پہنانے کو بے قرار ہیں۔اب ہو سکتا ہے کہ امریکہ میاں صاحب کی ایٹمی دھماکے کرنے کی گستاخی کو معاف کرتے ہوئے ”ہتھ ہولا“ کر لے اور مقتدر حلقوں کو یہ اشارہ دے دے کہ اگر اقتدار کا ہما میاں صاحب کے سر پر بٹھا دیا جائے توکوئی مضائقہ نہیں ۔۔۔۔۔ زرداری صاحب ! ”ہشیار باش “

معزز قارئین ! سوال یہ ہے کہ جس قوم کے راہبر قومی سلامتی کے اس نازک موڑ پر بھی انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے پائے جائیں ، سقہ اینکرز اور معروف نیوز چینلز کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کے موضوع کو قومی خدمت قرار دینے لگیں ، اُس قوم کا حشر کسی تجزیے یا تبصرے کے بغیر ہی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643134 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More