وہ 20 اپریل 1985ءمیں ہندوستان
کے شہر رشی کیش میں پیدا ہوئی جو شرک و بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز سمجھا
جاتا ہے، اس نے جس گھر میں آنکھ کھولی، اس کے سربراہ یعنی اس کے والد ایک
بہت بڑے پنڈت اور ہندو سادھوﺅں کے ایک بڑے مرکز (آشرم) کے مالک و منتظم تھے۔
اس کا بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ابتدائی دن اسی ماحول میں بسر ہوئے اور اس
نے اسکول و کالج کی تعلیم کے مراحل یہیں رہ کر طے کیے۔ گھر سے لے کر کالج
تک اس کا واسطہ ان لوگوں سے اور ایسے ماحول سے تھا، جہاں سوائے شرک و بت
پرستی کے کچھ نہ تھا۔ ایسے ماحول میں وہ تو کیا بلکہ کوئی بھی یہ تصور نہیں
کر سکتا تھا کہ اس کے قلب و ذہن میں ہدایت و توحید کا خورشید طلوع ہوگا، جس
کی کرنیں اس کی کایا پلٹ کر رکھ دیں گی۔ ایک ناز و نعم میں پلی ہوئی، کھاتے
پیتے گھرانے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بچی اس قدر عزم و استقلال اور ہمت و
عزیمت کا مظاہرہ کرے گی کہ اسلام کے ابتدائی دور کے اہل ایمان کی یادیں
تازہ ہو جائیں گی، کسی نے سوچا بھی نہ تھا مگر سبحان تیری قدرت! تو جس سے
جو کام لینا چاہے.... کہ تیرے ارادے کا نام وجود ہے اور تیرا فضل کسی حد و
سرحد اور رکاوٹ کا پابند نہیں؟!
وہ ایم ایس سی کے پہلے سال میں تھی کہ اس کی زندگی میں ہدایت کی کرن پھوٹنا
شروع ہوئی، جس کا سبب یہ ہوا کہ اس کے والد کی زیرنگرانی جوآشرم تھا، اس
میں ایک سادھو نے وہاں پوجا کیلئے آنے والی ایک خاتون اور اس کی جوان العمر
بیٹی کے ساتھ حیا سوز گھناﺅنا کھیل کھیلا۔ یہ بات لمحوں میں مشہور ہو گئی
جو بلاشبہ آشرم کیلئے کلنک کا ٹیکا تھی، جب اسے یہ بات معلوم ہوئی تو اس پر
اس بات کا غیر معمولی اثر ہوا، اس نے اپنے باپ سے کہا کہ پوجا کے نام پر
عزت نیلام کرنے والے مرکز اور اس کے تمام سادھوﺅں کو نذر آتش کرنا چاہئے،
بلکہ ہم سب کو بھی سزا کے طور پر جل جانا چاہئے کیونکہ یہ سب کچھ ہمارے
ادارے میں ہوا ہے۔ اس کو اس روح فرسا واقعے کے بعد آشرم سے نفرت ہو گئی اور
اس نے پوجا کیلئے وہاں جانا چھوڑ دیا۔
ایک رات وہ اسی سوچ میں تھی کہ آخر عبادت گاہوں میں بھی عزتیں محفوظ نہیں
ہیں تو وہ کون سی جگہ اور دین ہے جہاں حوا کی بیٹی کی عزت و ناموس محفوظ ہو....
کہ اچانک اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ پوجا کےلئے آشرم
میں موجود ہے اور دو سادھو اس کے پیچھے لگ گئے ہیں، وہ اسے پکڑنا اور اپنی
ہوس کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں اور وہ ان سے بھاگ رہی ہے، وہ میلوں دوڑتی
رہی اور سادھو بھی بدستور اس کا پیچھا کرتے رہے۔ اس کی ہمت جواب دے رہی تھی
اور اس کا خوف یقین میں بدلنے والا تھا۔ قریب تھا کہ وہ پکڑی جاتی کہ اس کی
نظر ایک شخص پر پڑ گئی، جو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہیں اور اسے کہہ رہے ہیں
کہ بیٹی! مسجد کے اندر آ جاﺅ، یہاں تمہیں کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ وہ مسجد میں
داخل ہو جاتی ہے اور وہ شخص دروازہ بند کرکے اس کی ہمت بندھاتا ہے کہ بیٹی!
یہ تمہارا اپنا گھر ہے، مطمئن رہو، یہاں کوئی نہیں آ سکتا۔
اتنے میں اس کی آنکھ کھل گئی، اسے یوں لگا کہ یہ محض خواب نہیں بلکہ حقیقت
ہے کیونکہ وہ خود کو ایک انجانے سکون و اطمینان سے سرشار پا رہی تھی۔ اس کا
ضمیر اسے بار بار جھنجھوڑ رہا تھا کہ اسے سپنا سمجھ کر طاق نسیاں میں نہ
ڈالنا، یہ اگرچہ ایک خواب ہے، مگر ایسا خواب جس پر کئی حقیقتیں قربان کی جا
سکتی ہیں۔ ضمیر کی کسک اسے کچھ کرنے پر ابھار رہی تھی کہ اب اس شرک و بت
پرستی کے گڑھ سے نکلو، یہاں اندھیرا ہے اور صرف اندھیرا۔ اس پر تین حرف
بھیجو اور روشنی میں آﺅ، ایسی روشنی جو تمہیں حقیقی کامیابیوں سے ہمکنار کر
دے۔ وہ اس خیال کو دل و دماغ سے محو کرنے کی لاکھ کوشش کرتی، مگر کامیاب نہ
ہوتی۔ اس رات عقل و دل اور جسد و ضمیر کی یہ کشمکش جاری رہی اور بالآخر اس
نے ایک فیصلہ کر لیا کہ ہاں! واقعی مجھے اس ندھیرے سے اب نکل جانا چاہئے،
جہاں میری عزت تک محفوظ نہیں اور اس کیلئے صبح سے ہی کوشش شروع کرنی چاہئے۔
وہ دن کے دس بجے تک اس ادھیڑ بن میں رہی کہ وہ کس طرح کفر و شرک کے اس
اندھیرے اور عزت و ناموس کے ان ڈاکوﺅں کے جنگل سے نکلے، جنہوں نے بظاہر
عبادت گزاروں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے لیکن ان کا باطن شیطانی عزائم سے سیاہ
ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے دل ہی دل میں دعا بھی کرتی رہی کہ اے میرے مالک! تو
ہی میری مزید رہنمائی فرما اور مجھے اس گندے ماحول اور گمراہ لوگوں کے چنگل
سے چھڑا کر ایمان و یقین کی روشنی عطا فرما۔ اے مالک! میرے لیے دودھ کا
دودھ پانی کا پانی کر دے۔ ابھی وہ دعا ہی کر رہی تھی کہ مالک لم یزل نے اس
کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اپنے موبائل سے
ایسے ہی کسی کا نمبر ڈائل کرے، اگر کسی مسلمان سے رابطہ ہوا تو امید کی کرن
روشن ہوگی اور مجھے یقین ہو جائے گا کہ ان شاءاللہ میرے لیے ایمان و ہدایت
کی راہ ہموار ہوگی اور اگر یہ نمبر کسی ہندو مشرک وغیرہ کا ہوا تو میں
سمجھوں گی کہ ابھی میرے خواب کی تعبیر کا وقت نہیں آیا۔ یہ سوچ کر اس نے
ایک فرضی نمبر ملایا، فون اٹھانے والے سے اس نے پوچھا کہ آپ کون بات کر رہے
ہیں؟ آگے سے جواب تھا، میں مظفر نگر سے محمود بات کر رہا ہوں۔ ”محمود“ نام
سن کر اس کے دل کو یک گونہ اطمینان ہوا کہ میرے مالک نے میری مزید رہنمائی
فرما دی ہے۔ اس نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ان سے اپنا مدعا بیان کیا۔ مزید
تفصیلات اس کی زبانی ملاحظہ فرمائیے۔ وہ کہتی ہے:
میں نے کہا: مجھے مسلمان ہونا ہے،
وہ بولے: مسلمان کیوں ہونا چاہتی ہو؟ میں نے کہا کہ اسلام سچا دھرم ہے اور
اسلام ہی میں ایک لڑکی کی عزت بچ سکتی ہے۔
وہ بولے: تم کہاں سے بول رہی ہو؟
میں نے کہا: رشی کیش سے۔
انہوں نے بتایا کہ مسلمان ہونے کیلئے آپ کو پھلت ہمارے حضرت کے پاس جانا
ہوگا، ان کا نام مولوی محمد کلیم صدیقی ہے۔ پھلت ضلع مظفر نگر میں کھتولی
کے پاس گاﺅں ہے، میں ان کا فون نمبر آپ کو دے دوں گا۔ میں نے کہا: دے
دیجئے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی میرے پاس نہیں ہے۔ ایک گھنٹے بعد تم فون کر
لینا، میں تلاش کر لوں گا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اگر اسلام قبول کروں گی
تو میرے گھر والے تو مجھے نہیں رکھ سکتے، میں پھر کہاں رہوں گی؟
انہوں نے کہا: میرا ایک بڑا بیٹا تو ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گیا ہے، میرا
ایک دوسرا لڑکا ہے، جس کی عمر ابھی پندرہ سال ہے۔ اگر تو مسلمان ہو گئی تو
میں تمہاری اس سے شادی کر دوں گا اور تم میرے گھر میں رہنا۔ میں نے کہا کہ
وعدہ یاد رکھنا۔ انہوں نے کہا کہ یاد رہے گا۔ مجھے بے چینی تھی، مجھے ایک
گھنٹہ انتظار کرنا مشکل ہوگیا۔ پچاس منٹ کے بعد میں نے فون کیا، مگر مولوی
صاحب کا فون نہ مل سکا۔ اس کے بعد گھنٹہ آدھ گھنٹہ بعد میں فون کرتی رہی
اور معذرت بھی کرتی رہی کہ آپ کو پریشان کر دیا، مگر مجھ سے بغیر اسلام کے
رہا نہیں جاتا۔ انہوں نے کہا: صبح کو میں خود تمہیں فون کروں گا۔ بڑی مشکل
سے صبح ہوئی، نو بجے تک میں انتظار کرتی رہی، نو بجے کے بعد میں نے پھر فون
کیا، فون اب بھی نہ ملا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے آدمی بھیجا ہے،
بڈولی، وہ وہاں سے نمبر لے کر آئے گا۔ ساڑھے گیارہ بجے فون ملا۔
میں نے فون نمبر لے کر مولوی کلیم صاحب کو فون کیا۔ فون کی گھنٹی بجی،
مولوی صاحب نے فون اٹھاتے ہی کہا: السلام علیکم!
میں نے کہا: جی سلام، کیا آپ مولوی کلیم ہی بول رہے ہیں؟
انہوں نے کہا: جی کلیم بول رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ مجھے مسلمان ہونا ہے۔
مولوی صاحب نے کہا: آپ کہاں سے بول رہی ہیں؟ میں نے کہا: رش کیش سے۔
مولوی صاحب نے کہا کہ آپ کیسے آئیں گی؟
میں نے کہا: اکیلے ہی آﺅں گی۔
مولوی صاحب نے کہا: فون پر ہی آپ کلمہ پڑھ لیجئے۔
میں نے کہا کہ فون پر بھی مسلمان ہو سکتے ہیں؟
کہا کہ ہاں، کیوں نہیں ہو سکتے، بس اپنے مالک کیلئے جو دلوں کے بھید جاننے
والا ہے، اس کو حاضر و ناظر جان کر سچے دل سے کلمہ پڑھ لیجئے کہ اب میں
مسلمان بن کر قرآن اور اس کے سچے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی
گزاروں گی۔
میں نے کہا: پڑھائیے! مولوی صاحب نے کلمہ پڑھایا اور کہا کہ اب ہندی میں اس
کا ارتھ (ترجمہ) بھی کہہ لیجئے، ابھی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ میرے فون
میں پیسے ختم ہو گئے اور بات کٹ گئی۔ میں جلدی سے بازار گئی اور فون میں
پیسے ڈلوائے، مگر اس کے بعد مولوی صاحب کا فون نہیں مل سکا۔ میں بہت
تلملاتی رہی اور اپنے کو کوستی رہی کہ انجو! تیرے من میں ضرور کوئی کھوٹ
ہے، تبھی تو تیرا ایمان ادھورا رہا۔ میں اپنے مالک سے دعا کرتی رہی، میرے
سچے مالک! آپ نے کہاں اندھیرے میں میرے لیے ایمان کا نور نکالا، میں تو
گناہ گار ہوں، میں ایمان کے لائق کہاں ہوں، مگر آپ تو داتا ہیں، جس کو
چاہیں بھیک دے سکتے ہیں۔
تیسرے روز میں نے آنکھ بند کرکے رو رو کر دعا کی اور فون ملایا تو فون مل
گیا۔ میں بہت خوش ہوئی، میں نے کہا: مولوی صاحب! میری گناہ گار آتما (روح)
کی وجہ سے میرا ایمان ادھورا رہ گیا تھا۔ فون میں پیسے ختم ہو گئے تھے۔ اس
کے بعد لگاتار آپ کو فون کرتی رہی مگر ملتا نہیں تھا۔ مولوی صاحب نے بڑے
پیار سے کہا: بیٹا! آپ کا ایمان بالکل پورا ہو گیا تھا۔ میں خود سوچ رہا
تھا کہ میں ادھر سے فون ملاﺅں، مگر میں اس وقت نوئیڈا میں ایک پروگرام میں
جا رہا تھا۔ ہمارے ساتھی ایک ضروری بات کر رہے تھے، اس کی وجہ سے میں فون
نہ کر سکا۔ پھر ایسی مصروفیت رہی کہ فون بس برائے نام کھولا۔ میں نے کہا:
پھر بھی آپ مجھے دوبارہ کلمہ پڑھا دیجئے۔ فون دوبارہ کٹ گیا۔ میرا حال خراب
ہو گیا۔ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں اپنے مالک سے فریاد کر رہی تھی: میرے
مالک! کیا آج بھی میرا ایمان ادھورا ہی رہ جائے گا کہ اچانک مولوی صاحب کا
فون آیا۔ میں نے خوشی سے رسیو کیا۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ میں نے فون کاٹ
دیا تھا کہ پتا نہیں کہ آج بھی تمہارے پاس فون میں پیسے ہوں گے کہ نہیں۔ اس
لیے اپنی طرف سے فون کروں، کلمہ پڑھ لو۔ میں نے کلمہ پڑھا۔ ہندی میں عہد
لیا اور پھر کفروشرک اور سب گناہوں سے مجھے توبہ کرائی اور اللہ تعالیٰ اور
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعات و فرمانبرداری کا عہد لیا۔ |