۸۰۰۲ء کا سال پاکستانی عوام کے
لئے بہت سی تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں امیدوں کا سال ثابت ہوا ہے۔ فروری کے
انتخابات اور اس کے نتیجے میں مشرف لابی کی ناکامی اس سلسلے کی پہلی کڑی تھی۔
اس کے بعد پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ
(ن) نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ روایتی حریف ہونے کا باوجود یہ
دونوں جماعتیں چوں کہ بہت سے میثاقات اور معاہدوں کے نتیجے میں ساتھ جینے اور
مرنے کی قسمیں کھا چکی تھی اور سب سے اہم چیز یہ کہ ان دونوں جماعتوں نے مشترکہ
حریف جنرل مشرف کی پالیسیوں کو ختم کرنے کا متفقہ فیصلہ کر کے اسے دستاویزی
معاہدے کی صورت دے دی تھی جن میں سے ایک عدلیہ کی 3 نومبر والی حالت میں بحالی
بھی تھی، لہذا ان کا اتحاد غیر فطری ہونے کے باوجود فطری تھا۔ اس کے بعد عوام
کو ایک اور خوشخبری ملی جب سابق صدر پاکستان نے (کسی ڈیل کے نتیجے میں یا موخذے
کے خوف سے) استعفی دے دیا۔ اس کے بعد عوام کی تبدیلی کے حوالے سے امیدیں مزید
مضبوط ہو گئیں۔ لیکن شاید عوامِ پاکستان پر قسمت کی دیوی ابھی پوری طرح قربان
نہیں ہوئی۔
نئے منتخب وزیر اعظم پاکستان نے اپنی پہلی تقریر میں عدلیہ بحالی کا وعدہ کیا
اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین بھی 24 گھنٹوں کے دوران عدلیہ بحالی
کا وعدہ کر چکے ہیں ۔ لیکن نہ جانے اس عہد کو ایفا کرنے میں کیا اسباب رکاوٹ
ہیں۔
بہر حال ہم ذکر کر رہے تھے بیچاری عوام کا۔ مسلم لیگ (ن) کے اتحاد کی بنیاد
مشرف پالیسیوں کا خاتمہ اور عدلیہ کی بحالی تھی ۔ عدلیہ بحال نہ ہو سکی لہذا
اتحاد بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ نواز شریف کو بار بار یقین دہانی کرانے کے
باوجود جج بحال نہ ہونے پر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اصل میں آصف علی زرداری
صاحب میاں صاحب کو ”لارے لپے“ لگا کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔
لیکن میرا خیال ہے کہ میاں صاحب نے جو وقت بھی گزارا ہے وہ اتمام حجت کے لئے
گزارا ہے۔
موجودہ سیاسی تناظر یہ ہے کہ مرکز سے مسلم لیگ (ن) الگ ہو چکی ہے اور پنجاب میں
میاں شہباز شریف کی قیادت میں نواز لیگ اور پی پی پی نے مل کر حکومت بنائی ہوئی
ہے۔ اب تک تو تمام معاملات بانداز احسن چل رہے تھے اکا دکا بیانات کے علاوہ
کوئی معرکة الآراء بیان جاری نہیں ہوا بطور خاص پی پی پی کی مرکزی قیادت کی طرف
سے۔ لیکن۔۔۔
جناب گورنر پنجاب پہلے دن سے ہی پنجاب حکومت کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتے آرہے ہیں
۔ سب سے پہلے ان کی طر ف سے جو بیان منظر عام پر آیا تھا وہ یہ تھا کہ ”میں
پنجاب کو لاڑکانہ بنا دوں گا“ ۔ گورنر بننے کے بعد اس قسم کا بیان اپنے پیچھے
کیا فلسفہ چھپائے ہوئے تھا اس کے حوالے سے ایک سے زائد آراء ہو سکتی ہیں۔( ایک
بات جو ذہن میں رکھنی چاہئیے وہ یہ کہ گورنر اور صدر مملکت کا غیر جانبدار ہونا
ضروری ہوتا ہے)۔ اور پھر اس کے بعد دیگر کئی بیانات حکومت پنجاب کے متعلق آتے
رہے۔ اس ضمن میں پی پی پی کی پنجاب کی قیادت کی طرف سے بھی ہلکی” بوندا باندی“
ہوتی رہی۔ میرے خیال میں اس ساری سرگرمی کے پیچھے جو فلسفہ کارفرما ہے وہ جناب
گورنر کی جانب سے پی پی پی کی قیادت کو اپنی سیاسی وابستگی کے حوالے سے یقین
دہانی کرانا ہے کیوں کہ گورنر صاحب مشرف کے آخری دور کی نشانی ہیں اور ان کے
”پرو مشرف“ ہونے کے حوالے سے بھی چیمہ گوئیاں ہوتی رہی ہیں اور کچھ باتیں
اخبارات کی زینت بھی بنتی رہی ہیں۔ اور زمینی صورت یہ ہے کہ بے انتہا وزارتیں
ایجاد اور تقسیم کرنے کے بعد بھی بعض سیاسی اتحادی اور پارٹی کے ارکان فیض یاب
نہیں ہو سکے ہیں ۔ لہذا اس نازک موڑ پر اپنے آپ کو جیالا ثابت کرنا ہر کسی کی
مجبوری ہو سکتی ہے۔
لیکن میاں شہباز شریف ان تمام تر سازشوں کے باوجود عوام کی خدمت میں جتے ہوئے
ہیں۔ اور یہ بات میں اس لئے نہیں کہ رہا کہ میری وابستگی نواز لیگ کے ساتھ ہے
بلکہ چونکہ میں ایک عام شہری ہوں ۔ایک شہری کا سب سے بنیادی ضرورت روٹی ، کپڑا
اور مکان ہے دیگر دو کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ روٹی ان میں سر
فہرست ہے جو کہ ہمیں انتہائی سہولت کے ساتھ اس مہنگے دور میں 2 روپے میں مل رہی
ہے ۔ نہ جانے کتنے لوگ اس نعمت سے مستفید ہوتے ہوں گے اور میاں صاحب کے لئے دل
سے دعا کرتے ہوں گے۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔
بات عوام کی ہو رہی تھی اور عوام اس وقت انصاف اور بنیادی ضروریات زندگی کے
حصول کے لئے سرگرداں و پریشاں ہے۔ سال کے شروع میں پیدا ہونے والی امیدیں ایک
ایک کرکے دم توڑ چکی ہیں۔ موجودہ حکومت کے لئے یہ سنہرا موقع ہے کہ عوام کے دل
جیتنے کے لئے ایسے اقدامات اٹھائے کہ پسے ہوئے عوام ایک بار پھر پُر امید ہو
جائیں لیکن یہ امیدیں بے ثمر نہ ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام اس قدر بد دل ہو
جائیں کہ موجودہ حکمران جب دوبارہ ووٹ لینے کے لئے امید دلائیں تو عوام بیک
آواز کہہ اٹھیں۔
رفاقتوں کے نئے خواب خوشنما ہیں مگر
گزر چکا ہے تیرے اعتبار کا موسم |