حدیث !
عن انس بن مالک ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کان اذا قحطوا استسقٰی
باالعباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ فقال اللھم ان کنا نتوسل الیک نبینا
فتسقینا وانا نتوسل بعم نبینا فاسقنا فیسقون۔
(بخاری ابواب الاستسقاء ص 137)
ترجمہ !
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب امیر المؤمنین رضی اللہ
عنہ جب لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوتے تھے تو حضرت عباس بن عبد المطلب کے
وسیلہ سے بارش کی دعا مانگا کرتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ یا اللہ ! عزوجل
ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی کو وسیلہ بنایا کرتے تھے ، اس وقت تو ہم کو
بارش سے سیراب فرماتا تھا ،اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کو تیری بارگاہ میں
وسیلہ بناتے ہیں لہٰذا تو ہم کو سیراب فرمادے تو لوگ سیراب کر دئیے جاتے
تھے۔ ( یعنی بارش ہو جاتی تھی)۔
فوائد و مسائل
1۔ بخاری شریف کی یہ حدیث کھلی ہوئی دلیل ہے کہ خدا سے دعا مانگتے وقت
حضرات انبیاء و اولیاء اور دوسرے صلحاء امت کا وسیلہ پکڑنا اور ان کے
وسیلوں سے اپنی مرادوں کو بارگاہ الہٰی سے طلب کرنا یہ ایک ایسا مسئلہ ہے
کہ اس پر تمام صحابہ کرام کا اجماع و اتفاق ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ نماز
استسقاء میں حضرت امیر المؤمنین فاروق اعظم کے ساتھ ہزاروں صحابہ دعا میں
شریک ہوتے رہے ہونگے اور اس دعا کو سنتے رہے ہونگے ، اگر خدانخواستہ وسیلوں
کے ساتھ دعا مانگنا شرک یا گناہ ہوتا تو نہ حضرت امیر المؤمنین فاروق اعظم
اس طرح دعا مانگتے نہ صحابہ اس دعا کو پسند کرتے ، اگر بال برابر بھی یہ
دعا خلاف شریعت ہوتی تو ہزاروں صحابہ ہرگز ہرگز اس کو برداشت نہیں کرسکتے
تھے بلکہ ضرور حضرت فاروق اعظم کو ٹوک دیتے مگر جب حضرت فاروق اعظم نے اس
طرح دعا مانگی اور تمام صحابہ نے اس دعا کو پسند کر کے اس پر آمین کہا تو
یہ اجماع ہوگیا کہ بلاشبہ اس طرح دعا مانگنا جائز بلکہ مستحب ہے۔
2۔ حضرت علامہ عینی نے تحریر فرمایا کہ ابو صالح کی روایت کردہ حدیث میں یہ
بھی آیا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت عباس کو اپنے ساتھ منبر پر کھڑا کیا اور
پہلے خود اس طرح دعا مانگی کہ
اللہم انا توجھنا الیک بعم نبیک فاسقنا الغیث ولا تجعلنا من القانطین ۔
یا اللہ ! عزوجل ہم سب تیرے نبی کے چچا کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوئے
ہیں لہٰذا تو ہم لوگوں کو بارش سے سیراب فرمادے اور ہم کو نا امید نہ فرما
۔
اس کے بعد حضرت عمر فاروق اعظم نے حضرت عباس سے فرمایا ۔
کے اے ابو الفضل ! تم بھی دعا مانگو تو حضرت عباس نے اس طرح دعا مانگی کہ ،
اللھم لم ینزّل بلاءٌ الا بذنب ولم یکشف الا بتوبۃ وقد توجہ بی القوم الیک
بمکانی من نبیک وھٰذہ ایدینا الیک بالذنوب ونواصینا بالتوبۃ فاسقنا ۔
یا اللہ ! عزوجل ہر بلا گناہوں کے باعث ہی اتاری جاتی ہے اور بغیر توبہ کے
کوئی بلا دفع نہیں کی جاتی ساری قوم میرے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوئی ہے
کیونکہ مجھ کو تیرے نبی سے ایک خاص تعلق ہے ،یہ ہمارے گناہگار ہاتھ اور
ہماری توبہ کرنیوالی پیشانیاں تیرے حضور میں حاضر ہیں لہٰذا تو ہم لوگوں کو
سیراب فرمادے ۔
راوی کا بیان ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کے بعد پہاڑوں کی طرح
بدلیاں ہر چہار طرف سے آگئیں اور خوب بارش ہوئی ،یہاں تک کہ زمین سیراب ہو
کر سرسبز و شاداب ہوگئی۔ ( حاشیہ بخاری ص 1287)
3۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی اس دعا میں یہ تصریح فرمادی کہ
پہلے تیرے نبی کو وسیلہ بنا کر دعا مانگا کرتے تھے اور اب ہم تیرے نبی کے
چچا کو وسیلہ بنا کر دعا مانگتے ہیں !
اس سے ثابت ہوگیا کہ نبی اور غیر نبی ،زندوں اور وفات پاجانے والوں ،سب
دعاؤں میں وسیلہ بنانا جائز ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم |