"Life is not
fair..............Get used it"
یہ اس کی ز ندگی کے گیا رہ اصولو ں میں سے ایک ہے۔ وہ ہر صبح اٹھ کر یہ
نہیں سو چتا کہ آج اس کی دولت میں کتنا اضا فہ ہوا بلکہ یہ اندازہ لگا تا
ہے کہ میر ی بچت کی گئی کما ئی کس کس حقدار کے لئے مفید ثابت ہو سکتی
ہے۔خدا تعا لٰی کچھ لو گو ں کو دنیا میں سخا وت کا باد شا ہ بنا کر بھیجتا
ہے،وہ ان کو دولت دیتا ہے،عزت دیتا ہے اور ان کی ہلکی پھلکی رہنما ئی بھی
فرماتا ہے تاکہ اس دولت اور عزت کے باعث کہیں وہ زمین پر دیکھنا ہی نہ چھوڑ
دیں۔شائدخدا کا یہ ہی کرم ہے کہ وہ اس ر ہنما ئی کے باعث آج اند ھیرے میں
لو گو ں کے پیرو ں میں چبھنے والی جو کنکر یا ن چن رہا ہے وہ دو لت کی نعمت
کی صورت میں ہیرے بن کر اسے مو صول ہو رہے ہیں۔
بل گیٹس 28اکتو بر1955کوایک وکیل کے گھر ا مر یکی شہر سیا ٹل میں پیدا ہوا
اس نے تعلیم کی غر ض سے ہا ر ورڈ یو نیو رسٹی میں دا خلہ تو لیا پر 1975میں
"ما ئیکرو سا فٹ" کمپنی کے قیا م کی خاطر گریجویشن سے قبل ہی تعلیمی سلسلہ
منقطع کر دیا۔2007 میں اسی ہا رورڈ یو نیو رسٹی نے اس کو ڈاکٹر یٹ کی ڈگر ی
سے نو ا ز ا ہے جبکہ کیمر ج سمیت دیگر 6جامعات بھی اسے ا عزازی ڈگر یا ں دے
چکی ہیں۔ بل گیٹس نے 19بر س کی عمر میں ما ئیکرو سا فٹ قا ئم کی اور 31ویں
برس ہی اس کا شما ر دنیا کے ارب پتی لو گو ں میں ہو نے لگا۔ وہ 13برس تک
لگا تا ر دنیا کی ا میر تر ین شخصیت رہا، اس کی دو لت میں ہر منٹ 250ڈالر
کا اضا فہ ہوتا ہے اور اس طرح اس کی ا یک دن کی کما ئی 20لا کھ ڈالر ہے۔
گیٹس کی جیب سے اگر 1000ڈالر گر بھی جا ئیں تو اس کو یہ رقم ا ٹھا نے میں
4سیکنڈ لگیں گے جبکہ اس سے پہلے ہی اس کے ا کا ﺅ نٹ میں اس سے زیا دہ رقم
ٹر انسفر کر دی جا تی ہے۔ ا مر یکہ اس و قت مجمو عی طور پر 7.5ٹریلین ڈالر
کا مقر و ض ہے جبکہ گیٹس یہ قر ضہ 10سا ل میں ادا کر سکتا ہے۔ اگر سا ری
دنیا کے لو گو ں میں وہ 15,15ڈا لر بھی تقسیم کر نا چا ہے تو پھر بھی اس کے
پا س50لا کھ ڈالرز کی خطیر رقم بچ جا ئے گی ۔ا گر اس کی دو لت کو لمبا ئی
کے ر خ ایک ایک ڈالر کی شکل میں ا و پر کی صورت بچھا دیا جا ئے تو یہ نو ٹو
ں کی سڑک ز مین سے چا ند تک کے فا صلے سے 14گنا ہ بڑ ی ہو گی جبکہ اس سڑک
کی نان سٹا پ تعمیر کے لئے 4سال کا عر صہ درکار ہو گا اگر اس کی دو لت کو
ایک، ایک ڈا لر کی شکل میں تحلیل کر کے ایک جگہ سے د و سر ی جگہ منتقل کیا
جا ئے تو اس کے لئے 713بو ئنگ طیا رو ں کی ضرورت پڑ ے گی ۔ بل گیٹس کی ذا ت
کو اگر ایک ملک تسلیم کر لیا جا ئے تو یہ دنیا کا 35و اں ا میر تر ین ملک
ہو گا ۔اگر وہ اب تک کی اپنی کما ئی کو ختم کر نا چا ہے تو اس کو 35سال تک
ر و زا نہ 70 لاکھ ڈا لر ز خر چ کر نا پڑیں گے۔ ما ئیکل جو ر ڈن جو کہ ا مر
یکہ کا سب سے شاہ خر چ ا نسان ما نا جا تاہے وہ ا گر پو را سا ل ا پنی آمد
ن سے کچھ نہ کھا ئے ،پئے تو اس کی ٹو ٹل سا لا نہ بچت 30لا کھ ڈا لرز بنتی
ہے۔ لیکن اس کو اس کی بچت کے با و جو د بل گیٹس کے برابر پہنچنے تک 277سال
کا عر صہ درکار ہو گا ۔ ہم اگر اس تمام اعدادوشمار کا جا ئزہ لیں تو گیٹس
ہمیں دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان معلو م ہو گا۔ لیکن تمام نعمتو ں کی فرو
ا نی کے سا تھ خدا نے اس کو ایک ہمدردانہ شخصیت کا مالک بھی بنا یا اور یہ
ہی و جہ ہے کہ اس کا شمار ان ارب پتیو ں میں ہو تا ہے جنہو ں نے دو لت کے
سا تھ عزت بھی کما ئی۔
اس دور میں جب کو ئی شخص اپنی باد شا ہت کی کر سی چھو ڑ نے کو تیا ر نہیں
تو اس کے بر عکس گیٹس نے خد مت خلق کی غر ض سے ا پنی کمپنی "ما ئیکرو سا
فٹ"کے "چیف ا یگز یکٹو "کے عہد ے سے سبکد و شی ا ختیا ر کی۔ اب وہ ا پنی ا
ہلیہ"میلنڈا " کے سا تھ مل کر فلا حی ادارہ "بل ا ینڈ میلنڈا فا ﺅ نڈیشن
"چلا ر ہا ہے جو کہ پاکستان سمیت دیگر تھرڈ ورلڈ ممالک میں فلا حی کا م سر
ا نجا م دے رہا ہے۔ گیٹس اب تک 29ارب ڈالر کی خطیر ر قم عطیہ کر چکا ہے۔اس
کی ز ند گی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ زند گی کچھ پا نے کا نام نہیں بلکہ مل
با نٹ کر کھا نے کا نام ہے۔خدا کی نعمتیں ہمیشہ اس انسان کے گھر کی ز ینت
بنتی ہیں جو سوالی کی صدا پر ا پنے دروازے بند نہیں کر تا۔گیٹس کی مثا ل اس
لئے بھی ہما رے لئے قا بل فہم ہے کہ کبھی امداد کر تے ہو ئے وہ یہ نہیں سو
چتا کہ ا گر ما ئیکر و سا فٹ کا ہر کسٹمر و نڈو کر پٹ ہونے پر اس کو 1ڈ الر
بھی کلیم کر ے تو وہ 3سال میں کنگال ہو جا ئے گا بلکہ وہ آج ز مین سے چا ند
تک کے 14گنا ہ بڑ ے دولت کے ا نبا ر کو د یکھ کر ا پنی جھو لی جھا ڑ د یتا
ہے۔اس کی ز ند گی ہما رے لئے ایک زریں قو ل کی صورت ہے جو ہمیں بتا تی ہے
کہ یہ نہ سوچو کہ کل دنیا تمہا رے لئے کیا کر ے گی بلکہ یہ سو چو کہ تم آج
دنیا کہ لئے کیا کر پا رہے ہو۔
اگر ہم سنت ا بر ا ہیمی اور د یگرا نبیاکرام کی ز ند گی کا با غور جا ئز ہ
لیں تو ہمیں بھی یہ درس ملتا ہے کہ قر با نی صرف کسی کو و قتی فوا ئد پہنچا
نے کا نا م نہیں بلکہ دوسروں کو خو شی د ینے کے لئے اپنے ا ندر ہمت و عزم
پیدا کر نے کا نا م ہے۔ہمیں سوچنا پڑے گا کہ دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی ا
مید سے جی ر ہا ہے اور شا ئد خدا نے آپ کو ہی اس کی امید بر لا نے کا و
سیلہ بنا رکھا ہو۔ اس لئے ہمیں دنیا وی دو لت کی بجا ئے ذ ہنی د و لت کو بر
و ئے کا ر لا نا چا ہئے ۔ کیو نکہ عقل جیسی دولت اور جہا لت جیسی غر بت کسی
جہا ں میں نہیں اور شائد اسی دولت کے باعث خا لق کا ئنا ت نے انسان کو د
یگر مخلو قات سے ممتا ز اور بلند ر تبے پر فائز کیا ہے۔ |