کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، فائرنگ،
کشیدگی اور پُر تشدد کاروائیاں اور بوری بند لاشوں اور سخت بیانات بلکہ
منافقانہ بیانات کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ یہ نہ رکنے والا سلسلہ ہے جس سے
ہر شہری عدم تحفظ ور شدید تشویش کا شکار ہے۔ ایک طر ف اس شہر میں امن ایک
خواب کی حیثیت اختیار کرگیا ہے تو دوسری طرف معیشت روز بروز روبہ زوال ہے۔
پولیس سے ہٹ کر رینجرز کے مکمل اختیارات کے باوجود مسلح لوگ اپنی کاروائیاں
کرتے نظر آتے ہیں۔ JITاور اسپیشل برانچ کی رپورٹس ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے
سامنے حیثیت ہی نہیں۔ وہ کسی بعد میں اگر بوری بند لاش ملتی تھی تو ایک
مرتبہ پھر بوری بند لاش ملتی ہے بلکہ اب جلدی بوری سے زندہ بھی مل جاتے ہیں
یا رہ جاتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک تبدیلی ضرور آئی ہے کہ پہلے اگر
عام اسلحہ استعمال ہوتا تھا تو اب دستی بموں سے لیکر راکٹ لانچر تک کا
اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ سلسلہ رکے گا یا نہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا ازخود نوٹس
کے باوجود بھی حالات پھر اُسی طرف جارہے ہیں۔ جب گورنر عشرت العباد خان نے
دوبارہ چارج سنبھالا تھا تو چارج چھوڑتے ہی ملک بھی چھوڑ چکے تھے تو اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ گورنر کی واپسی سے
کراچی کے حالات پہلے سے بہتر ہوجائیں گے اور نئے دور کا آغاز ہوگا پھر سب
نے دیکھا کہ واقعی نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔
کراچی کو منی پاکستان بھی کہاجاتا ہے، عروس البلاد بھی کہا جاتا ہے۔
پاکستانی معیشت کی شہہ رگ بھی کہا جاتا ہے، روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا
ہے۔ سب سے بڑاشہر بھی کہاجاتا ہے۔ اِن سے سے اتفاق کے باوجود اس حقیقت کو
بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کراچی علم کا شہر ہے۔ وہ علم جو معرفت
خداوندی کا ذریعہ ہے۔ کراچی علماءکا شہر ہے۔ طلباءکا اور مدارس کی بہتات کا
مرکز ہے۔ اور پورے ملک کے سب سے زیادہ مدارس کا وجود رکھنے والا شہر ہے۔
پوری دنیا کے مختلف ممالک سے طلباءپاکستان اور پھر پاکستان میں کراچی کے
مدارس کا رُخ کرتے ہیں دینی علوم کے حصول کے لئے۔ ایک محتاط اندازے کے
مطابق ہزاروں مدارس اس شہر میں آباد ہیں اور دین کی شمعیں روشن کررہے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے اس شہر میں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ سوچی سمجھی سازش کے
تحت علماءکو ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں شہید کیا جارہا ہے۔صرف پاکستان ہیں
نہیں بلکہ عالم اسلام کے علماءکو شہید کیا جارہا ہے اور کئی دینی تحریکوں
کے قائدین کو راستے سے ہٹانے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ مفتی نظام
الدین شامزئی شہید سے لیکر مولانا سعید احمد جلال پوری شہید تک اور بڑے بڑے
۔۔۔۔۔ کی رونقوں کو بھی ماند کرنے کی کوششیں کی گئی عبد الغفور ندیم اور ان
کے بیٹے کو بھی شہید کیا گیا اور سلسلہ یہاں رُکا نہیں بلکہ روز کوئی نہ
کوئی دینی مدرسے کا طالبعلم اغواءاور شہید کیا جارہا ہے۔ اور حکومت ہے کہ
جو اس طرف کا دھیان ہی نہیں۔
اس نہایت ہی تشویشناک سلسلے کی ایک تازہ مثال وفاق المدارس اور العربیہ
پاکستان صوبہ سندھ کے مستقل اور نگراں اور بے شمار دینی سلسلوں کی سرپرستی
کرنے والے مولانا طلحہ رحمانی اور ان کے ساتھ عبد السلام پر قاتلانہ حملہ
ہے۔ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ دہشت گردی اور بالخصوص ٹارگٹ
کلنگ کی اس تازہ ترین واردات پولیس ، رینجرز اور سیکیورٹی اداروں پر بہت
بڑا سوالیہ نشان چھوڑتی ہے۔ ان حالات میں یہ واردات یقینا باعث تشویش ہے جس
پر علماءکو بھی بہر حال سوچنا ہوگا نہیں تو یہ سلسلہ دور نکل جائے گا اور
مبادہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ کئی عرصہ سے صرف علماءاہلسنت و الجماعت کو
ہی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ آخر کیوں بنایا جارہا ہے یہ بھی وفاق اور وفاق
المدارس انتظامیہ کے لئے ایک سوال ہے؟ طلحہ رحمانی خالص مذہبی پروگراموں کی
رونق بنتے ہیں اور ہمیشہ اپنے بزرگوں کی طرح خدمت دین اور علماءکو اپنے
شعار بنائے رکھتے ہیں۔ اُن کی خداداد صلاحیتوں کے اپنے پرائے سبھی ہی معترف
ہیں۔ کراچی شہر میں شاید ہی کسی بڑے مدرسے اور جامعہ میں کوئی دینی تقریب
ہو اور طلحہ رحمانی کی موجودگی اور تعاون نہ ہو۔ ایسا کبھی ہوا نہیں ہے ،
انتظامات کے حوالے سے وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان کی خدمات گراں قدر ہیں
اور یہ سہرا بھی انھی کے سر بندھتا ہے کہ انہوں نے ہی نعت خواں حضرات کی
حوصلہ افزائی اور پذیرائی کے لئے پلیٹ فارم تشکیل دیا اور ایک دیرینہ مسئلہ
حل کیا۔ ان کے بزرگوں کی بنوری ٹاﺅن کے لئے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں
اور خود طلحہ رحمانی بھی اُن کے نقش قدم پر بنوری ٹاﺅن سے دلی اور والہانہ
محبت رکھتے ہیں۔ جس کا معترف میں پہلے بھی تھا اور خصوصاً 26رمضان کو صبح
سحری سے پہلے اُن فون نمبر سے کال آئی میں رسیو نہ کرسکا دس پندرہ منٹ کے
وقفہ کے بعد بات ہوئی تو دوسری طرف طلحہ رحمانی تھے۔ حسب روایت وہ بنوری
ٹاﺅن سے متعلق خبر پر تبصرہ کررہے تھے تو بات کرکے کال ڈراپ کی گئی۔ مگر
میں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ اس ٹائم رات گئے وہ سونہ سکے اور صبح کا
انتظار کئے بغیر مجھے اس وقت کال کرکے آگاہ کیا اور تبادلہ خیال کیا۔ وہ
اکثر اپنی محفلوں میں شرکت کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ اور قابل قدر
علماءکی زیارت کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ جب اُن پر فائرنگ کی خبر سُنی
تو اس سے کچھ لمحے پہلے بھی میں انہی کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اچانک
دلخراش خبر سننے کو ملی۔
اس شہر میں ایک طرف اگر علماءو طلباءمحفوظ نہیں تو دوسری طرف وکلاءکو ٹارگٹ
کیا جارہا ہے۔ اور کہیں تو ڈاکٹروں کو بھی معاف نہیں کیا جارہا۔ دہشت گردی
پورے ملک میں جہاں کہیں بھی ہو وہ قابل نفرت و مذمت ہے۔ مگر ہم ہیں کہ حل
کی طرف جاتے ہی نہیں۔ ابھی تک تو نہ ختم ہونے والا سلسلہ ءبیانات جاری ہے۔
ایسے ایسے سنگین الزامات کہ بے شمار تو جے آئی ٹی اور اسپیشل برانچز اپنے
واضح ریکارڈ جمع کرواچکی ہیں۔ عدالت اور وزارتِ داخلہ کے پاس بدقسمتی سے
ہماری وزارتِ داخلہ کے پاس تو اس وقت سوائے بھونڈے انداز کی جھوٹی پریس
کانفرنسوں کے سوا ہے ہی کچھ نہیں۔ عینی شاہدین تو رہے درکنار وہ خود
انویسٹیگیشن افسروں کی رپورٹ کے منافی بیانات پر بھی بھرپور رسائی رکھتے
ہیں۔ وزارت داخلہ مکمل اپنے وجود کے ساتھ ناکام ہوچکی ہے۔ کراچی کے حالات
اُن کی تمام یقین دہانیوں کے باوجود جوں کے توں ہیں۔ خود موصوف یہ بیان دے
چکے ہیں کہ کراچی میں بیرونی ٹارگٹ کلرز ملوث ہیں اور اب تو منظور وسان بھی
کہ رہے ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ میں اپنے ہی ملوث ہیں اب خود گورنمنٹ کے سینئر
وزراءکے متضاد بیانات ہیں کون کس سے ثبوت مانگے؟ پتہ نہیں کب تک دہری
پالیسی جاری رہے گی اور الزامات کی سیاست سے نکل کر مفاہمت کے راستے پر
گامزن ہونگے۔ حالات تبھی بہتر ہوسکتے ہیں جب تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں
ملکر کراچی کے بلکہ ملک کے امن کے لئے کوششیں کریں گی اور اگر جے آئی ٹی
اور اسپیشل برانچز کی پیش کردہ رپورٹس پر عدم تحفظ ہے تو سوال یہ ہے کہ
جمعیت علماءاسلام کا نام اُس فہرست میں کیوں نہیں؟ جواب صاف ظاہر ہے کہ جو
کرتا ہے وہ بھرتا ہے۔ ضرورت اس وقت یہ ہے کہ سب لیڈر اپنے انا سے باہر نکل
کر انکے لئے تیار ہوں۔ تمام پولیٹیکل پارٹیز کے بیانات کو دیکھ کر یہ کہا
جاسکتا ہے کہ اب صرف علماءہی اس کے لئے کوششیں کرسکتے ہیں اور عوام کی
امیدوں کی ترجمانی کرسکتے ہیں کیوں کہ علماءکی نمائندہ جماعت کا دامن ہی
بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی مذموم وارداتوں سے پاک ہے۔ اور اب نوشتہ دیوار
بھی ہے کہ اب حالات پہلے جیسے نہیں ہیں باوجود کمزوریوں کے میڈیا اور عوام
بیدار ہوچکے ہیں۔ یہ بدگمانی ہی ہوسکتی ہے لیکن حقیقت سے اُس کا کوئی تعلق
نہیں۔ ارسطو نے کہا تھا کہ اگر آپ سیکھنا چاہیں تو آپ کی ہر غلطی آپ کو سبق
دے سکتی ہے۔ اور اگر نہ سیکھنا چاہیں تو اس کے حضرت علیؓ نے فرمایا تھا
کہاوتیں اور مثالیں عقل مندوں اور عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے ہیں اور
بیان کی جاتی ہیں نادانوں کو ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، تجھے گمان ہے تو
ہو کچھ اور بھی ،معاملہ مےرے دل کا اور ذوق بھی یہی ۔ |