کیاامریکاایران پرحملہ
کرسکتاہے؟اس سوال کااثبات میں جواب اتناہی مشکل ہے جتناکہ اس کی نفی میں
جواب دینا۔تجزیہ نگاراس حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکتے،جس کی
وجہ یہ ہے کہ ایران پریورینیم کی افزودگی اورایٹم بم بنانے کاامریکی الزام
کوئی نیاالزام نہیں،بلکہ یہ الزام اس وقت سے لگایاجارہاہے ،جب
افغانستان،عراق اورلیبیاامریکی کی بیڈ لسٹ میں شامل بھی نہیںتھے۔اسی الزام
کے تحت عراق پرامریکااوراس کے ”نیٹو“اتحادی ایک بدمست ہاتھی کی طرح چڑھ
دوڑے اورآج عراق امریکاکی ایک کالونی کی شکل اختیارکرچکاہے،مگر”جمہوری
اسلامی ایران“اسی پوزیشن پرکھڑاہے۔وقتاًفوقتاًاس پرالزام تراشی کاسلسلہ
اگرچہ بدستورجاری ہے،جس میں ان دنوں یک گونہ تیزی بھی دیکھنے میں آرہی
ہے،تاہم ماضی کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ”کچھ نہیں ہونے والا“۔
اس کی وجہ ایرانی عوام وحکمرانوں کے قابل ذکرجذبہ حب الوطنی کوقراردینے
والوں کی اگرکمی نہیں ہے،تودوسری طرف ایران کوامریکی عزائم ومفادات کامحافظ
قراردینے والوں کی تعدادبھی کچھ کم نہیں۔ایران کے ماضی قریب میں ”امارت
اسلامی افغانستان“کے خلاف امریکاکے ہراول دستے کاکرداراداکرنے،عراق کے خلاف
ایران کی حمایت یافتہ جماعتوں کی کھل کرامریکی تائید،حالیہ عرب وغرب میں
آنے والے ”انقلابات“ میں امریکی حمایت یافتہ گروہوں کی پشت پناہی وپشتی
بانی اورسب سے بڑھ کرایرانی اہل سنت کے ساتھ انتہائی ظالمانہ رویہ....یہ وہ
امورہیں جواس تاثرکوتقویت دیتے ہیں کہ امریکاکبھی بھی ایران پرحملہ نہیں
کرسکتا۔پھریہ بھی ایک بدیہی سی بات ہے کہ اب امریکااوراس کے حواریوں میںوہ
دم خم ہے بھی نہیں کہ وہ ایران سمیت کسی بھی اسلامی یاغیراسلامی ملک سے
دودوہاتھ کرسکے،افغانستان میں اس کی ”قابل رحم“حالت اب کسی سے ڈھکی چھپی
بھی نہیں ہے۔شایدیہی وجہ ہے کہ مریکی صدر بارک اوباما کہتے ہیں کہ تہران پر
مزید دباؤ ڈالنے کے لئے چین اور روس سے مشاورت کریں گے۔ اس وقت پوری دنیا
ایک طرف ہے اور ایران تنہا ہوچکا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ ان کی روس اور
چین کے رہنماؤں سے بات چیت ہوئی اور دونوں ممالک ایران کے ایٹم بم بنانے کے
خلاف ہیں لیکن وہ نئی پابندیوں کی مخالفت کررہے ہیں۔ اوباما نے کہا کہ
امریکی انتظامیہ ایران پر مزید دباو ڈالنے کے لیے روس اور چین سے مشاورت
کرے گی۔۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے باعث امریکا اور یورپی یونین مزید
پابندیوں کے حق میں ہیں لیکن سلامتی کونسل کے مستقل ارکان چین اور روس
آمادہ نہیں۔دوسری طرف امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے ایران پر ممکنہ حملے
سے امریکی اور خطے کی سلامت کو سنگین خطرات لاحق ہونے سے متعلق تشویش کا
اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے لیون پنیٹا نے کہا
کہ ایران پر حملے سے امریکا بھی متاثر ہوسکتا ہے اور خطے میں موجود امریکی
فوج اس کی لپیٹ میں آسکتی ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ وہ ایران
کے جوہری پروگرام کو رکوانے کیلئے عالمی توانائی ایجنسی کے پہلے والے موقف
سے اتفاق کرتے ہیں ،جس میں کہا گیا تھا کہ تہران پر حملہ اسے مزید ایٹمی
ہتھیاروں کی تیاری سے روک سکتا ہے تاہم اب حالات مختلف ہیں۔ پنیٹا نے کہا
کہ آئی اے ای اے کی حالیہ رپورٹ کی بنیاد پر اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو
اسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا مشکل ہوگا۔
امریکاکے دواہم ترین اعلیٰ عہدیداروں کی اس پس وپیش سے بھی معلوم ہوتاہے کہ
امریکاابھی اس پوزیشن میں نہیں کہ ایران پرحملہ کرسکے۔اگرچہ اس کے لے پالک
اسرائیل نے ایک بار پھر جارحانہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ وہ حملے سے
کم کسی آپشن کے حق میں نہیں ہے۔
پاکستان کوسب سے پہلے ایران نے تسلیم کیاتھا،جس کی بناپرروزآزادی دے ہی
ایران اورپاکستان کے تعلقات مثالی رہے ہیں ،جس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ
پاکستان ایران کے معاملے میں ہمیشہ ”کمپرومائز“ یا بالفاظ دیگر”یس سر“کی
پالیسی پرگامزن رہاہے،حالاں کہ متعددبارایران نے ہمارے اندرونی معاملات میں
بے جامداخلت بھی کی ہے۔حال ہی میں سرزمین پاکستان میں سعودی حکمرانوں کے
خلاف بینربازی،سعودی سفارت کارکے قتل کی مبینہ شازش وغیرہ اس کے بین دلائل
ہیں۔(اس حوالے سے 35سال تک ایران میں تعینات رہنے والے سفارت کارجناب
نذیراحمدکی کتابیں”ایران۔افکاروعزائم“ اور”Notes On Iran“خاصے کی چیزہیں۔)
المختصراگرامریکاواسرائیل کی یہ دھمکیاں اگرماضی کی طرح”فرینڈلی
فائر“ہیں،تب توتشویش کی کوئی بات نہیں،لیکن اگریہ دھمکیاں حقیقت سے کچھ بھی
سابقہ رکھتی ہیں،توبھی امریکااوراس کے لے پالک اسرائیل کوایسی حماقت نہیں
کرنی چاہیے۔اس کی دیوالیہ ہوتی معیشت اس کی متحمل ہے اورنہ ہی بلبلاتے عوام
اس کی اجازت دیں گے۔ |