افق گفتگو ۔ایس۔یو۔شجر
عجب ہیں تاریخ کے پہلو بھی ۔کہیں فقط قانون تو کہیں مکمل انصاف۔مگر برعظیم
کی تاریخ بھی اس امر سے خالی نہیں ۔مسلمان بادشاہوں کو بے آئین کہنے والے
اہل کتاب اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو انھیں شمس الدین التمش اور
جہانگیر بھی نظر آئیں گے اور ان کا پر شکوہ انصاف بھی۔
اہل کتاب کے دور میں اس برعظیم یعنی متحدہ ہندوستان کی سرزمین پر نت نئے
قانون لاگو ہوئے۔خصوصاً 1857کے بعد۔رہ گئی بات عدل کی تو اہل مغرب کی ہی
تصانیف اس دور کی وحشت ناک سزاﺅں کا تذکرہ کرنے کیلئے کافی ہیں ۔عجب ہی قلم
ہے اہل یورپ کا کبھی تعصب تو کبھی حقیقت نگاری میں یکتا۔اکبر کو دین الہی
کا موجد کہنے والے اس کا بچپن میں مسجد سے جھاڑو دینا اور اذان دینا یکسر
بھلا بیٹھتے ہیں ۔بس قانون ہے ان کا اور وہ بھی خدا کے آئین کے یکسر خلاف
عوام کی عملداری۔حیف ہے ایسے معاشرے پراور اس کے مریدوں پر۔
مگر ہمارے ہاں بھی تو پارلیمنٹ کو سپریم ادارے قرار دینے پر تلے ہوئے افراد
نظر آتے ہیں ۔اللہ کے بندوں اللہ کا قانون تو پہلے کا موجود ہے ۔وراثت بھی
اور شادی میں رضامندی بھی۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں محض سزاﺅں کی تجاویز سے
نہیں بلکہ حکومتی ارکان اور اہل علم کے قول وفعل کی مطابقت نے معاشرت کو
حسن بخشا۔خلافت کے زمانہ میں زکوتہ لینے والا کوئی نہ ہوتا تھا۔آج یکم
رمضان سے پہلے بینکو ں سے رقم نکلوا لی جاتی ہے کہ کہیں زکوتہ کی کٹوتی نہ
ہو جائے۔نتیجہ یہ کہ ہرسو خالی ہاتھ ہیں اور یہی دست کبھی چور اور کبھی
ڈاکو کے ہاتھ بن جاتے ہیں۔
شراب کا حرمت کا حکم آیا تو مدینہ کی گلیوں میں شراب بہہ رہی تھی۔جو لبوں
سے بوتل لگاکے بیٹھا تھا تو اس نے بھی بوتل توڑ دی۔جسکی بھٹی چل رہی تھی تو
وہ بھی نابود ہوئی۔الغرض ہر سو تکمیل ہوئی۔عمل مگر عمل۔
ایک دفعہ پیارے رسول سے شرعی سزا میں کمی کا کہا گیا تو زبان مبارک سے یہ
الفاظ نکلے”اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ
کاٹاجاتا“(اوکماقال)۔مگر لمحہ بھر کیلئے سوچیئے کہ جس جس نے اس قانون کے حق
میں ووٹ ڈالا کیا ان سب نے اپنی ذاتی حیات میں بھی بہنوں ‘ماﺅں اور بہوﺅں
کو وراثت میں حصے دیئے ۔اگر ان میں سے پچاس فیصد نے بھی ایسا کیا تو یقینا
اس قانون پر عمل ہوگا۔
جس دن یہ قانون پاس کیا جارہاتھا۔اسی دن مریم کی چیخیں بلند ہوئیں ۔رخصتی
جنازے میں بدل گئی۔اس سے ایک آدھ دن قبل ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کو مہندی
والے دن قتل کر دیا گیا۔کیا گھر میں بیٹھی عورت اور بازار کو رونق عطاءکرنے
والی مخلوق کے بارے میں سوچا آپ نے ؟
سوچیئے کیا وہ آدم و حواکی نسل سے نہیں ؟ اس معاشرے کے ستون چند روپے دے کر
اس کی کل متاع ہتھیاتے ہیں اور باہر نکل کر عورت کی شرم وحیاکے قصیدے پڑھتے
ہیں ۔بنت حوا کو کھلونا بنانے والے اس کے حقوق کی صدادیتے ہیں۔کیا جس دن یہ
بل پاس ہوا بنت حوا کی عصمت دری رک گئی ؟
کیا یہ سب حکومت کر رہی ہے ؟؟؟ہمیں اپنے اعمال بھی بدلنا ہوں گے وگرنہ سب
تبدیلیاں خاک میں مل جائیں گی۔۔یاد رکھیئے
خواہ وہ نئے قانون ہوں یا اقتدار کی منتقلی ۔فرانس کے خونی انقلاب نے اہل
فرانس کو نپولین کی صورت میں ایک ظالم عطاءکیا۔چین ترقی کرگیالیکن ماﺅزے
تنگ کے دور میں انسانی سروں کی جو فصل کٹتی رہی اسے آپ کیا کہیں گے؟۔
میرے بھائیوں اس معاشرے کی خواتین پہلے بھی ذلیل خوار تھیں اور شاید آج بھی
۔انہیں ان کا درست مقام عطاءکرنا ہے تو شدت پسندی اور وسعت پسندی کے تذبذب
سے نکل کر اللہ کا قانون نافذ کرنا ہوگا۔درسگاہوں کے نصاب کو بدلنا
ہوگا۔عوام کو عمل کروانے کے ساتھ ساتھ جب تک ایوان میں بیٹھے لوگ اس قانون
پر عمل نہ کریں گے بنت حوا بے کسی کی زندگی گزارتی رہے گی۔ظلم کی چکی میں
پستی رہے گی۔اور یہ قانون اس کے دکھوں کا مداوا تو کجا اس کا ہمدرد بھی نہ
بن سکے گا۔وہ کبھی بے سہارا ہو جائے گی تو کبھی کسبی کا روپ دھارے گی ۔
کبھی اپنے بچوں کے گلے خود کاٹے گی تو کبھی چند ٹکوں کی خاطر ۔۔۔
کاش کوئی تو ہو جو اس کی آہوں کوسنے اس کے غم کا علاج دریافت کرے۔اسے قانون
نہیں انصاف چاہیئے انصاف ۔۔ |