پچھلے کالم میں ہم نے اس مفروضے
پہ بحث کی تھی کہ عمران انتظامیہ کی مدد سے وطن عزیز میں تبدیلی کا خواہاں
ہے۔اس میں گزارش کی تھی کہ بالفرض ایسا ہے بھی توآخر انتظامیہ کے اشارے اور
سہارے کی وہ تیرگی جو اب عمران کے نامہ سیاست میںسیاہی کی طرح ملی جارہی ہے
وہی کسی زمانے میں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کی زلفہائے گرہ گیر میں پہنچ کے
حسن کہلایا کرتی تھی۔بھٹوسے لے کے نواز شریف اور بے نظیر سے لے کے چوہدری
شجاعت ،قاضی حسین احمد،مولٰنا فضل الرحمٰن ،الطاف حسین تک کون ایسا ہے جو
کسی زمانے میں اسی حسینہ غمزہ و عشوہ طراز کی گھنی سیاہ زلفوں کا اسیر نہ
رہا ہو۔سیدھی بات یہ ہے کہ عوام اور عوام میں اب انتظامیہ کی اشرافیہ کو
بھی شامل کر لیں،موجود قیادت سے بدزن اور بد دل ہو چکی ہے۔عوام اپنے دلائل
اور انتظامیہ اپنی پریشانی کی وجہ سے۔
عوام کا مسئلہ بجلی گیس پانی اور روٹی تو ہے ہی لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ
ان لٹیروں اور چوروں کی کرپشن اور بے ایمانی ہے جسے عمران سر عام للکارتا
ہے تو اسے بد تمیزاور حفظ مراتب کا خیال نہ رکھنے والا کہا جاتا ہے۔سپریم
کورٹ میں ان مگر مچھوں کے کیسز چل رہے ہیں۔اور جس کتیا نے سونگھ کے ثبوت
ڈھونڈنے ہیںوہی چوروں اور ڈاکوﺅں کے پے رول پہ ہے۔اسے اپنی جان بھی عزیز
ہے۔اس کی کیا مت ماری گئی ہے کہ وہ اپنے ہی آقاﺅں کے خلاف ثبوت لا لا کے
سپریم کورٹ کی خدمت میں پیش کرے۔ چوہدری صاحب کی اس بے بسی پہ تلملاہٹ ان
کی روزانہ کی کاروائی میں دیکھی جا سکتی ہے۔تلملانے کے علاوہ اس غریب کے
پاس اور کوئی آپشن بھی تو نہیں۔سزا کے لئے ثبوت چاہئے ہوتے ہیں۔ثبوت جن کے
پاس ہیں وہ ثبوتوں کے بجائے عدالت عظمیٰ کا منہ چڑاتے ہیں۔چیف صاحب سزاﺅں
کی دھمکی تو دے سکتے ہیں سزا نہیں کہ اس کے لئے قانون ثبوت مانگتا ہے۔عوام
کو بھوک تو تنگ کرتی ہی ہے لیکن زیادہ تنگی اس بات کی ہے کہ چور معلوم ہیں
پر انہیں چور کہنے پہ پابندی ہے۔حد تو یہ کہ اب انہی چوروں میں سے ایک بڑھ
چڑھ کے چور چور کا شور بھی مچاتا ہے۔اب آپ خود ہی بتائیے کہ ایک چور چوری
کر کے آپ کے گھر سے بھاگ رہا ہو تو کیا آپ چور چور کا شور مچائیں گے یا
کہیں گے کہ حضور والا، قبلہ محترم سلطان عالی شان میرے گھر سے چوری کر کے
تشریف لے جا رہے ہیں۔
عمران کوئی فرشتہ ہر گز نہیں ۔وہ اللہ کا پیغمبر بھی نہیں نہ ہی وہ کوئی
دیوتا ہے۔نہ ہی ہم اس کے پجاری ہیں ۔بس ہمیں یقین ہے کہ وہ کم از کم ان
خبیثوں جیسا نہیں ہو گا جنہوں نے پچھلی نصف صدی سے زائد عرصے سے ہمیں بے
وقوف بنا رکھا ہے۔سینماﺅں مں ٹکٹ بلیک کرنے والوں سے لے کے، لوہے کی بھٹیوں
میں لوہا پگھلانے والے لوگوں کو ہم نے اپنے سر کا تاج بنایا ان لوگوں نے
ہمیں ہی بلیک میں بیچ ڈالا اور ہمیں ہی ان بھٹیوں کا ایندھن بنا
ڈالا۔زرداروں سے لے کے لوہاروں تک اور قاتلوں سے لے کے ملاﺅں تک ظلم تعدی
اور جبر کی ایک طویل المناک داستان ہے جو اس ملک کا بچہ بچہ سنا رہا ہے۔گھر
گھر خود کشیاں ہیں ۔نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے
لوگ سر عام اپنے جسم کے حصے اور اپنے جگر کے ٹکڑے بیچ رہے ہیں۔ذمہ دار کون
ہے وہی جو نام اور چہرے بدل بدل کے پچھلے تریسٹھ سالوں سے پیر تسمہ پا کی
طرح اس قوم کی قسمت کے فیصلے کئے جا رہے ہیں۔اس پہ ان لٹیروں کے بھونپوہمیں
عمران سے یہ کہہ کے ڈراتے ہیں کہ عمران انتظامیہ کا بندہ ہے۔یار چلو مان
لیتے ہیں کہ وہ انتظامیہ کا بندہ ہے پر یہ ڈاکو تو اس اللہ کے بھی
نعوذباللہ بندے نہیں رہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔
زمانے کی ہوا دیکھ کے بڑے بڑوں کو ہم نے اپنا قبلہ بدلتے دیکھا ہے۔انتظامیہ
کے شہ دماغ شاید اس بات کو پا گئے ہیں کہ اب ہوا عمران کے حق میں ہےتو شاید
اس لئے انہوں نے بھی اپنا وزن عمران کے پلڑے میں ڈالنے کی ٹھان لی ہے۔یہ
الگ بات کہ انتظامیہ کی یہ مہربانی عمران کے حق میں کم اور خلاف زیادہ گئی
ہے لیکن انتظامیہ زرداری گروپ کی حرکتوں اور نون غنہ گروپ کی باتوں سے اس
قدر نالاں ہے کہ اسے بھی عمران ہی وہ شخص نظر آتا ہے جو شاید اپنے مفاد کے
لئے امریکی حکمرانوں کو خط نہیں لکھوائے گا جو شاید اپنی افواج کو خود تو
شاید تنقید کا نشانہ بنالے۔اس کی وار آن ٹیرر کی پالیسی کی مخالفت کرتا ہو
لیکن اپنی ہی فوج کے خلاف دوسرے ملکوں کے اخبارات میں" بدمعاش آرمی "کے کم
از کم اشتہار نہیں چھپوائے گا۔انتظامیہ کی اشرافیہ عمران کی محبت میں نہیں
اپنی ضرورت اور زمانے کی ہوا دیکھ کے عمران کے نزدیک ہو رہی ہے جسے عمران
کے مخالفین نے عوام کے سامنے ہوا بنا کے کھڑا کرنے کی ناکام سعی کی ہے۔
ان نابغوں کے علم میں یہ بات ہونی چاہئیے کہ انسان کو اللہ نے اس جبلت پہ
پیدا کیا ہے کہ وہ ہر دم تبدیلی کا خواہاں رہتا ہے۔جو کوئی تبدیلی کا علم
لے کے نکلتا ہے حضرت انسان اس کی تقلید میں سکون محسوس کرتا ہے۔اگر تبدیلی
کا نعرہ کا نعرہ لگا کے ایک کالا سفید گھر کا مکین بن سکتا ہے تو عمران
کیوں نہیں۔عوام کو یقین ہے کہ عمران اگر ان کے زخموں پہ مرہم نہ بھی رکھ
سکے تو کم از کم ان زخموں کے کھرنڈ نہیں اتارے گا۔اگر بھوک کا علاج نہ کر
سکا تو کم از کم ان کے ساتھ وہ بھی بھوکا رہے گا۔اگر عوام کا اندھیرے ہی
مقدر رہے تو اس کے گھر کا چراغ بھی اس وقت تک بجھا رہے گا جب تک غریب کی
جھونپڑی کا دیا روشن نہیں ہو جاتا۔وہ عوام پہ ٹیکس لگائے گا تو سب سے پہلے
خود ٹیکس دے گا۔وہ اگر سمجھتا ہے کہ ملک سے باہر اثاثے رکھنا برا ہے تو اس
کے اثاثے بھی ملک ہی میں ہوں گے۔
میں نے پہلے بھی لکھا کہ عمران بھگوان کا اوتار ہر گز نہیں۔اس میں انسانوں
والی ساری خامیاں ہیں۔اس کے مزاج میں اکھڑ پن ہے۔یہ کھردرا پن شاید ہر کھرے
انسان میں ہوتا ہے۔سیاست اس کی خانگی زندگی تباہ کر چکی ہے۔اس کے بچے ماں
کے پاس ہیںجو ایک دوسرے ملک کی رہائشی ہے۔عمران کے سپورٹر کم اور پرستار
زیادہ ہیں جو اسے اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔آئیڈیل ٹوٹے تو زندگی کے سارے
سپنے ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔عمران اور اس کے پرستاروں کے لئے بھی میرا ایک
مشورہ ہے کہ وہ مشہور زمانہ افریقن لیڈر نیلسن منڈیلا کی آپ بیتی کا ایک
دفعہ مظالعہ ضرور کر لیں۔انقلاب یا تبدیلی آیا کرتی ہے لیکن اس کے لئے طویل
انتظار اور مسلسل محنت درکار ہوتی ہے۔ |