یہ سچ ہے کہ موجودہ حکومت گزشتہ
ساڑھے تین برسوں کے دوران گورننس کے حوالے سے کوئی اچھا تاثر قائم کرنے میں
ناکام رہی ہے۔ اس کی بے تدبیریوں، بدنظمیوں اور عوام کے مسائل سے لاتعلقی
نے وطن عزیز کو مسائلستان بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
ہمارے لیے داخلی اور خارجی خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔آپ افغانستان کے مسئلے
کا بنظر غائر جائزہ لیں تو نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جس افغانستان کے
لیے ہم نے اپنی سلامتی تک کو داﺅ پر لگادیا، آج وہ ہمیں چھوڑ کر بھارت سے
پینگیں بڑھانے میں مصروف ہے۔ افغانستان کے کٹھ پتلی صدر حامد کرزئی نے پہلے
اپنے فوجیوں کی تربیت سمیت اہم دفاعی امور بھارت کے حوالے کیے اور اب اس کے
ساتھ باقاعدہ اسٹریٹجک پارٹنر شپ کا معاہدہ بھی کرچکا ہے۔ اس ضمن میں کٹھ
پتلی حامد کرزئی اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے نئی دہلی میں گزشتہ
دنوں ایک ملاقات کے دوران جو باتیں کیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سارا
انتظام پاکستان کا گھیرا تنگ کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔افغان صدر نے اپنے دو
روزہ دورہ بھارت کے دوران بھارت کے ساتھ دفاعی امور میں شراکت داری سمیت
تین معاہدوں پر دستخط بھی کیے، جس کے بعد افغانستان میں بھارت کا کردار بڑھ
جائے گا، جبکہ اس موقع پر من موہن سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارت افغان عوام کے
ساتھ ہے اور افغانستان کے ساتھ ہمارا تعاون جاری رہے گا۔ جواب میں حامد
کرزئی نے کھل کر پاکستان پر الزام عاید کیا کہ پاکستان عسکریت پسندوں کے
خلاف ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے ہر آزاد ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ
اپنی حفاظت، سلامتی وترقی اور خوشحالی کے لیے کسی بھی ملک سے دفاعی اور
تجارتی معاہدے کرے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان کو کسی بھی طرح ایک آزاد
ملک قرار نہیں دیا جاسکتا۔وہ تو مکمل طور پر امریکا کے کنٹرول میں ہے اور
اسے یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ وہ ہمارے دشمن کو ہماری سرحد پر لاکر بٹھادے،
جبکہ ہمارے مشرق میں تو وہ پہلے ہی موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر ان معاہدوں
کی ضرورت کیوں پڑی اور اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں؟ اس کا جواب بہت سیدھا
اور آسان ہے اور وہ یہ کہ امریکا افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں بری طرح
پٹ چکا ہے،سو اب وہ اپنی شکست وہزیمت کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ امریکا افغانستان سے بھاگ تو رہا ہے لیکن وہ اپنے بعد
اس خطے میں اپنی نمایندہ حکومت لازماً برقرار رکھنا چاہتا ہے، کیونکہ
امریکا کے اس خطے میں جو خاص مفادات ہیں، وہ انہیں ہر صورت حاصل کرنا
چاہتاہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ جب وہ اس خطے سے نکلے توپاکستان اورافغانستان
کے درمیان محاذ آرائی کی ایسی کیفیت ہوکہ جس میں یہ الجھ کر رہ جائیں
اوربھارت طاقت ور ہوتارہے ۔اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر
امریکاان معاہدوں سے پاکستان کو دباﺅ میں لانے اور خطے میں اپنا اثرورسوخ
مستقل طور پر قائم نہیں کرنا چاہتا تو پھر کرزئی اور من موہن کی پاکستان پر
الزام تراشیوں اور زہر اگلنے کا اور مقصد کیا ہے؟
چغہ پوش حامد کرزئی اگر اپنے ملک اور عوام سے مخلص ہوتے تو وہ امریکی
اشاروں پر بھارت کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی بجائے برادر مسلم ملک
پاکستان کو اہمیت دیتے، جس نے ہر آڑے وقت اور مشکل میں افغانستان کا ساتھ
دیا ہے۔ کیا کرزئی بھول گئے کہ سوویت جنگ کے وقت یہ پاکستان ہی تھا جس نے
40لاکھ افغان مہاجرین کے قیام وطعام کا بوجھ برداشت کیا، جبکہ آج بھی
لاکھوں افغان باشندوں کو پاکستان نے ٹھکانہ دیا ہوا ہے۔دوسری جانب پاکستان
نے امریکی جنگ میں اپنے 40ہزار کے قریب شہریوں اور فوجی جوانوں کی قربانی
دی لیکن اس کے باوجود ہمارے اتحادی ممالک وطن عزیز کے ساتھ ڈبل گیم میں
مصروف ہیں، جوکہ قابل افسوس ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے۔
افغان بھارت معاہدے کے بعد امریکا پاکستان کے خلاف بھارت کو پہلے سے بھی
بڑھ کر استعمال کرے گا۔ امریکا کی یہ چال ہمارے حکمرانوں کو سمجھنا ہوگی
لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمران امن پسندی کی باتیں کرکے
حقائق سے نظریں چرارہے ہیں۔ ہم نے تجارتی تعلقات کے حوالے سے بھارت کو
پسندیدہ ملک قرار دیا،جبکہ پاک بھارت سیکرٹری تجارت سطح کے2روزہ مذاکرات
میں بھی ہمارے دشمن کا پلہ بھاری رہا،اس سلسلے میںپاکستان نے بھارت کو یہ
یقین دہانی کروادی ہے کہ وہ آیندہ تین ماہ میں اس کی 7 ہزار اشیاءکے لیے
مارکیٹ کھول دے گا۔ جواب میں بھارت نے ہمارے ساتھ کیا کیا؟کیااس نے کشمیر
میں ریاستی دہشت گردی روک دی؟ پاکستان ریلوے نے بحران سے نکلنے کے لیے کچھ
بوگیاں لیز پر مانگیں تو بھارت نے صاف انکار کردیا۔ اس سے بخوبی اندازہ
لگایا جاسکتا ہے کہ بنیا ہمارے ساتھ کتنا مخلص ہے ؟
اس تمام منظر نامے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ایک طرف پاکستان کو دباﺅ
میں لانے کی کوشش ہورہی ہے تو دوسری جانب پاکستان کے ذریعے طالبان سے
مذاکرات کا ڈول ڈالنے کی امریکی حکمت عملی نے اسے ایک دوراہے پر لاکھڑا
کردیا ہے، لیکن پاکستان نے اس مرتبہ کسی بھی حوالے سے امریکی دباﺅقبول کرنے
سے انکار کردیاہے، جبکہ افغانستان کی کٹھ پتلی انتظامیہ کے صدر کرزئی نے
اعلان کیا ہے کہ اب طالبان سے مذاکرات کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔امریکی وزیر
خارجہ ہلیری کلنٹن کہتی ہیں کہ امریکا حقانی نیٹ ورک سمیت تمام طالبان
گروپوں سے امن معاہدے کے لیے تیار ہے، خطے میں استحکام کے لیے تمام آپشن
کھلے رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی سفیر نے کرزئی کو یہ باور کرانے کی کوشش کی
کہ پاکستان کے ذریعے طالبان سے رابطے کی کوشش کرنی چاہیے۔ امریکا کو اب
طالبان سے مذاکرات کے لیے اس لیے ہاتھ پاﺅں مارنا پڑرہے ہیں، کیونکہ کرزئی
حکومت کے ساتھ رابطے میں رہنے والے بعض غیر جانب دار سابق پشتون جہادی
کمانڈر بھارت یاترا کے بعد ان سے ناراض ہوگئے ہیں اور اب طالبان سے بات چیت
کے لیے کوئی مستند ذریعہ باقی نہیں رہا،لیکن طالبان کسی بھی قیمت پر امریکا
سے اس کی شرائط پر مذاکرات پر راضی نہیں ہوں گے۔
اس تمام صورت حال میں دیکھنا چاہیے کہ ہمارے پالیسی ساز ادارے کیا حکمت
عملی اختیار کرتے ہیں،لیکن آنکھیں بند کرنے سے حقائق تبدیل نہیں ہوں گے،
خطے میں ہونے والی سازشوں کو سمجھ کر ٹھوس لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ اس
نازک موڑپرہمیں طالبان کوناراض نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ افغانستان کا
مستقبل ہیں اور یہ بات طے ہے کہ امریکا، روس، بھارت، برطانیہ یا اسرائیل
کوئی بھی ہمارا مخلص دوست نہیں، اس لیے جو بھی قدم اٹھائیں سوچ سمجھ کر اور
زمینی حالات کو مدنظر رکھ کر اٹھانا چاہیے۔ |