لاہور میں تحریک انصاف کے کامیاب
جلسے کے بعد کئی ہیوی ویٹ سیاستدان عمران خان کے قبیلے میں شامل ہونے کے
لیے پَر تول رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور (ق) کے
متعدد ناراض ارکان کے خان صاحب کے ساتھ روابط کی اطلاعات ہیں اور کئی ایک
نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان بھی کیا ہے۔ ادھر ملتان کے مخدون شاہ
محمود قریشی کے بارے میں بھی تادم تحریر یہی سننے میں آرہا ہے کہ وہ پی پی
چھوڑنے کے بعد اب گھوٹکی میں جلسہ عام کے دوران تحریک انصاف میں شمولیت کا
اعلان کریں گے۔ یہ بھی ایک حیرت انگیز بات ہے کہ جو کام ملتان میں ہوگیا ہے
گھوٹکی میں کیوں؟
اس حوالے سے چودھری شجاعت حسین کا یہ بیان بڑا معنی خیز ہے کہ ہمارے کچھ
ساتھی راولپنڈی ڈرائی کلین پلانٹ سے ہوکر تحریک انصاف میں جاسکتے ہیں۔
چودھری صاحب کا کہنا ہے کہ ہماری جماعت کے کچھ ”کلین لوگ“ مسلم لیگ (ن) میں
جانا چاہتے تھے مگر عمران خان کا لاہور میں جلسہ دیکھ کر اب وہ تحریک انصاف
میں جانا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب پنجاب کے بعد سندھ کی سیاست میں بھی تحریک انصاف ہلچل پیدا کردی
ہے۔ دبئی میں سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم اور عمران خان کے درمیان
ملاقات کے بعد سندھ کی کئی اہم اور طاقتور شخصیات نے تحریک انصاف میں
شمولیت کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سندھ کی بعض سیاسی شخصیات محرم
سے قبل ہی باقاعدہ شمولیت کا اعلان کردیں گی۔ ان سیاست دانوں کا تعلق
کراچی، حیدرآباد، دادو، سکھر، میرپورخاص اور ٹھٹھہ سے بتایا جارہا ہے۔ یہ
بھی سننے میں آرہا ہے کہ عمران خان جلد صوبہ سندھ کا دورہ کرکے تحریک انصاف
کے لیے راہ ہموار کرنے والے ہیں۔
اے این پی کے ٹکٹ پر منتخب رکن قومی اسمبلی خواجہ محمد خان ہوتی کا جلد
تحریک انصاف میں شمولیت کا امکان ہے۔ ان کے بیٹے عمر فاروق پہلے ہی تحریک
انصاف میں شامل ہوچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق فلور کراسنگ کے قانون کے باعث
عمران خان نے جہانگیر ترین سمیت پارٹی میں شمولیت کے خواہش مند افراد کو
اپنی نشستوں سے مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے جبکہ کئی ارکان پارلیمنٹ فلور
کراسنگ کے قانون کے باعث گروپ کی صورت میں تحریک انصاف سے اتحاد چاہتے ہیں۔
تحریک انصاف میں شمولیت کے خواہش مند افراد میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو
(ن) لیگ میں جانا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف انہیں قبول کرنے کے لیے
تیار نہیں جبکہ اپنی پارٹیوں کے مسترد کردہ کچھ لوگ خان صاحب کی طرف ہاتھ
بڑھانے پر مجبور ہیں کیوں کہ انہیں تحریک انصاف کی چھتری تلے اپنی سیاسی
بقا کی جنگ لڑنی ہے۔ اس پورے قضیے سے محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو
پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں تیسری بڑی قوت بنایا جارہا ہے۔ اس کا ایک
مقصد یہ بھی ہے کہ پنجاب میں (ن) لیگ کا ووٹ بینک عمران خان کی طرف منتقل
کرکے اسے تقسیم کردیا جائے۔ عمران خان کے ارادے بظاہر تو نیک نظر آرہے ہیں
اور وہ اس ملک اور اپنی قوم سے مخلص بھی ہوں گے لیکن بادی النظر میں یوں
لگتا ہے جیسے اسٹیبلشمنٹ انہیں استعمال کرنا چاہتی ہو، جو قوتیں ان کی پشت
پناہی کررہی ہیں ان کے عزائم خطرناک نظر آرہے ہیں۔ صرف چہروں کی تبدیلی کو
حقیقی معنوں میں تبدیلی نہیں سمجھا جائے گا جبکہ عمران خان ایسے کرپٹ افراد
کو بھی اپنی جماعت میں جگہ دے رہے ہیں جن کا ماضی داغدار اور شہرت خراب ہے۔
دوسری جانب (ن) لیگ کے پی پی سے اتحاد نے اسے پہلے ہی نقصان پہنچادیا ہے کہ
وہ صرف پنجاب تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اب پیپلز پارٹی بھی تحریک انصاف کی
حوصلہ افزائی کرکے پنجاب میں (ن) لیگ کے ووٹ بینک کو تقسیم کروانا چاہتی ہے
تاکہ آیندہ انتخابات میں اسے فائدہ ہو۔ بعض مبصرین کے مطابق زمینی حالات اس
بات کی اجازت نہیں دیتے کہ تحریک انصاف تیسری بڑی قوت کے طور پر اُبھر کر
سامنے آئے، البتہ وہ دوسری جماعتوں کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے میں ضرور
کامیاب ہوجائے گی۔
ایک طرف تو یہ معاملہ ہے دوسری طرف تجزیہ نگاروں کے مطابق سیاسی جماعتوں کے
دوسرے اور تیسرے درجے کے انتخابی امیدوار تحریک انصاف میں شامل ہونے سے
پارٹی کے پہلے سے موجود عہدیدار خدشات کا شکار ہیں کہ انہیں نئے آنے والوں
کے لیے جگہ خالی کرنا پڑسکتی ہے۔
بعض نقّادوں کی رائے میں مستقبل کی پاکستانی سیاست میں تحریک انصاف کو ایک
نئی تحریک استقلال اور عمران خان اصغر خان ثابت ہوسکتے ہیں۔ بہرحال اس وقت
طے شدہ بات یہی ہے کہ اس وقت خان صاحب اونچی اُڑانوں میں جارہے ہیں۔ |