بد مذہبوں کے بارے میں منفرد ذخیرہ احادیث حصہ چہارم

37۔’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح (مکہ) کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر لوہے کا خود تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اتارا تو ایک شخص نے آ کر عرض کیا : (یا رسول اﷲ! آپ کا گستاخ) ابنِ خطل (جان بچانے کے لئے) کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے قتل کر دو۔‘‘
الحديث رقم 37 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الحج، باب : دخول الحرم و مکة بغير إحرام، 2 / 655، الرقم : 1749، و في کتاب : الجهاد والسير، 3 / 1107، الرقم : 2879، و في کتاب : المغازي، باب : أين رکز النبي صلي الله عليه وآله وسلم الرأية يوم الفتح، 4 / 1561، الرقم : 4035،
و مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : جواز دخول مکة بغير إحرام، 2 / 989، الرقم : 1357،
و الترمذي في السنن، کتاب : الجهاد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في المغفر، و قال : هذا حديث حسن صحيح، 4 / 202، الرقم : 1693،
و أبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : قتل الأسير ولايعرض عليه الإسلام، 3 / 60، الرقم : 2685،
و النسائي في السنن، کتاب : مناسک الحج، باب : دخول مکة بغير إحرام، 5 / 200، الرقم : 2867،
38۔’’عروہ بن محمد نے بلقین کے کسی شخص سے روایت کی کہ ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے دشمن سے میرا بدلہ کون لے گا؟ تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے اور اسے قتل کر دیا۔‘‘
الحديث رقم 38 : أخرجه عبدالرزاق في المصنف، 5 / 307، الرقم : 9705،
والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 202،
و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 140.
39۔’’حضرت (عبداللہ) بن عباس ر ضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مشرک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون میرے دشمن سے بدلہ لے گا؟ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں پھر میدان میں نکل کر اسے قتل کر دیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقتول کے جسم کا سامان حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔‘‘
الحديث رقم 39 : أخرجه عبدالرزاق في المصنف، 5 / 237، 307، الرقم : 9477، 9704،
و أبو نعيم في حلية الأولياء، 8 / 45،
و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 154.
40۔’’حضرت (عبداللہ) بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو (مسلمان) اپنا دین بدل لے (یعنی اس سے پھر جائے) اسے قتل کر دو۔‘‘
الحديث رقم 40 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الجهاد و السير، باب : لا يعذب بعذاب اﷲ، 3 / 1098، الرقم : 2854،
و الترمذي في السنن، کتاب : الحدود عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في المرتد، 4 / 59، الرقم : 1458، و أبو داود في السنن، کتاب : الحدود، باب : الحکم فيمن ارتد، 4 / 126، الرقم : 4351،
والنسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : الحکم في المرتد، 7 / 103، الرقم : 4059،
و ابن ماجة في السنن، کتاب : الحدود، باب : المرتد عن دينه، 2 / 848، الرقم : 2535،
و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 322، الرقم : 2968،
و ابن حبان في الصحيح، 10 / 327، الرقم : 4475.
41۔’’عبدالملک نے ابوحرہ سے روایت بیان کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ (اشعری رضی اللہ عنہ) کو (اپنا گورنر بنا کر) نفاذ حکومت کے لئے بھیجا تو خوارج عبداللہ بن وھب راسبی (خارجی سردار) کے گھر میں جمع ہوئے اور اس نے انہیں بلیغ خطبہ دیا جس میں اس نے انہیں اس دنیا سے بے رغبتی اور آخرت اور جنت کی رغبت دلائی اور انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ابھارا۔ پھر کہا : ہمارے لئے ضروری ہے ہم پہاڑوں یا دوسرے شہروں کی طرف نکل جائیں تاکہ ان گمراہ کرنے والی بدعتوں سے ہمارا انکار ثابت ہوجائے۔ ۔ ۔ پھر سب شریح بن ابی اوفی عبسی کے گھر جمع ہوئے تو ابن وھب نے کہا : اب کوئی شہر ایسا دیکھنا چاہئے کہ (اسے اپنا مرکز بناکر) ہم سب اسی میں جمع ہوں اور اللہ تعالیٰ کا حکم جاری کریں۔ کیونکہ اہلِ حق اب تم ہی لوگ ہو۔‘‘
الحديث رقم 41 : أخرجه ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 115،
وابن الأثير في الکامل، 3 / 213. 214،
وابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 285.286
وابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، (حتي 257ه)، 5 / 130.131.
42۔’’امام ابن اثیر نے ’’الکامل‘‘ میں بیان کیا : ’’اشعث بن قیس نے اس عہدنامہ کو (جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا تھا) لے کر ہر ہر قبیلہ میں لوگوں کو سنانا شروع کیا۔ جب قبیلہ بنی تمیم میں پہنچے تو عروہ بن اُدیہ (خارجی) جو ابوبلال کا بھائی تھا بھی ان میں تھا جب اس نے وہ معاہدہ انہیں سنایا تو عروہ (خارجی) کہنے لگا : اللہ کے امر میں آدمیوں کو حَکم بناتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حُکم نہیں کر سکتا۔‘‘
الحديث رقم 42 : أخرجه ابن الأثير في الکامل، 3 / 196،
و ابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم (حتي 257ه)، 5 / 123.
43۔’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے خوارج کو نہروان سے خط لکھا : ’’اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے : اللہ کے بندے امیر المؤمنین علی کی طرف سے زید بن حصین اور عبداللہ بن وھب اور ان کے پیروکاروں کے لئے۔ واضح ہو کہ یہ دو شخص جن کے فیصلہ پر ہم راضی ہوئے تھے انہوں نے کتاب اللہ کے خلاف کیا اور اللہ کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ جب انہوں نے قرآن و سنت پر عمل نہیں کیا تو اللہ اور اللہ کا رسول اور سب اہل ایمان ان سے بری ہوگئے۔ تم لوگ اس خط کو دیکھتے ہی ہماری طرف چلے آؤ تاکہ ہم اپنے اور تمہارے دشمن کی طرف نکلیں اور ہم اب بھی اپنی اسی پہلی بات پر ہیں۔
اس خط کے جواب میں انہوں نے (یعنی خوارج نے) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لکھا : ’’واضح ہو کہ اب تمہارا غضب اللہ کے لئے نہیں ہے اس میں نفسانیت شریک ہے اب اگر تم اپنے کفر پر گواہ ہو جاؤ (یعنی کافر ہونے کا اقرار کر لو) اور نئے سرے سے توبہ کرتے ہو تو دیکھا جائے گا ورنہ ہم نے تمہیں دور کردیا کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
سو جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا جوابی خط پڑھا تو ان کی طرف سے (ہدایت کی طرف لوٹنے سے) مایوس ہوگئے لہٰذا انہیں ان کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کرکے اپنے لشکر کے ساتھ اہل شام سے جا ملے۔‘‘
الحديث رقم 43 : أخرجه ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 117،
وابن الأثير في الکامل، 3 / 216،
وابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 287،
و ابن الجوزي في المنتظم، 5 / 132.
44۔’’زیاد بن امیہ سے مروی ہے کہ عروہ بن حدیر (خارجی) نہروان کی جنگ سے بچ گیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک زندہ رہا پھر وہ زیاد بن ابیہ کے پاس لایا گیا اس کے ساتھ اس کا غلام بھی تھا تو زیاد نے اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ اس نے کہا : ابتدا میں چھ سال تک ان کو میں بہت دوست رکھتا تھا پھر جب انہوں نے بدعتیں شروع کیں تو ان سے علیحدہ ہو گیا اس لئے کہ وہ آخر میں (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے تھے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال پوچھا؟ کہا : وہ بھی اوائل میں اچھے تھے جب حکم بنایا (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے۔ اس لئے ان سے بھی علیحدہ ہوگیا۔ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ تو انہیں اس نے سخت گالیاں دیں۔ ۔ ۔ پھر زیاد نے اسکی گردن مارنے کا حکم دے دیا۔‘‘
الحديث رقم 44 : أخرجه عبدالکريم الشهرستاني في الملل والنحل، 1 / 137.
45۔’’ابو طفیل سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک لڑکا پیدا ہوا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کے چہرے سے پکڑا اور اسے دعا دی اور اس کا یہ اثر ہوا کہ اس کی پیشانی پر خاص طور پر بال اگے جو تمام بالوں سے ممتاز تھے وہ لڑکا جوان ہوا اور خوارج کا زمانہ آیا تو اسے ان سے محبت ہو گئی (یعنی خوارج کا گرویدہ ہو گیا) اسی وقت وہ بال جو دست مبارک کا اثر تھے جھڑ گئے اس کے باپ نے جو یہ حال دیکھا اسے قید کر دیا کہ کہیں ان میں مل نہ جائے۔ ابو طفیل کہتے ہیں کہ ہم لوگ اس کے پاس گئے اور وعظ و نصیحت کی اور کہا دیکھو تم جب ان لوگوں کی طرف مائل ہوئے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت تمہاری پیشانی سے جاتی رہی غرض جب تک اس شخص نے ان کی رائے سے رجوع نہ کیا ہم اس کے پاس سے ہٹے نہیں پھر جب خوارج کی محبت اس کے دل سے نکل گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اس کی پیشانی میں وہ مبارک بال لوٹا دیئے پھر تو اس نے ان کے عقائد سے توبہ کی۔‘‘
رَوَاهُ أحْمَدُ وَابْنُ أبِي شيبة.
الحديث رقم 45 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 456، الرقم : 23856،
و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 556، الرقم : 37904، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 174، الرقم : 220،
والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 243، 10 / 275،
وقال : رواه أحمد والطبراني ورجاله رجال علي ابن زيد وقد وثق، والعسقلاني في الإصابة، 5 / 359، الرقم : 6972.
46۔’’سعید بن جہمان سے مروی ہے بیان کیا کہ خوارج مجھے (اپنی طرف) دعوت دیا کرتے تھے (سو اس سے متاثر ہوکر) قریب تھا کہ میں ان کے ساتھ شامل ہو جاتا کہ ابو بلال کی بہن نے خواب میں دیکھا کہ ابو بلال کالے لمبے بالوں والے کتوں کی شکل میں ہے اس کی آنکھیں بہہ رہی تھیں۔ بیان کیا کہ اس نے کہا : اے ابو بلال میرا باپ آپ پر قربان کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں اس حال میں دیکھ رہی ہوں؟ اس نے کہا ہم لوگ تمہارے بعد دوزخ کے کتے بنا دیئے گئے ہیں وہ ابو بلال خارجیوں کے سرداروں میں سے تھا۔‘‘
الحديث رقم 46 : اخرجه ابن ابي شيبة في المصنف، 7 / 555، الرقم : 37895،
و عبد اﷲ بن احمد في السنة، 2 / 634، الرقم : 1509
47۔’’حضرت ابو عثمان نہدی بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنی یربوع یا بنی تمیم کے ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ’الزَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ‘ کے کیا معنی ہیں؟ یا ان میں سے کسی ایک کے بارے میں پوچھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اپنے سر سے کپڑا اتارو، جب دیکھا تو اس کے بال کانوں تک لمبے تھے۔ فرمایا : بخدا! اگر میں تمہیں سر منڈا ہوا پاتا تو تمہارا یہ سر اڑا دیتا جس میں تمہاری آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں۔ شعبی کہتے ہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اھل بصرہ کے نام خط لکھا یا کہا کہ ہمیں خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھا کرو۔ راوی کہتا ہے کہ جب وہ آتا، ہماری تعداد ایک سو بھی ہوتی تو بھی ہم الگ الگ ہوجاتے تھے۔‘‘
رَوَاهُ سَعِيْدُ بْنُ يَحْيَی الْامْوِيُّ وَغَيْرُهُ بِاسْنَادٍ صَحِيْحٍ کَمَا قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ.
الحديث رقم 47 : أخرجه ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 195.
48۔’’حضرت سائب بن یزید نے بیان کیا کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ بیٹھے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے اسی اثنا میں ایک شخص آیا اس نے (اعلیٰ) کپڑے پہن رکھے تھے اور عمامہ باندھا ہوا تھا تو اس نے بھی دوپہر کا کھانا کھایا جب فارغ ہوا تو کہا : اے امیر المومنین (وَالزَّارِيَاتِ ذَرْوًا فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا) کا کیا معنی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تو وہی (گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے۔ پھر اس کی طرف بڑھے اور اپنے بازو چڑھا کر اسے اتنے کوڑے مارے یہاں تک کہ اس کا عمامہ گرگیا۔ پھر فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر میں تجھے سر منڈا ہوا پاتا تو تیرا سر کاٹ دیتا۔‘‘
الحديث رقم 48 : أخرجه هبة اﷲ الالکائي في اعتقاد اهل السنة، 4 / 634، الرقم : 1136،
والشوکاني في نيل الاوطار، 1 / 155،
والعظيم آبادي في عون المعبود، 11 / 166،
و ابن قدامة في المغني، 1 / 65، 9 / 8.
49۔’’ابو یحییٰ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک خارجی نے صبح کی نماز میں یہ آیت پڑھی ’’اور فی الحقیقت آپ کی طرف (یہ) وحی کی گئی ہے اور اُن (پیغمبروں) کی طرف (بھی) جو آپ سے پہلے (مبعوث ہوئے) تھے کہ ( اے انسان!) اگر تُو نے شرک کیا تو یقیناً تیرا عمل برباد ہو جائے گا اور تُو ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا‘‘ مزید بیان کیا : پھر اس سورت کو چھوڑ کر اس نے دوسری سورت کی یہ آیت پڑھ ڈالی ’’پس آپ صبر کیجئے، بیشک اﷲ کا وعدہ سچا ہے، جو لوگ یقین نہیں رکھتے کہیں آپ کو کمزور ہی نہ کر دیں۔ (خوارج ان آیات قرآنی کو چن چن کر نماز میں پڑھتے تھے جن سے بزعم خویش ان بدبختوں کے معاذ اﷲ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تنقیص شان کا کوئی شائبہ پیدا ہوتا تھا۔ یہ ان کی گستاخانہ سوچ اور بدبختی تھی)۔‘‘
الحديث رقم 49 : اخرجه ابن ابي شيبة في المصنف، 7 / 554، الرقم : 37891.
50۔’’ابو غالب سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجدِ دِمَشق میں تھا کہ خارجیوں کے ستر سر دمشق میں مسجد کی سیڑھیوں پر نصب کئے گئے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ جہنم کے کتے ہیں اور زیر آسمان تمام مقتولوں سے بدتر ہیں اور ان کے قاتلوں سے جو شہید ہوئے وہ زیرِ آسمان تمام مقتولوں سے بہتر ہیں یہ کہا اور روپڑے پھر میری طرف دیکھا اور پوچھا : اے ابو غالب : کیا تو اس شہر سے ہے میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے کہا اﷲ تعالیٰ آپ کو ان سے محفوظ رکھے انہوں نے کہا کیا تم سورۃ آل عمران پڑھتے ہو؟ میں نے کہا ہاں۔ پھر یہ آیات ’’جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیات متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیراثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے‘‘ اور فرمایا : ’’جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے، تو جن کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے (ان سے کہا جائے گا) کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ تو جو کفر تم کرتے رہے تھے سو اس کے عذاب (کا مزہ) چکھ لو۔‘‘ میں نے کہا ابو امامہ! میں دیکھتا ہوں کہ آپ رو رہے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ ان لوگوں (خوارجیوں پر ترس کھاتے ہوئے کیونکہ یہ اھل اسلام میں سے تھے۔ اور کہا : قوم بنی اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئی تھی اور یہ امت ان سے ایک فرقہ بڑھے گی (یعنی بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی) اور سواد اعظم (جو سب سے بڑا طبقہ ہے) اس کو چھوڑ کر باقی سارے جہنم میں جائیں گے۔ وہ اس کے جواب دہ ہیں جو ذمہ داری ان پر ڈالی گئی اور تم اس کے جواب دہ ہو جو ذمہ داری تم پر ڈالی گئی اور اگر تم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمانبرداری کرو گے تو ہدایت پاجاؤ گے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہی ہے۔ اور غور سے (احکامات کو) سننا اور ان کو بجا لانا تفرقہ اور نافرمانی سے بہتر ہے۔ پس (یہ سن کر) ایک شخص نے کہا : اے ابو امامہ! کیا تم اپنی طرف سے یہ باتیں کہہ رہے ہو یا ان میں سے کچھ آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہیں؟ انہوں نے کہا (اگر میں اپنی طرف سے کہوں) تب تو میں بہت بڑی جسارت کرنے والا ہوں۔ نہیں بلکہ میں نے (یہ باتیں) ایک یا دو دفعہ نہیں بلکہ سات بار سنی ہیں۔‘‘
الحديث رقم 50 : اخرجه ابن ابي شيبة في المصنف، 7 / 554، الرقم : 37892،
والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 188،
والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 267 - 268، الرقم : 8034 - 8035،
والحارث في المسند، (زوائد الهيثمي)، 2 / 716، الرقم : 706.
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1359929 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.