حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
“جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لئے اچھی طرح وضو کرے، پھر
پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرے تو وہ نماز اس
کے واسطے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا
مرتکب نہ ہوا ہو اور نماز کی برکت اس کو ہمیشہ ہمیشہ حاصل ہوتی ہے گی۔ (مسلم
شریف)
نماز اپنی حقیقت کے لحاظ سے ایک حسیاتی عمل ہے، نماز در حقیقت خوف و خشیت
اور محبت و انابت کے ساتھ اللہ تعالٰی کی طرف مائل اور اس سے قریب ہونے کا
نام ہے، نماز میں بندے کو اللہ تعالٰی سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے،
نماز ہمارے ایمانی شعور کا اولین فیضان ہے، نماز در حقیقت اپنے دل، زبان
اور جسم کے ذریعہ اپنے رب کے سامنے بندگی اور عبودیت اور اس کی بڑائی اور
عظمت کا اظہار ہے، نماز اللہ تعالٰی کی یاد، اس کے احسانات کا شکر اور حسن
ازل کی حمد اور تسبیح ہے، یہ ساز دل کا نغمہ ہے، بے قرار روح کی تسکین،
فطرت کی پکار اور ہماری زندگی کا ماحصل ہے۔
نماز ایک عالمگیر حقیقت ہے، نماز نہ صرف انسان کی بلکہ تمام موجودات کی
فطرت ہے، اس کے بغئر کسی مخلوق کے وجود و بقا کا تصور نہیں کیا جا سکتا،
چنانچہ قرآن کا بیان ہے کہ پوری کائنات اللہ سبحانہ و تعالٰی کی تسبیح میں
مصروف ہے۔
(کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے اللہ کی تسبیح
کرتا ہے، پر پھیلائے پرندے بھی (اس کی تسبیح کرتے ہیں) ہر ایک اپنی نماز
اور تسبیح سے واقف ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔) (النور: 41)
اہل زمین و اہل آسمان جس طرح اللہ کی اطاعت اور اس کی تبیح کرتے ہیں، سب اس
کے علم میں ہے، یہ گویا انسانوں اور جنوں کو تنبیہ ہے کہ تمہیں اللہ تعالٰی
نے شعور اور ارادے کی آزادی دی ہے تو تمہیں دوسری مخلوقات سے زیادہ اللہ کی
تسبیح و تمحید اور اس کی اطاعت کرنی چاہئیے، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے،
دیگر مخلوقات تو تسبیح الٰہی میں مصروف ہیں، لیکن شعور اور ارادہ سے بہرہ
ور مخلوق اس میں کوتاہی کا ارتکاب کرتی ہے۔
اس حدیث پاک سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی یہ تاثیر اور برکت ہے کہ وہ
سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور پہلے گناہوں کی گندگی کو دھو ڈالتی
ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ آدمی کبیرہ گناہوں سے آلودہ نہ ہو، کیونکہ کبیرہ
گناہوں کی نجاست اتنی غلیظ ہوتی ہے اور اس کے ناپاک اثرات اتنے گہرے ہوتے
ہیں جن کا ازالہ صرف توبہ ہی سے ہو سکتا ہے۔
ایک اور حدیث میں اس طرح آتا ہے کہ جو شخص نماز کی مخالفت کرتا ہے تو وہ اس
کے لئے قیامت میں روشنی، دلیل اور نجات ہوگی اور جو شخص اس کی مخالفت نہ
کرے تو نہ وہ اس کے لئے روشنی ہوگی، نہ دلیل ہوگی اور نہ نجات اور وہ قیامت
کے روز قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف (جیسے اللہ کے نافرمان اور باغی
لوگوں) کے ساتھ ہوگا۔ (بحوالہ مسند احمد، دارمی و بیہقی)
یعنی جب کوئی شخص پورے اہتمام کے ساتھ ٹھیک طور سے نماز ادا کرتا ہے، بے
پرواہی اور عدم توجہی کے ساتھ نماز نہیں پڑھتا اور اپنی نماز کا اس کے ظاہر
اور باطن دونوں پہلوؤں سے درست رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی یہ نماز
دنیا میں بھی اس کے لئے روشنی اور دلیل و برہان ثابت ہوتی ہے اور آخرت میں
بھی اس کے کام آئے گی، ایسی نماز دنیا میں آدمیوں کو ان خرابیوں سے بچاتی
ہے جو اسے راہ راست سے بھٹکانے والی اور اس کے لئے تباہ کن ہیں، آخرت میں
بھی وہ اس کے ذریعہ سے نجات اور اللہ تعالٰی کی رحمت کا مستحق قرار پائے
گا، نماز سراپا نجات اور روشنی ہے۔ جو لوگ نماز سے غافل ہیں وہ در حقیقت
تاریکی میں ہیں، ان کے نہ ذہن کو روشنی میسر ہے جسے برہان کہا جا سکتا ہے
اور نہ اس کے دل کو وہ روشنی حاصل ہے جسے نور کے لفظ سے تعبیر کیا جا سکتا
ہے، جب دنیا میں ان کی یہ حالت ہے تو آخرت میں ان کے لئے کسی بہتر حالت کی
توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔
افسوس کیسی بدبختی ہے کہ نماز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ
وآلہ وسلم کے ان فرمودات کے باوجود امت کی بڑی تعداد آج نماز سے غافل ہے
اور بے پرواہ ہوکر اپنے آپ کو اللہ تعالٰی کی رحمت اور اس کے الطاف و
عنایات سے محروم اور اپنی دنیا و آخرت کو برباد کر رہی ہے۔ |