حضرت حمزہ مسلمان ہو گئے

اعلان نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما دو ایسی ہستیاں دامن اسلام میں آ گئیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کے جاہ جلال، اور ان کے عزت و اقبال کا پرچم بہت ہی سر بلند ہو گیا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چچاؤں میں حضرت حمزہ کو آپ سے بڑی والہانہ محبت تھی اور وہ صرف دو تین سال حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عمر میں زیادہ تھے اور چونکہ انہوں نے بھی حضرت ثوبیہ کا دودھ پیا تھا۔ اس لئے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت ہی طاقتور اور بہادر تھے اور شکار کے بہت ہی شوقین تھے۔ روزانہ صبح سویرے تیر کمان لے کر گھر سے نکل جاتے اور شام کو واپس لوٹ کر حرم میں آ جاتے خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور قریش کے سرداروں کی مجلس میں کچھ دیر بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دن حسب معمول شکار سے واپس لوٹے تو ابن جدعان کی لونڈی اور خود ان کی بہن حضرت بی بی صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے ان کو بتایا کہ آج ابو جہل نے کس کس طرح تمہارے بھتیجے حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی کی ہے یہ ماجرا سن کر مارے غصہ کے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خون کھولنے لگا ایک دم تیر کمان لئے ہوئے مسجد حرام میں پہنچ گئے اور اپنی کمان سے ابو جہل کے سر پر اس زور سے مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور کہا کہ تو میرے بھتیجے کو گالیاں دیتا ہے ؟ تجھے خبر نہیں کہ میں بھی اسی کے دین پر ہوں۔ یہ دیکھ کر قبیلہ بنی مخزوم کے کچھ لوگ ابو جہل کی مدد کے لئے کھڑے ہو گئے تو ابو جہل نے یہ سوچ کر کہ کہیں بنو ہاشم سے جنگ نہ چھڑ جائے یہ کہا کہ اے بن مخزوم ! آپ لوگ حمزہ کو چھوڑ دیجئے واقعی آج میں نے ان کے بھتیجے کو بہت ہی خراب خراب قسم کی گالیاں دی تھیں۔ ( مدراج النبوۃ ج2 ص 44 و زرقانی ج1ص256 )

حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مسلمان ہو جانے کے بعد زور زور سے ان اشعار کو پڑھنا شروع کر دیا،،
حمدت اللہ حین ھدٰی فوادی
الی السلام والدین الحنیف
( میں اللہ تعالٰی کی حمد کرتا ہوں جس وقت کہ اس نے میرے دل کو اسلام اور دین حنیف کی طرف ہدایت دی۔)
اذا تلیت رسائلہ علینا !
تحدرد مع ذی اللب الحصیف
( جب احکام اسلام کی ہمارے سامنے تلاوت کی جاتی ہے تو باکمال عقل والوں کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔)
واحمد مصطفی فینا مطاع
فلا تغشوہ بالقول العنیف
( اور خدا کے برگزیدہ احمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہمارے مقتدٰی ہیں تو ( اے کافرو ) اپنی باطل بکواس سے ان پر غلبہ مت حاصل کرو۔)
فلا واللہ نسلمہ لقوم !
ولما نقض فیھم بالسیوف
( تو خدا کی قسم ہم انہیں قوم کفار کے سپرد نہیں کریں گے حالانکہ ابھی تک ہم نے ان کافروں کے ساتھ تلواروں سے فیصلہ نہیں کیا ہے۔)
:: زرقانی ج1ص256
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381659 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.