حضرت سیدنا ابو عثمان حیری رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ کو ایک دعوت میں بلایا گیا۔ تاکہ اُن کے صبرو تحمل کی
آزمائش کی جائے چنانچہ جب وہ دعوت میں پہنچے تو میزبان نے ان کو اندر نہیں
جانے دیا اور کہا کہ کھانا ختم ہو چکا ہے۔ یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ علیہ واپس
تشریف لے آئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ابھی تھوڑا ہی راستہ طے کیا تھا کہ
میزبان آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے پہنچا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کو واپس لے
آیا لیکن پھر لوٹا دیا۔ اسی طرح کئی بار آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بلایا اور
پھر لوٹا دیا۔ آخرکار میزبان آپ رحمۃ اللہ علیہ سے متاثر ہو ہی گیا اور
تعریفی کلمات اُس کی زبان پر جاری ہوگئے۔ "واقعی آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک
عظیم جواں مرد ہیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ کا اخلاق نہایت ہی بلند ہے اور آپ
رحمۃ اللہ علیہ تو صبر کے پہاڑ ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اُس شخص سے
انکسار فرمایا۔ "یہ جو کچھ تم نے دیکھنا یہ تو کتے کی عادت ہے کہ جب اُس کو
بلاتے ہیں تو وہ بلانے پر آ جاتا ہے اور جب اُس کو دھتکارتے ہیں تو واپس ہو
جاتا ہے۔ پس یہ کوئی قابل قدر بات نہیں۔"!! (کیمیائے سعادت)
اللہ اکبر! اللہ عزوجل کے ولیوں کے اخلاق کریمہ اور اُن کی عاجزی!! آج کوئی
ہمارے ساتھ یہ سلوک کرکے تو دکھائے؟ ہمارا تو غصہ کے مارے بُرا حال ہو جائے
اور اس طرح سے ہماری بے عزتی کرنے والے کے ہم تو جانی دشمن ہو جائیں۔ مگر
ولی تو پھر ولی ہوتا ہے۔ اتنا ہو چکنے کے بعد بھی عاجزی کا حال یہ ہے کہ
اپنے اس عظیم اخلاق کارنامے کو ایک کتے کے فعل سے تشبیہ دے کر شیطان کے ایک
بہت ہی خطرناک وار کو ناکام کر دیا۔ کیونکہ اگر کوئی ہماری تعریف کرے اور
ہم "پھول" جائیں تو یہ بھی شیطان کی کامیابی ہے۔ حضرت ابو عثمان حیری رحمۃ
اللہ علیہ کی بے مثل عاجزی کی ایک اور داستان پڑھئے اور ایمان تازہ کیجئے:۔
ایک بار انہی حضرت شیخ ابو عثمان حیری رحمۃ اللہ علیہ کے سر پر ایک چھت سے
بہت سی خاک کسی نے ڈال دی۔ آپ نے اپنے کپڑوں سے اُس خاک کو جھاڑ دیا۔ اور
اللہ تعالٰی کا شکر ادا کیا۔ لوگوں نے کہا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ شکر کس بات
کا ادا کر رہے ہیں؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جو آگ میں ڈالے جانے کا
مستحق ہو (جس کے سر پر آگ ڈالنا چاہئیے) اگر اُس کے سر خاک ڈالی جانے ہی پر
اکتفا کیا جائے تو کیا یہ شکر کا مقام نہیں؟"
:: کیمیائے سعادت |