قوموں کی زندگی میں بعض اوقات
دستاویزات اور خطوط کو خصوصی اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کو
پنڈی کے راجہ بازا میں عوام کو امریکی عہدیدار کا دھمکی آمیز خط کا دکھانا
، اقوام متحدہ میں پولینڈ کی قرارداد کو پھاڑنا،امریکی سفارت کاروں کی
کیبلز (جسے وکی لیکس نے شائع کی ) ،بھارت کو سکھوں کی فہرست فراہم کرنا یا
پھر حالیہ خط جس نے اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔کہنے کو تو یہ
ایک خط ہے لیکن اس خط نے فوج اور پی پی حکومت کو دریا کے مخالف کناروں
پرکھڑا دیا ہے۔ میمو گیٹ کے یوں اچانک میڈیا پر آ جانے کے متعلق پیپلزپارٹی
کی قیادت بھی تصور نہیں کر رہی تھی گو کہ صدر زرداری چومکھی سیاست کے صدر
دروازے پر بیٹھے ہیں اور وہ ایک وقت میں کئی محاذوں پر کھیل کر کئی لوگوں
کو مصروف رکھنے کا فن بھی جانتے ہیں لیکن میمو اسکینڈل کے متعلق ان کا
اندازہ بھی غلط ثابت ہوا اور انہیں ایک دن میں دو دفعہ آرمی چیف اشفاق
پرویز کیانی سے ملاقات کرنا پڑی۔
امسال 2 مئی کو ایبٹ آباد آپریشن کے فوری بعد اس وقت کے امریکی افواج کے
سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو بھیجے گئے اس مبینہ خط کے متعلق خیال کیا جا
رہا ہے کہ اسے امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے کہنے پر پاکستانی
نژاد امریکی بزنس مین مصور منصور اعجاز نے تحریر کیا اور اسے مولن تک
پہنچایا ۔یہ معاملہ گزشتہ 6 ماہ سے دبا ہوا تھا اس پرزیادہ بات نہیں ہو رہی
تھی کبھی کبھار کوئی ایک اپوزیشن رہنما اس مسئلہ کو میڈیا پر لے آتے لیکن
گزشتہ چند دنوں میں جس تیزی سے صورتحال تبدیل ہوئی اس نے ایک بار پھر
پاکستان اور امریکہ کو خلیج کے کنارے لاکھڑا کیا ہے ۔ریمنڈ ڈیوس اور اسامہ
بن لادن کے معاملے کے بعد دونوں ملکوں میں وہ پہلی جیسی گرمجوشی نہیں رہی ،دونوں
جانب سے وزیر خارجہ سطح کے دورے ہوتے رہے لیکن اس کے بوجود اعتماد کے
گلیشئر کے پگھلنے کا عمل جاری ہے ۔
خط کے اہم کردار منصور منصور اعجاز کون ہیں اور اس کی امریکہ میں کیا حیثیت
ہے ،کیا انہوں نے اس خط کے معاملے میں بھی کوئی ”مصوری“ کی اہم سولات ہیں۔
منصور اعجاز کے والدین 1960میں امریکا منتقل ہو گئے تھے ان کے والد جوہری
سائنس دان ہیں جبکہ والدہ کے پاس بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے ،منصور اعجاز کی
تمام تعلیم امریکا کی ہے انہوں نے 80 کی دہائی میں انویسٹمنٹ کمپنی کھولی
جس کا شمار بہت جلد کامیاب اداروں میں ہونے لگا،منصور اعجاز جن کا تعلق
لاہوری فرقے سے ہے کہ امریکی ڈیموکریٹ اور ریپبلکن کے علاوہ ملٹری،سول اور
انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں ۔انہوں نے حال ہی میں اپنے
قیام لندن کے دوران ایک پاکستانی چینل کے نمائندے سے پنجابی میں گفتگو کرتے
ہوئے کہا کہ انہوں نے خط حسین حقانی کے کہنے پر لکھا پھر ایک دوست کے توسط
سے اسے مائیک مولن کو بھیجا ، وہ اس معاملے پر حسین حقانی کے ساتھ مکالمہ
اور مباحثہ کرنے کو تیار ہیں ۔ دوسری جانب امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین
حقانی کو اسلام آباد طلب کر لیا گیا ہے جبکہ حسین حقانی نے بھی ایک میڈیا
چینل سے گفتگو میں کہا کہ وہ غداری کا سوچ بھی نہیں سکتے،ان کی والدہ
پاکستان میں عسکری قبرستان میں مدفون ہیں،۔ اہلخانہ کے باقی افراد ملک و
قوم کی خدمت کر چکے ہیں ان کا شکوہ تھا کہ پاکستان کے سول سفیر کو کبھی
چلنے نہیں دیا گیا اور فوجی سفیر لگانے کی کوششیں جاری رہتی ہیں۔ اس دوران
حسین حقانی کی اہلیہ اور صدر زرداری کی قریبی ساتھی فرح ناز اصفہانی کا
اچانک دبئی جانے نے معاملے کو اور بھی پراسرار بنا دیا ہے۔
میمو اسکینڈل پر مسلم لیگ ن کے رہنما وقتاً فوقتاً میڈیا پر اظہار خیال
کرتے رہے ہیں لیکن اب مسلم لیگ کے صدر نواز شریف نے معاملہ کی چھان بین
کےلئے کمیشن کی بجائے کمیٹی بنانے کا مطالبہ کر دیا جبکہ آخر ی حل کی صورت
میں سپریم کورٹ جانے کی بھی بات کی۔ وفاقی حکومت ماضی میں خط کے معاملے کی
تردید کرتی رہی ہے لیکن اب اس کا کہنا ہے کہ حسین حقانی کے واپس آنے پر
معاملہ حل ہو جائے گا۔
یہ طے ہے کہ خط پاکستانی فوج کے خلاف لکھا گیا ہے اب صرف ماسٹر مائینڈ کا
تعین کرنا باقی ہے۔ خط میں امریکا سے پاکستان کی سکیورٹی ٹیم کو تبدیل کرنے
کی خواہش کا اظہار کیا گیا جبکہ فوجی جنتا کی جانب سے حکومت گرانے کی بات
بھی کی گئی ہے اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کےلئے ذوالفقار مرزا نے ایک بیان
بھی داغا کہ پیپلز پارٹی کا ساڑھے تین سال تک حکومت کی رہنے کی وجہ
پاکستانی فوج کی ہے ، تو وزیر اعظم گیلانی بھی فوج کو اپنی فوج کہتے نظر
آئے لیکن جب انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد راتوں رات آئی ایس آئی کا
کنٹرول فوج سے لے کر سول حکومت کے انتظام میں دینے کا نوٹی فکیشن جاری کیا
اور پھر دباؤ کے باعث چند گھنٹوں بھی فیصلے سے منحرف ہو کر ایک اور نوٹی
فکیشن جاری کر دیا ۔وزیر اعظم نے موجودہ آرمی چیف جنرل کیانی کی مدت ملازمت
میں تین سال کی توسیع کی وہ اپنی تقریروں میں 2013 تک حکومت ،آرمی چیف اور
چیف جسٹس کے رہنے کا اکثر کہتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود گزشتہ چند
مہینوں سے وزیرا عظم گیلا نی کو یہ کہنا پڑا کہ ملک میں کوئی غیر جمہوری
تبدیلی نہیں آئے گی اور قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی جبکہ پرویز مشرف
سے متاثرہ مسلم لیگ ن کی قیادت بھی کسی نئی آمریت کے حق میں نہیں ہے ۔فوج
میں بھی کوئی ایڈونچرازم کا حامی جنرل نظر نہیں آتا دوسری جانب عوام اس
دفعہ بھی جمہوری حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہو چکی ہے اور وہ اس کا حل کسی
سخت گیر حکمران اور فوجی آمر کی صورت میں دیکھتے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں اگر دیکھا جائے توپاکستانی سیاست میں مزید کسی فوجی
بوٹوں کی گنجائش نہیں ملک پہلے ہی چار آمریتوں کی خرافات اور جمہوری
حکمرانوں کی نا اہلیوں کے باعث پیدا ہونے والے گرداب سے نکل نہیں رہا۔مصر
میں حسنی مبارک کی آمریت کے بعد عوام ایک بار پھر فوجی اقتدار کے خلاف
سڑکوں پر آ گئی ہے ۔دنیا کے کئی ممالک میں آمروں کے ٹرائیل اور سزائیں ہو
چکی ہیں جنر ل پرویز مشرف کو بھی عدالت نے اشتہاری قرار دیا ہے لہذا مشاورت
اور جمہوریت کی اس صدی میں شہنشاہت،بادشاہت،مطلعق العنانیت اور آمریت کی
کسی صورت کو بردداشت نہیں کیا جا رہا اور اس نوشتہ دیوار کو غیر جمہوری طا
قتیں بھی بخوبی پڑھ اور سمجھ چکی ہیں۔ |