سپ کدے مِئتر نیں بن دے

ایک چھوٹے بحری جہاز میں چار ممالک ،پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور چائینہ کے صدر سفر کررہے تھے کہ اچانک جہاز کے کیپٹن نے اعلان کیا کہ کسی فَنی خرابی کے باعث جہاز اَن بیلنس ہوگیا ہے اور بیلنس برابر کرنے کے لیئے آپ چاروں میں سے کسی ایک کو نیچے کودنا پڑے گا ، ورنہ سب کی جان کو خاطرہ لاحق ہوسکتاہے اب چاروں مارے خوف کے ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگئے کہ کون بنے گا قربانی کا بکرا،پس اسی کشمکش میں چا ئینہ کے صدرنے ہمت جتا ئی اور سب کی جان بچانے کے لیئے سمندر میں کود گیا،ابھی باقی تینوں نے اطمینان کی سانس لی ہی تھی کہ کیپٹن نے پھر اعلان کیا کہ کسی ایک کو پھر کودنا پڑے گا ورنہ جہاز ڈوب جائے گا،پھر وہی پہلے والی صوتحال سب ایک دوسرے کے منہ تکنے لگئے خیر اس بار بنگلہ دیش کے صدر نے حوصلہ کیا اور کود گیا، اب پاکستان اور انڈیاکے صدر بچ گئے جو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے کہ وہ بچ گئے ہیں لیکن اُن کی خوشی بھی ادھوری ہی رہ گئی جب کیپٹن نے یہ بتایا کہ جہاز میں اس وقت صرف دو ہی آدمی سفر کرسکتے ہیں اس لیئے آپ دونوں میں سے بھی کسی ایک کودنا پڑیگا ،اب انڈیا کا صدر پاکستان کے صدر کی طرف دیکھتاہے اور پاکستان کا صدر انڈیا کے صدر کی طرف ،پس پاکستان کا صدر اُٹھا اور نعرہ ِتکبیر بُلند کیا ،انڈیا کا صدر دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے کہ پاکستان کا صدر کود رہا ہے لیکن پاکستان کا صدر نعرہ ِ تکبیر لگا کر انڈیا کے صدر کو اُٹھاتا ہے اور اﷲاکبر کہہ کر سمندر میں دے پھینکتا ہے ،،،،،اسطرح اپنے حاضر دماغ اور چالاکی کی وجہ سے وہ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوجاتاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حقیت میں بھی ہمارے حُکمران ، بھارت کے حُکمرانوں کے مقابلے میں اتنے حاضر دماغ، چالاک اور ہوشیار ہیں یا پھر ہمارے حُکمرانوں کے بہادری ، دلیری اور چالاکیوں کے قصے اب صرف کہانیوں کی حد تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں تو اس بات کا اندازہ ،وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے حاضر دماغ اور ذہین ہیں،جس میں بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے اور دیگر معاملات کے حوالے سے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی منظور ی دی گئی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت ہمارا کھلم کھلا بد ترین دُشمن ہے،14اگست 1947ءسے لے کر اب تک بھارت نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ۔جب کبھی بھی بھارت کو موقع مِلا ہے اُس نے پاکستان کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر نہیںچھوڑی یہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ پچھلی چھے دہائیوں سے ہی بھارت،پاکستان کو ڈستا آرہا ہے،کبھی دوست کے روپ میں تو کبھی دُشمن بن کر۔انڈیا کے لیئے پاکستان کی مہربانیاں اور بھارت کی مکاریوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان کے لیئے کتنا خیرخواہ اور مُخلص ہے جس نے پانی روک کر پاکستان کے دریا خشک کردیئے اور ہمارے مُلک کی ذرخیز زمینوں کو بنجر بنانے کی گھناﺅنی سازش رچی گئی ،اتنا ہی نہیں بلکہ،ایران ، بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والا گئیس پائپ لائین کا معاہدہ بھی بھارت کی وجہ سے ہی کینسل ہوا کیو نکہ انڈیا کوہی پاکستان کا مفاد برداشت نہیں ہورہا تھا یہاں تک کہ پاکستان میں کھیلوں کے میدان ، ویران کرنے والا بھی کوئی اور نہیں ہمار ا ہمسایہ اور دوست ملک بھارت ہی ہے۔پاکستان کو دہشت گرد مُلک ،سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ،اور غیر مُلکی ٹیموں کا پاکستان آنے پر پابندی عائد کروانا ،یہ سب کچھ ہمارے پڑوسی مُلک بھار ت کا ہی کیا دھرا ہے جس کا کیا ہم آج تک بُھگت رہے ہیں کہ آج کوئی بھی انٹرنیشنل ٹیم پاکستان میں آنے کو تیار نہیں ہے۔بھارت کے دفاعی بجٹ میں ہر بار کئیے جانے والا دُگنا اضافہ اور بھارت کے عوام کا غربت کی لکیر سے بھی نیچلی سطع پر ندگی گزارنے پر مجبور ہونا اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ بھارت کتنا امن پسند ملک ہے۔ جو مُلک اپنے غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین کر اُس پیسے کے عوض ایٹم بم بنانے میں مصروف ہو، ایسے انتہا پسند ملک سے امن اور بھائی چارے کی اُمید کیسے کی جاسکتی ہے اور ایسے مُلک کو پسند یدہ مُلک قرار دینا پاکستان میں موجود ،کشمیر کی آزادی کے لیئے بنائی گئیں جہادی تنظیموں کے منہ پر ایک طما نچہ ہے۔پاکستان ،بھارت سمیت دنیا کے ہر مُلک کے ساتھ اچھے تعلقات اور امن کا خواہ ہے لیکن برابری کی سطع پر ،انڈیا نے جو زخم پاکستان کو دئیے ہیںوہ آسانی سے بھرنے والے نہیں ہیںلیکن پھر بھی اگر اب بھارت تمام معاملات پاکستان کے ساتھ بات چیت کے زریعے حل کرنا چاہتا ہے تو پاکستان بھی پیچھے نہیں ہٹے گالیکن اس کے لیئے پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی چندباتوںپر پابند کیا جائے جیسے کہ سب سے پہلے انڈیا اپنی مکارانہ عسکری صلاحتیوں میں اضافہ کے سلسے کو بند کرے ،اور دونوں ملک اپنے دفاعی بجٹ کی ایک حد مقرر کریں، تاکہ دونوں ہی مُلک اپنے عوام کے خوشحالی اورترقی کے لیئے کچھ بہتر اقدامات کرسکیں۔ مسئلہ ِکشمیر بھی دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑ اتنازعہ ہے اور جب تک اس مسلئے کا کوئی مُناسب حل نہیں نکلے گا تب تک پاک بھارت تعلقات کاقائم رہنا ناممکن ہے۔ اس لیئے مسئلہ ِکشمیر کا حل ہونا بہت ضروری ہے اور اس مسئلے کے حل سے ہی دونوں ممالک کے تعلقات میں استحکام اور مظبوطی آسکتی ہے۔ ہندوں انتہا پسند بال ٹھاکرے کی تنظیم پر پابندی عائد کی جائے اورپاکستان کے خلاف نازیبا الفاظ بکنے والی بال ٹھاکرے کی زبان کو لگام دی جائے ،یاد رہے کہ اس سے پہلے پاکستان بھی بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے لیئے اپنی کئی مذہبی تنظیموں پر انڈیا کے کہنے پر پابند ی عائد کرچکا ہے۔حکومتِ پاکستان نے عوام اور پارلیمنٹ کی مرضی کے بغیر انڈیا کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی منظوری دی ہے۔پاکستان کے عوام حکومتِ پاکستان کے اس فیصلے کا احترام او ر قبول کرتے ہیں اگرہماری حکومت، بھارت کو کچھ زیادہ نہیں بس اس بات پر راضی کر لیں کہ انڈیا اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجے تاکہ پاکستان میں پھر سے انٹرنیشنل کرکٹ او ردوسر کھیلوں کی بھی بحالی ہوسکے،تب پتہ چلے گا کہ بھارت ہمارا کتنا اچھااو ر مُخلص دوست ہے اور اگر بھارت ،پاکستان کے لیئے اتنا بھی نہیں کرسکتا تو پھر پاکستان کو ، انڈیا کے حُکمرانوں کی ،مکاری، چالاکی اور شاطر دماغ کو سمجھ جانا چاہیے کیونکہ کہیں ایسانہ ہوکہ ہم پس کہانیوںمیں ہی اپنے آپ کو بڑھا چڑھا پیش کرتے رہیں اور حقیت میں ہمارا دُشمن اپنی مکاری سے ہمارے اُپرغالب آجائے۔۔پھر دُشمن آخر دُشمن ہی ہوتا ہے چاہے جتنے ہی دوستی کے دعوے کیوں نہ کر لے ٹھیک اُسی طرح جیسے سانپ کو جتنا بھی دودھ پلالیں جب اُسے موقع ملے گا وہ ڈسنے سے بعض نہیں آئیگا ۔ پنجابی کی اس کہاوت کی طرح، سَپ کدے مِئتر نیں بن دے پاویں لَکھ چُلیاں دودھ پلائیے !
Kifayat Hussain
About the Author: Kifayat Hussain Read More Articles by Kifayat Hussain: 22 Articles with 21212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.