ايک معصوم اور تقدس مآب تمّنا جو
ہر مسلمان کے سينے میں مچل رہی ہيں وہ اسلام کا اتحاد ہے اسلامی برادری
کارکن اور فرد ہونے کی حيثيت سے ہر مسلمان اس امن افزااورسکون آفريں تدبير
کا دِل سے قائل ہے اور شايد ہی کوئی ايسا مسلمان ہو جو يہ نہ چاہتا ہو کہ
دنيا سے کالے گورے کی تميز ختم ہو جائے اور ملّتِ اسلاميہ قيود و حدود اور
ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر " مسلم امہ " کی صورت ميں متحد اور يکجا ہو کر
انسانی خدمت کے لئے مصروفِ کار ہوجائے ۔
اس ميں شک نہيں کہ " اتحاد بين المسلمين " ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر
دُنيا معروف اور نيکی ، احسان اور صداقت کے پھولوں سے سج سکتی ہے اور اسی
کے وسيلہ سے پائے حيات ميں چبھے کانٹے نکالے جا سکتے ہیں ۔ مسلمانوں کا
اتحاد اور اتفاق وقت کی ضرورت بھی ہے اور خداوندِ قدوس کا ايک حکم بھی ،
ايک مسلمان ہونے کی حيثيت سے ہماري بھی کوشش اور دعوت يہی ہے کہ اللہ کی
رسّی کو مضبوطی سے پکڑا جائے ۔ اختلاف و افتراق سے کليتہً اجتناب برتا جائے
اور اس بات کی سعیِ بليغ کی جائے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں محبّت و
مروت اور مودت و اخوت کی ايک لہر دوڑ جائے ۔
مسلمان قوم و سائل اور صلاحيتوں کے اعتبار سے کسی بھی قوم سے پيچھے نہيں ۔
مجموعی لحاظ سے دُنيا کی آبادی کا تيسرا حصّہ مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔
خداوندِ قدوس نے علم و فن ، مال ودولت ، بحر وبر ، قوّت و طاقت ، سيم و زر
، عقل و خرد ، اقتدار و اختيار اور رياست و حکومت کوئی بھی ايسا عطيہ نہیں
جس سے انہیں نہ نوازاہو ، قدرت کے خزانے سخاوت کے ساتھ ان کے لئے کھُلے ہيں
۔ فطرت کی بساطِ عطا ہر وقت ان کے لئے بچھی ہوئی ہے ۔ اسرافِيل انقلاب ہر
آن ان کے لئے صور پھونک رہا ہے ۔ زمانے کے شب و روز اس اميد سے خوش ہیں کہ
مسلمان ابھی انگڑائی لےگا ۔ ابھی اٹھے گا اور اپنے فريضہ زندگی کی تکميل
کرنے ميں کوشاں ہوگا ليکن حسرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان ہيں کہ :
زمين جنبد گل محمد
وائے حسرت کہ اس وقت عملی طور پر مسلمانوں کا اتحاد نہايت کمزور ہے ، بلکہ
حقيقت يہ ہے کہ مسلمانوں کی ذاتی کينہ تو زيوں کی وجہ سے خارجی ريشہ
دوانيوں نے ان کا ناک ميں دم کررکھا ہے کفّار اپنی مذموم کوششوں سے
مسلمانوں کے اہم مراکز کمزور کر رہے ہیں ۔ سامراجيّت کی ديدہ دليرياں اور
سينہ زورياں ملاحظہ ہوں کہ اب حرمِ قدس پربھی اپنا شوقِ تصّرف پورا کرنے کی
سوچی جا رہی ہيں ہم يہ نہيں کہتے کہ مسلمانوں میں شوقِ نمود ختم ہو گيا ہے
اور ان کی پاک آرزوئيں کچلی جا رہی ہيں اور اب ان کی نشاۃِ مکررہ کا کوئی
امکان نہيں رہا بلکہ افسوس ہميں يہ ہے کہ مسلمانوں کی وہ سادگی اور بڑھتی
جارہی ہے جس نے ہميشہ سے دھوکہ ديا ہے ۔
سادگی مسلم کی ديکھ اوروں کی عياری بھی ديکھ
جہاں تک اتحاد بين المسلمين کے لئے فی زمانہ ہونے والی کوششوں کا تعلق ہے
تو وہ نہ صرف يہ کہ اطمينان بخش نہيں بلکہ کئی اعتبارات سے درست بھی نہيں ۔
ہمارے داعيانِ اتحاد صرف اشک ريزی مرثيہ خوانی ، سوزانگيزی اور تقرير آرائی
سے ايک دُوررس انقلاب پيدا کرنا چاہتے ہيں جبکہ حقيقت يہ ہے کہ گرجدار لہجے
، برق آسا خطبے اورغناانگيز تقريريں اگر قبرستان ميں کی جائيں تو مردے برسرِ
پيکار نہيں ہو سکتے اور پھر جب داعی کے اپنے قول و عمل ميں تضاد اور تصادم
ہو تو اتحاد کا سوچنا فضول سی بات ہے ۔
آج کے داعی اتحاد کی فِکر کے مطابق جو سوشلزم کو مانے وہ بھی مسلمان ہے ،
جو خدا کی صفات کا منکر ہو ، وہ بھی مسلمان ہے ۔ جو صداقتِ قرآن پر ايمان
نہ رکھتا ہو وہ بھی مسلمان ہے ۔ معاف کرنا اگر کوشش ايسے ہی مسلمانوں کے
اتحاد کی کی جا رہی ہے تو پھرچشِم بددور نعرہ لگانے میں غلطی لگ گئی ۔ بات
تو اتحاد بين النّاس کی ہونی چاہئيے تھی ۔ فرض کيا ہمارا يہ مقصد غلط بھی
ہو تو نفرتوں کی باتيں محبتوں کی زبان ميں اور محبتوں کی باتيں نفرتوں کے
لہجے میں اتحاد نہيں پيدا ہونے ديتيں ۔
ہمارے خيال ميں اتحاد کے لئے پہلا کام تطہير ہے جس کے تحت سياست دانوں سے
لے کر عوام تک ، علما سے لے کر مشائخ تک اور محکوموں سے لے کر حکام تک سبھی
لوگ اپنے اپنے ماحول زدہ اسلام کو قرآن اور حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی
سنّت پر پيش کريں اور سچے دينی تقاضوں کے مطابق اگر کوئی قربانی دينا پڑے
تو اس سے دريغ نہ کريں ، اگر کوئی بت توڑنا پڑے تو اُسے توڑنے سے اجتناب نہ
برتا جائے ۔ اس عمل سے خود بخود اسلامی اخوّت عام ہوگی ۔ نور نور کو پہچان
لے گا ۔ روشنی ، روشنی کی پيغمبر بنے گی ۔ اجالے ، اجالوں کو جنم ديں گے ۔
منافقت مسلمانوں کی صفوں سے خارج ہوگی اور حضور صلی اللہ عليہ وسلم کے غلام
قرونِ اولٰی کے مسلمانوں کی طرح بنيان مرصوص دکھائی ديں گے ۔
اگر ہماری يہ دعوتِ فِکر درست نہ بھی تسليم کی جائے اور يہ اصرار ہو کہ
مسلمان نام کا آدمی جو بھی ہے ، خواہ وہ لکڑی کا ہے يا موم کا ہے ۔ لوہے کا
ہے يا تانبے کا سب کو اکٹھا کيا جائے تو بھی مشکل يہ ہے کہ اتحاد کی مقابل
اصطلاح فرقہ يا تفرقہ کو ابھی تک سمجھا نہيں گيا ۔ ابھی تک اتحادی بارود
صرف مذہبی طبقوں پر استعمال کيا گيا اور انہی کے اختلافات کو ہوا دے کر پيش
کيا جاتا رہا ہے ۔
ايک وزير صاحب لبنان کی تباہی پر بڑی موثر تقرير کرتے ہوئے ارشاد فرما رہے
تھے کہ :۔
" پاکستان کے ديو بنديو اور بريلويو ، شيعو اور سنيّو ! لبنان جہنم زار بن
گيا ہے اور مسلم اُمہّ لُٹ رہی ہے ۔ اختلافات چھوڑ دو اور متحد ہو جاؤ "۔
تاريخ اس امر کی شاہد ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی اختلافات اگرچہ تحزيب کاری
کرتے رہے ليکن ملّتِ اسلاميہ کی تباہی اور بربادی کا ذمہ دار صرف انہيں
نہيں ٹھہرايا جا سکتا ۔ اگر اس کا جائزہ لينا مقصود ہو تو آپ پاکستان کی
تاريخ ہی کا عميق اور گہرہ مطالعہ کر سکتے ہیں ۔ يہاں ديو بندی بريلويوں کے
خلاف ہوئے اور اہل حديث واحناف نے يہاں تک کہ ايک دوسرے کی اقتداميں نمازيں
تک نہ پڑھيں ، ليکن پاکستان کے تحفظ کے لئے کوئی جنگ ہو يا کوئی تعميری
تحريک ، تنفيذِ نظامِ مصطفٰے صلی اللہ عليہ وسلم کی بات ہو يا ختم نبوت کا
معاملہ يہ سب ہی لوگ مِل جل کر قربانياں ديتے رہے ، يہاں تک کہ کئی ايک
تحريکوں میں سب نے ايک دوسرے کی قيادت کو بھی تسليم کيا اور ہميں اب بھی
يقين ہے کہ مِلّی لحاظ سےمشکل وقت پڑنے پر اب بھی قربانی دينے سے دريغ نہيں
کيا جائے گا ۔ ہماری اس بحث کا قطعاً يہ معنٰی نہ ليا جائے کہ ہم مذہبی
اختلافات جو افتراق کی شکل ميں ہوں انہيں جائز تصّور کرتے ہيں يا حاشا وکلا
ہميں کسی کے اسلام ميں شک ہے ۔ ہماری اس گفتگو کا مطلب يہ ہے کہ اتحاد بين
المسلمين کے نعرے کا پس منظر اچھی طرح سمجھا جائے اور اسلام کو فرداً فرداً
بھی اور اجتماعاً بھی خلوص دل سے قبول کرکے اس کو عملی طور پر نافذ کيا
جائے خواہ وہ پہلے مرحلے پر زمين کے کسی چھوٹے سے ٹکڑے پر ہی کيوں نہ ہو
اور مسلمان جو بھی قدم اٹھائيں ، وہ ٹھوس بنيادوں پر ہو اور اس کے ساتھ ہی
فرقہ واريت کے خلاف جدوجہد ميں تفرقہ بازی کو مذہبی اختلافات پر ہی موقوف
نہ سمجھا جائے بلکہ معاشرہ میں پھيلے ہوئے تشتّت کے دوسرے راستے اور افتراق
کی ديگر راہوں کو بھی اپنا ہدف بنا کر اتحاد کی فضا پيدا کی جائے ۔
يہ امر کِس سے پوشيدہ ہوگا کہ معاش اور سياست کے نام پر کتنے ہی فرقے آج من
چاہے کھيل کھيل رہے ہيں جنہيں مذہب نے جنم نہيں ديا ۔ بلکہ انسانی خواہشات
کے ظالمانہ رويّے نے انہيں پيدا کيا ۔ آج امير اور غريب کے درميان وہ بعُد
حائل ہے جسے کوئی روحانی قوّت ہی دور کر سکتی ہے وگرنہ مزدور اور مالک کی
جنگيں ، آجر اور اجير کا فساد ، سرمايہ دار اور غريب کا تفاوت انسان کو
انسان سے اتنا متنفر بنا رہا ہے کہ غريب کے جنازے ميں آپ کو زيادہ غريب ہی
نظر آئيں گے اور امرا کی ميّت کو کندھا دينے کے لئے زيادہ تر امرا ہی
دکھائی ديں گے ۔ مذہبی فرقوں سے زيادہ خطرناک يہ معاشی فرقے ہيں جن کے
حوالے سے انسانيت کی تحقير ہو رہی ہے ۔ اب تو آباديوں کی تقسيم ميں بھی آپ
کو معاشی حصّے بحزوں کا ڈرامہ نظر آئےگا ۔ امرا اپنی کالونياں الگ بناتے
ہيں اور غربا کی چھپر چھت الگ ہوتے ہيں ۔
معاشی طبقہ بندی کی طرح سياست کے ميدان ميں بھی جہاں لوگ مختلف گروہوں کی
مذموم کارگردگی اور سفلی خواہشات کی وجہ سے بلادِاسلاميہ کو نقصان پہنچ رہا
ہے وہاں بذاتِ خود اسلاميِان عالم کازمين کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے خلافت کے نظام
سے بغاوت کرنا دينی لحاظ سے بہت بڑا جُرم ہے ۔
" اتحاد بين المسلمين " کاخواب قربانی اور ایثار کے سوا کسی بھی صورت ميں
شرمندہ تعبيرنہ ہو سکے گا ۔ اس اہم اور قيمتی مقصد کی تکميل کی خاطر مفاد
پرستی کی روش ترک کرنی ہوگی ۔ اگر مذہبی فرقے ، سياسی گروہ اور معاشی ٹولے
تعصّب کاشکار ہو کر اپنی اپنی جگہ اپنی ہی بات منوانے اور اپنے ہی مفاد کو
بچانے پر تُلے رہيں تو اتحاد کی کوشش ايک ڈرامے کے سوا کچھ حيثيت نہيں
رکھتيں ۔
رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے صحابہ اگر حلقہ ياراں ميں بريشم اور طاغوت
کے خلاف فولاد دکھائی ديتے تھے تو يہ سب کچھ جذبہ ايثار اور اطاعت
وانقيادکے نتيجے ميں تھا ۔ وہ عظيم المرتبت لوگ خود پياسے مرے ليکن اپنے
کسی دينی بھائی کو پياسا نہ ديکھ سکے ۔ ان کے پاس رات کی تاريکيوں ميں اگر
کوئی مسلمان بھائی بھوکا اور فاقہ زدہ ہوکرآيا تو وہ ديئے کی روشنی گل کر
کے خود بھُوک سے رہے اوراپنے بھائی کا پيٹ بھرا ۔ان کی يہی پاک خصلتيں اور
بے نفسی کا اسوہ تھا کہ وہ اَنْتُمُ الْاَ عَلَوْنَ کا مصداق بن کر افق سے
افق تک چھا گئے ۔
آج حکما سياسی دشمنيوں کی بنا پر انسانوں کے ساتھ وہ سلوک کر رہے ہيں ،
جيسے چيتے يا بھيڑے کے ہاتھ کوئی مظلوم اور تنہا انسان لگ گيا ہو ۔ سياست
دان ايک دوسرے کی پگڑی اچھالنا کارِ ثواب سمجھتے ہيں ۔ علما کی مجلسوں ميں
عمامےاور عباؤں پر زبانی ان کی ماديت پرستی پر دلالت کرتی ہے ۔ فقير کی
گڈرياں بنک (بيت المال) بنتی جارہی ہیں ۔ مادی تہذيب کا جس قدر احيا ہورہا
ہے محبتّيں اور سچی رفاقتيں مفقود ہوتی جارہی ہيں ۔ انسانی پيشانيوں پر
محبتّوں کا نور نہيں بلکہ نفرتوں کی شکنيں دکھائی ديتی ہيں ۔
داعينِ اتحاد ! خدارا سوچ لو ، شاخوں اور پتّوں کا تصور تو درخت کے تنے کے
ساتھ وابستہ ہوتا ہے ۔ تنا نہ ہو گا تو شاخيں کہاں پيدا ہوں گی ۔ دين نہيں
ہو گا ، اطاعت نہيں ہوگی ، عمل نہيں ہو گا تو اتحاد کہاں سے قائم ہو گا اور
کون کرے گا ۔
تم حاکم ہو يا محکوم ، امير ہو يا غريب ، علما ہو يا زہاد دِل کے کانوں کے
ساتھ خدا کا يہ حکم سنو اور قربانی کے جذبہ کے ساتھ عدل کرنے کی کوشش کرو
اور ياد رکھو کہ اللہ جل شانہ، تمہاری ڈھکی چھُپی باتوں کا جاننے والا ہے ۔تمہاری
فريب کاريوں کا وبال تمہاری اپنی ہی جانوں پر ہو گا نہ خود تباہ ہو اور نہ
قوم کے لئے وجہ فساد بنو ۔
حريِم کبريا سے آواز آ رہی ہے ۔
مومن ! تيرا خالق تجھے بلا رہا ہے ۔
اُٹھ ! حرص و ہویٰ کے پردوں کو چاک کر ۔
رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم تجھے ديکھ رہے ہيں ۔
گوش برآواز اور عمل کر ، محنت کر ، جہاد کر ۔
وَ اعْتَصِمُوْابِحَبْلِ اللہ جَمِيْاً وَّ لاَ تَفَرَّقُوْاوَاذْکُرُ
وْانِعْمَتہَ اللہِ عَلَيْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدا ً فَاَلَّفَ بَيْنَ
قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِْعَمِتہ اِخْواناً وَ کُنْتُمْ عَلٰی
شَفَا خُفْرَ ۃ مِّنَ النَّارِ فَانْقَذَ کُمْ مِنْھَا ہ ط کَذٰ لِکَ
يُبَيِّنُ اللہُ لَکُمْ اٰيَاتِہ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْن ہ وَ لْتَکُن
مِّنکُمْ اُمَّتہ يَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَيِرْ وَيَاْمُروْنَ بِاْلَمْرُوْفِ
وَيَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ہط وَاُوليِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ہ
" اور اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ کرو ۔ اپنے آپ پر اس
نعمت کو ياد تو کرو کہ تم آپس ميں دشمن تھے تو اس نے تمہارے دِلوں کو جوڑا
اور پھر تم اس کے احسان سے بھائی بھائی ہو گئے ۔
تم آگ کے ايک گڑھے کے کنارے پر تھے اور اس نے تمہيں اس سے بچايا ۔ اسی طرح
تمہارے ليے اللہ اپنی آئتيں بيان کرتا ہے تا کہ تم راہ ياب رہو ۔
تمہارے اندر ضرور ايک ايسی جماعت ہو جو خير کی طرف بلائے ۔ نيکی کا حکم دے
اور برائی سے منع کرے اور حقيقت ميں ايسے ہی لوگ بامراد ہوتے ہيں "۔
ميرے خيال میں اتحاد کی وہ کوشش جس کے پيش نظر کوئی اہم مقصد نہ ہو کوئی
اہميت نہيں رکھتی اور وہ اہم مقصد جس کا ذکر کرنا ميں ضروری سمجھتا ہوں وہ
قيامِ خلافت ہے ۔ اسلامی زندگی کا يہی وہ باب ہے جس تک پہنچنا مسلمانوں کا
ايک اہم فريضہ ہے ۔
ہم بين الاقوامی سطح کی اس عظيم الشان کانفرنس کے وسيلہ سے مختلف ممالک سے
آئے ہوئے مندوبين کے سامنے يہ کاز ( cawse ) اور دعوت رکھنا پسند کريں گے
کہ اگر وہ واقعتاً مسلمانوں کا سياسی معاشی اور معاشرتی غلبہ ديکھنا پسند
کرتے ہيں تواپنی اپنی رياستوں ميں انہيں تنفيذِ اسلام کی کوششيں تيزترکر
دينی چاہئيں ۔ جب تک دردِ دل رکھنے والے ٹھوس اور بہادر مسلمانوں کے ہاتھوں
ميں مختلف ممالک کا اقتدارنہيں آجاتا ۔ کسی مستحکم اوربامقصد اتحاد کا
تصورمبہم دکھائی ديتا ہے ۔
آخرميں اس بين الاقوامی اتحاد سمينيارکی انتظاميہ کا شکريہ اداکرنے کے ساتھ
ساتھ اللہ ربُّ الِعّزت کی بارگاہ ميں دعا کرتا ہوں ۔
ميری آنکھوں کے نور ۔
ميرے دل کےسُرور ۔
اے ميرے اللہ ،
ميرے رَبّ ۔
ميری قوم کو درد اور عشق عطا فرما کہ وہ زندگی تيرے ہی ليے بسر کرے
اوراُسوہ رسُول صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ہی سے فيض ياب ہو ۔
ہم تيرے بن جائيں تو ہمارا ہوجا ۔
اٰمِيْن يَارَبَّ اْلعٰلَمِيْنَ بِحَقِّ رَحْمَتہٍ لِلّعٰلَمِيْنَ ،
سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ اْلعِزَّۃ عَمَّا يَصِفُوْنَ ہ وَسَلَامُ عَلَی
اْلمُرْسَلِيْنَ ہ وَ اْلحَمْدُ لِلہِ رَبِّ اْلعَلَمِيْنَ ہ[ |