دمشق کی جامع مسجدمیں جمعہ کی
نماز ختم ہوئی اورلوگ سرپر کفن باندھ کر صف بصف بازاروں اورگلیوں میں نکلنے
لگے ۔زبان پر تکبیرکے نعرے ،دل میں اللہ کا خوف لیے ہزاروں مرد وعورت ،نوجوان
اوربچے یہ نعرے لگارہے تھے ۔”ہم آزادہیں“بشارالاسدتم قاتل ہو،مہرالاسد
سیریاچھوڑدو ۔”حکومت کے غلام پٹھوو،جلادو،گولی چلاؤ کہ ہمارے سینے کھلے
ہیں،آؤ وارکرو ،ہماری گردنیں اٹھی ہوئی ہیں”گویابزبان شاعروہ کہ رہے تھے
سرفروشی کی تمنااب ہمارے دل میں ہے
دیکھناہے زورکتنابازوئے قاتل میں ہے
درعا ،حمص اورحماة سے پھوٹی انقلاب کی یہ چنگاری اب شعلہ بن چکی ہے
اوردارلحکومت دمشق کے ساتھ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔ صورت
بتدریج خراب ہوتی جارہی ہے۔مظاہرین جو اب انقلابیوں میں بدل گئے ہیںساری
قربانیاں دے رہے ہیں اورشدید مظالم برداشت کرنے کے باوجود نہ حوصلہ کھورہے
ہیں اورنہ ان کے صدربشارالاسد کے اقتدارکے خاتمہ کے مطالبہ میںکوئی کمی آئی
ہے۔
شام (سیریا)جو کبھی اسلام کاتہذیبی مرکز ہواکرتاتھا ۔ ہزاروں ائمہ ،علماء،محدثین
وفقہاءاورادباءومفکرین کاگڑھ دمشق آج ماتم کناں ہے ۔وہ دمشق جو صدیوں تک
اسلام کا دارالخلافہ رہااورجس کے جاہ وجلال سے قیصروکسری لرزہ براندام
ہوجایاکرتے تھے آج اسلام وہاں اجنبی بنادیاگیاہے۔”شام کی ہرشام ،شام غریباں
اوروہاں کی ہرصبح صبح بے کساں ہے ۔شام کی شام غم اورداستان الم وہ مائیں
بتاسکیں گی جن کے جوان بچوں کو بشارالاسدکی مسلح فوجوں نے اورشبیخہ (بغیریونیفارم
کی فوج )نے مظاہرہ میں حصہ لینے کے جرم میں گولی مارکرہلاک کردیااورلاشوں
کے سینہ پر رائفلیں رکھ دیں تاکہ حکومت یہ ثابت کرسکے کہ یہ مسلح دہشت گرد
تھے ۔سترسے زیادہ ایسے شہر اورقصبات ہیں جہاں پرامن مظاہرہ کرنے والوں کو
آتشیں ہتھیاروں سے بھون دیاگیا۔....آزادی کی راہ میں شہیدہونے والوں کی
تعداد دس ہزارسے متجاوز ہے اوراس سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے
لبنان میں اورترکی میں پناہ لی ہے ۔شام نے اپنی سرحدیں بندکردی ہیں
اورلوگوں کو پناہ لینے سے بھی روک دیاہے۔یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ مسلح
بغاوت تھی شامی حکومت مرنے والوں کے ہاتھوں میں رائفل ڈال دیتی ہے ۔تاکہ ان
پر گولی چلانے کو حق بجانب ثابت کیاجاسکے ۔کیمرے کی آنکھ نے ان تمام منظروں
کو رکارڈکرلیاہے ،لاشوں پر ہتھیارڈالتے ہوئے فوجی حکمرانوں کی تصویربھی
آچکی ہے۔اس زمانے میں کیمرے کی عقابی نگاہیں بہت تیز ہوتی ہیں اورمجرم کا
اس سے بچ نکلنامشکل ہوتاہے ۔....(پروفیسرمحسن عثمانی ندوی عرب دنیامیں
انقلابات ،صفحہ 62)
اردومیڈیاکا ایک سیکشن جو عرب ملکو ں کے حالات سے براہ راست واقف نہیں ہے
۔یاجس کے مفادات مشرق وسطی کے ڈکٹیٹروں سے وابستہ ہیںیاجولوگ مسلکی
اعتبارسے ایران اور سیریاکی حکومتوں سے قربت محسوس کرتے ہیں وہ عوام کو اس
سلسلہ میں مسلسل گمراہ کررہے ہیں۔اورسیریاکے مسئلہ کو عام عرب انقلابوںسے
الگ کرکے اس کو سیریاکے خلاف امریکہ واسرائیل کی سازش باور کراناچاہتے
ہیں۔بعض اردوقلم کاراب بھی بشارالاسد کے قصیدے پڑھ رہے رہیں ،شامی حکومت کے
گن گارہے ہیں اوردلیل کے نام پر ان کے پاس ایک ہی دعوی ہے : سیریااورایران
کے خلاف امریکہ اوراسرائیل کی سازش۔حالانکہ حقیقت واقعہ وہ نہیں جو وہ
باورکراناچاہتے ہیں۔امریکہ اوراسرائیل کی سازشوں کو ہم بھی خو ب سمجھتے ہیں
اورہمیں ان ظالموں سے ذرابھی ہمدردی نہیں مگریہاں امریکہ اوراسرائیل کی
سازش کی دہائی دے کر ایک اورظالم حکومت (شام )کے انسان دشمن رویوں کو جواز
دیاجارہاہے ،اس سے ہمیں اورہر انصاف پسندکو اختلاف ہے۔بلکہ خوداسرائیل کو
یہ تشویش لاحق ہے کہ سیریاکی موجودہ حکومت ختم ہوگئی تو اس کو خطہ میں
زبرست خسارہ کا سامناکرناہوگا ،وہاں اسلام پسندغالب ہوجائیں گے ۔اس لیے
اسرائیل موجودہ شام کو ،جواس کے خلاف زبانی جنگ میںسب سے آگے رہتاہے ،اپنے
حق میں بہت بہترسمجھتاہے اوراس کے خاتمہ کو اپنے مفادات کے حق میں نقصان دہ
۔
اصل میں شام کے موجودہ اضطراب کی جڑیں ماضی میںپیوست ہیں۔جب 1970 میں شام
کی بعثی انقلابی حکومت کے سربراہ صلاح جدیداوراورصدرنورالدین الاتاسی کو
اقتدارسے ہٹاکرخود حکومت پر قبضہ کرلیااورشام میں ایک بعثی نصیری علوی
اقلیت کی حکومت قائم کردی تھی ۔شام میں بعثی انقلاب 1963میں آچکاتھا مگرملک
اندرونی بغاوتوں دربغاوتوں اورسیاسی عدم استحکام سے دوچارتھا ۔اس لیے حافظ
الاسد نے اپنے وفاداروں کی مدد سے اوراپنے آہنی ہاتھوں سے جلد ہی اپنے
اقتدارکو مستحکم کرلیا۔اس وقت کی دوقطبی دنیا میں اس نے اپنا قبلہ روس کو
بنایاتھا۔
شام میں آبادی کا تناسب بھی اس اضطراب کا بڑا سبب ہے ۔یہاں سنی عرب ملک کی
کل آبادی کا تقریبا70فیصدہیں،دس سے بارہ فیصدعلوی ہیںدس فیصد کردہیں اوروہ
بھی سنی ہیں۔2فیصداسماعیلی اور3فیصددروزہیں(عقائدکے لحاظ سے علوی نصیریوں
کی راسخ العقیدہ شیعہ خود تکفیرکرتے ہیں)حافظ الاسدکا تعلق اسی چھوٹی سی
نصیری علوی اقلیت سے ہے مگرفوجی انقلاب کے بعد یہی چھوٹی سی اقلیت ملک کے
سیاہ وسفیدپر حاوی ہے۔تمام اہم وزارتیں ان کے ہاتھ میں ہیں۔فوج پر انہیں کا
غلبہ ہے ،ملکی معیشت پر یہی قابض ہیں۔اس کے علاوہ پریس
آزادنہیں،علماءاوردینی تعلیم پر زبردست قدغن ہے ۔(یہ بات اورہے کہ بعض سنی
علماءبھی حکومت نے خرید رکھے ہیں اورانہیں میں ملک کے صدرمفتی حسون کا بھی
شمارہے) حافظ الاسد نے اقتدارپر قبضہ کرکے اپنے خلاف اٹھنے والی ہرآواز
دبادی ،ہر قلم کو توڑدیااورہر منبرومحراب کو خاموش کردیا۔تاریخ اس کے اس
جرم کو کیسے بھول سکتی ہے جب اس ظالم نے 1982 حماة اورحلب کے اسلام پسندوں
پر ہوائی بمباری کرکے ایک دن میںبیس ہزارلوگوں کو مارڈالاتھا۔(جن کا تعلق
اخوان المسلمون سے تھا)اس وقت سے ہزاروں شامی خاندان جلاوطن ہیں اوردنیاکے
مختلف ملکو ںمیںزندگی گزاررہے ہیں۔بشارالاسدنے باپ سے وہی وراثت پائی ہے
۔ان کو اگرکوئی کریڈٹ جاتاہے تو صرف یہ کہ انہوں نے فلسطین کی تحریکا ت
آزادی کی حمایت کی ہے ۔اورحماس اورالجہادکی قیادت کو دمشق میں قیام کی
اجازت دے رکھی ہے۔
اس پس منظر میں حکومت کے خلاف عوام میں لاوابہت پہلے سے پک رہاتھا ،جو
تیونس اورمصرمیں کامیاب انقلابوں کے بعدمارچ 2011 میںپھٹ گیا۔مگراس کی
ابتداپرامن مظاہروں سے ہوئی تھی اورحکومت کا تختہ پلٹنااوربشارالاسد کو
اقتدارسے بے دخل کرنااس کا مقصد نہ تھا ۔وہ صرف نظام میں اصلاحات کا مطالبہ
کررہے تھے ،چنانچہ ان کا سب سے مقبول نعرہ یہ تھا ۔الشعب یریداصلاح النظام
( قوم نظام میں اصلاح چاہتی ہے )مگرجب شامی حکومت نے ان مظاہر ین کا
استقبال گولیوں سے کیااورہزاروں مظاہرین کو پکڑکرجیلوں میں ڈال دیاجہاں ان
کو بدترین تعذیب وٹارچرکانشانہ بنایاگیاتو عوامی مظاہرین نے بتدریج
اپنانعرہ بدل دیااوراب ان کا سب سے بڑا نعرہ تھا الشعب یرید اسقاط النظام (
قوم نظا م وقت کو ختم کرناچاہتی ہے) سیریائی فوج کے ساتھ ہی گورنمنٹ نے
غنڈے بھی پالے ہوئے ہیںجواپنی درندگی کے لیے مشہورہیں اورسیریامیں ان کو
الشبیحة کہتے ہیں۔(اس کا اردوترجمہ بھوت یاچھلاوہ ہے)ان کو بڑے پیمانے پر
اس انقلاب کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیاجارہاہے۔
حکومت مخالف مظاہرے روزنکالے جاتے ہیں اورہرجمعہ کو وہ عروج پر پہنچ جاتے
ہیں۔ہرجمعہ کو ایک خاص عنوان دیاجاتاہے مثلاجمعة الاحرار(آزادوں کا
جمعہ)،جمعة التحدی ،(چیلنج کا جمعہ )جمعة الصمودحتی اسقاط النظام ،(حکومت
کے خاتمہ تک ڈٹے رہیں گے )جمعة طردالسفراء،(دنیاکی حکومتوں سے سیریائی
سفیروں کو بھگانے کا مطالبہ )جمعة حمایة الدولة (دنےاکو سیریاکے عوام کو
بچاناہوگا)وغیرہ ۔
شام میں نو مہینوں سے جاری موجودہ حکومت کے خلاف عوامی تحریک کے چلتے
امریکہ ،فرانس ،کویت اورسعودی عرب وغیرہ نے شام سے اپناسفیرواپس بلالیاہے۔
بتایاجارہاہے کہ ان کو دمشق میں سیکوریٹی خطرات لاحق ہوگئے تھے کیونکہ شامی
حکومت کے حامیوںنے ان پر حملہ کیاتھا اوران پر انڈے پھینکے تھے۔امریکہ
حکومت شامی گورنمنٹ پر کئی بارسخت تنقیدیں کرچکی ہے۔کیوینکہ
صدربشارالاسداپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے سخت ظالمانہ قدم اٹھارہے ہیں
اورامن پسندمظاہروں کو فوج کے ذریعہ کچلناچاہتے ہیں۔
”بشارالاسدکے باپ حافظ الاسد کے زمانہ سے لے کر اب تک تقریبا نصف صدی سے
وہاں ایمرجنسی نافذتھی اورکسی کو زبان کھولنے کی اجازت نہیں تھی ،جمعہ کے
خطبہ میں بھی ظالم حکمراں کی ثناخوانی کی جاتی تھی ۔اوروہاں کے علماءکو اس
کے لیے مجبورکیاجاتاتھا۔ذراسوچیے کہ کیابات ہے کہ گزشتہ ۹ مہینوں سے ہزاروں
ہزارلوگ مظاہرے کررہے آخر کیوں انہوں نے اپنے سینے سنگینوں کے سامنے کھول
دئے ہیں۔یہ سب کو ئی کھیل اورتماشہ ہے ؟یہ مقصدحیات کا عشق ہے یہ آزادی کا
جنون ہے ،یہ غلامی کی زنجیروں کو کاٹ دینے کا جزبہ ہے۔اسلام کے نام
لیوامحسوس کرتے ہیں کہ یہ بے دین اورگمراہ لوگ ،یہ علوی نصیری جو پورے ملک
میں دس فیصد بھی نہیں ہیں آخر کیوں ملک کے دروبست پر قابض ہیں۔کیوں انہوں
نے لوگوں کی آزادی اس طرح چھین لی ہے کہ پورے ملک میں کوئی سیرت نبوی کے
موضوع پر جلسہ عام بھی نہیں کرسکتاہے ،دینی جلسے بھی ملک کے اندربندگھروں
کے اندرمنعقدکیے جارہے ہیں۔”(حوالہ بالا)
دونومبر2011کوعرب لیگ نے مطالبہ کیاتھا کہ شہری ہلاکتیں فورا بندکی
جائیں،اورفوج کو بیرکوں میں واپس بھیجاجائے ،تمام ٹینک اورتوپ شہری علاقوں
سے نکال لیے جائیں ،اصلاحات کا عمل تیز کیاجائے اوراپوزیشن کے رہنماﺅ ں سے
حکومت فورابات چیت شروع کرے ۔اس ہنگامی پیغام میں عرب ممالک کے وزراءخارجہ
نے شامی حکومت سے مطالبہ کیاتھا کہ وہ شہریوں کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات
کرے۔ عرب لیگ کے ذرائع نے بتایاکہ شامی حکومت نے ان کے پاس یہ پیغام
بھیجاتھا کہ وہ اس کی سفارشات قبول کرتی ہے ۔یہ مطالبہ ایسے وقت میں
کیاگیاتھا جب حقوق انسانی کی تنظیموں کے مطابق دودن پہلے جمعہ کو شام کے
اندرمظاہروں کے دوران سینتیس شہری مارے گئے تھے ۔مگرالجزیرہ کی رپورٹ کے
مطابق جس وقت شامی حکومت یہ کہ رہی ہے کہ اس نے عرب لیگ کی تجاویز قبول
کرلی ہیں اسی وقت میں اس کی فوجی کاروائی میں متعددحکومت مخالف مظاہرین کو
ماردیاگیاتھا۔
شامی مظاہرین اب شام میں ناٹوسے نوفلائی زون قائم کرنے کا مطالبہ کررہے
ہیں۔
اگرچہ سیریانے عرب لیگ کا امن منصوبہ قبول کرنے کا اعلان کیاتھا اورعرب لیگ
کے جنرل سیکریٹری نبیل العربی نے کہاتھا کہ شام میں غیرملکی مداخلت نہیں
ہونی چاہیے اوربشارالاسدکی حکومت کو اوروقت اصلاحات کے لیے دیاجاناچاہیے
مگرحقوق انسانی کے کارکنان اورشامی اپوزیشن کاکہناہے کہ حکومت نے اپناکوئی
وعدہ پورانہیں کیااورپرامن حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف شدیدفوجی کاروائیاں
جاری رہیں۔سلامتی کونسل میں یواین اوکے شام میں حقوق انسانی کے ادارہ کی
سربراہ نے پے پلے نے اپنی گفتگومیں بتایاکہ موجودہ وقت میں شام کے اندرسول
وارکا حقیقی خطرہ پیداہوگیاہے ۔کیونکہ حکومت ظالمانہ کاروائیاں کررہی ہے
اورفوج میں حکومت سے عدم اطمینان بڑھ رہاہے ،جس کی وجہ سے فوج چھوڑکرجانے
والوں اورانقلابیوں میں شامل ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ۔جو
لیبیاکی طرح اب یہ سوچ رہے ہیں کہ صدربشارالاسدکی حکومت پرامن مظاہروں سے
ختم نہیں ہوگی بلکہ اس کے لیے انقلابی کاروائیاں ضروری ہیں۔
ادھرسلامتی کونسل میں فرانس کے سفیرنے سلامتی کونسل کے بعض ارکان پر الزام
لگایاکہ وہ شام میں پرامن مظاہرین پو حکومت کے مظالم سے چشم پوشی کررہے
ہیں۔ان کا اشارہ واضح طورپر روس اورچین کی طرف تھا ۔انہوں نے کہاکہ سلامتی
کونسل کو اپنی ذمہ داری اداکرنی ہوگی ورنہ اس کی معنویت ختم ہوکررہ جائے گی
۔
سیریاجہاں گزشتہ نو مہےنے سے صدربشارالاسدکی حکومت کے خلاف مظاہرے ہورہے
ہیں ،جو اب بتدریج مسلح بغاوت میں تبدیل ہونے کی طرف گامزن ہیں،اس کو ایک
کڑاجھٹکا اس وقت لگاجب17 نومبرکورباط میں عرب ممالک اورترکی نے سیریاکی
صورت حال پر اپنے مذاکرات میں متفقہ طورپر یہ قراردادپاس کی کہ اس کے پاس
صرف تین دن کا موقع ہے(جس میں تین دن مزیدبڑھادیے گئے )جس میں وہ اپنے
شہریوں کے خلاف مسلح اقدامات ترک کردے اورعرب لیگ کے مشاہدین کو شام میں
داخلہ کی اجازت دے ورنہ عرب لیگ کی جانب سے پابندیاں برداشت کرنے کے لیے
تیارہوجائے ۔
واضح رہے کہ تھوڑے دن پہلے(دونومبر2011 (ہی عرب لیگ نے شام میں قیام امن کا
ایک منصوبہ پیش کیاتھا ،جس کے مطابق شہری مقامات سے تمام فوجی دستے ،ٹینک
اورتوپیں ہٹانے ،گرفتاروں کو آزادکرنے ،مکانات کی مسماری کا سلسلہ روکدینے
اورشہریوں کو زدوکوب کرنے کو فوراروک کر شامی اپوزیشن گروپوں سے نظام میں
اصلاحات لانے کے لیے بات چیت کرنے کا مطالبہ کیاگیاتھا ،شام نے اس منصوبہ
پر اپنی رضامندی ظاہرکردی تھی ،مگرشامی اپوزیشن اورحقوق انسانی کے کارکنوں
کا کہناتھاکہ حکومت صرف دکھاواکررہی ہے اوردنیاکی نظروں میں دھول جھونک رہی
ہے۔اورواقعی ان کی بات صحیح تھی کیونکہ حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔بلکہ
شامی مرکز برائے حقوق انسانی کے مطابق اس وقت سے حکومت کے تشددمیں اوراضافہ
ہوگیاچنانچہ اس مدت میں 376شہری ہلاک ہوئے جن میں 26بچے تھے۔اس دوران سیریا
کی فوج سے بغاوت کرنے والوں کی تعدادبڑھتی رہی اوراب انہوں نے منظم
ہوکرشامی فوج کے خلاف چھاپہ مارکاروائیاں شروع کردی ہیں۔چنانچہ 16نومبرکو
انہوں نے حلب کو جانے والی شاہ راہ پر حرستا شہرمیں واقع شامی فوج کے فضائی
اڈے (مرکز المخابرات الفضائیة )پرحملہ کیا۔
اس کے بعد12نومبرکوقاہرہ میں عرب لیگ کا اجلاس ہوا جس میں تمام عرب ملکوں
نے متفقہ طورپر عرب لیگ سے سیریاکی رکنیت ختم کردی اوراس سے اپنے سفیروں کو
واپس بلانے کاسلسلہ شروع کردیا۔اگرچہ انہوں نے یہ بھی واضح کیاہے کہ ترکی
اورعرب دنےاشام میں غیرملکی مداخلت کے حق میں نہیں ہے ۔چودہ نومبرکو اردن
کے شاہ عبداللہ دوئم بی بی سی کو ایک انٹرویومیں کہاکہ بشارالاسدکو اقتدار
چھوڑ دینا چاہیے، اور اگر میں ان کی جگہ ہوتاتو
اقتدارچھوڑچکاہوتا”15نومبرکو ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوغان جو اس وقت
عالمی سطح پر مسلم دنیاکی گویاقیادت کررہے ہیں،نے کہا”کوئی بھی حکومت اپنے
مخالفین کو قتل کرکے یاانہیں قیدکرکے برقرارنہیںرہ سکتی ،اورشام کے مستقبل
کی بنیادعوام کے خون پر نہیں رکھی جائے گی ”۔واضح رہے کہ ترکی شام کا قریبی
ہم سایہ بھی ہے اوردونوں ملکو ں کے مابین نہایت گہرے تعلقات رہے ہیں
مگرترکی شام کے موقف سے شدیداختلاف رکھتاہے اوربارباراس کو سمجھانے کا کوشش
کرتارہاہے ،فی الحال اس نے شام کے ساتھ تیل کی تلاش کا اپنامشترکہ پروگرام
بھی معطل کردیاہے۔شامی حزب اختلاف کی کئی جماعتوں کے اتحادنے ترکی میں ہی
اپنادفترقائم کیاہے۔اورہزاروں افردسیریاسے ترکی کو ہجرت بھی کرچکے ہیں۔
شام کے حکومت مخالف محاذ نے سفارتی سطح پر روس اوردوسرے ممالک سے گفتگوکرنے
اوراپنے حق میں حمایت حاصل کرنے کی مہم شروع کردی ہے۔تاہم تشدد میں کوئی
کمی نہیں آرہی ہے اورالجزیرہ کی خبروں کے مطابق حمص،حماة ،ریف دمشق ،ادلب
،درعا،قابون ،سقیا،عزبین جیسے شہروں اورقصبوں میں مظاہرے جاری روزانہ جاری
رہتے ہیں اورمظاہرین کے خلاف شدیدکاروائیوں میں 22روزانہ تیس سے پچاس تک
لوگ مارے جارہے ہیں ۔حقوق انسانی کے اداروں کے مطابق اب تک
سیریامیںچارہزارکے قریب لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔”مصرٹیونس لیبیایمن کسی ملک میں
آزادی کے لیے اتنی قربانی نہیں دی گئی جتنی شام کے مسلمانوں نے دی ہے یہ
رمضان کا مہینہ جو گزرااس میں ہزاروں گھر تھے جن کے رہنے والوں کو نہ
افطارنصیب تھا نہ سحری ،حکومت نے پوری پوری آبادی کا آب ودانہ
بندکردیاتھا۔پانی کی سپلائی روک دی تھی بجلی کاٹ دی گئی تھی ،لوگوں کو
وضوکا پانی نصیب نہیںتھا ۔نہ دوانہ غذا،ہرگھر میں ماتم اورکہرام ،نہ کسی کو
راحت اورآرام واقعہ کربلاتاریخ کا انتہائی جاں گسل واقعہ ہے لیکن کرب
وبلاکی ایک جھلک شام کے شہروں اورقصبات میں آج بھی نظرآسکتی ہے۔”(حوالہ
بالا)
شامی حکومت اپنے موقف پر بضد ہے اوروہ عرب لیگ اورہم سایہ عرب ممالک پر پر
مغرب کی غلامی کا الزام لگاتی ہے۔
یہ بالکل واضح ہے عالمی سطح پر بھی اورمقامی سطح پر بھی شام تنہاہوچکاہے
۔یوروپی یونین نے شام پر عائدپابندیوں میں مزید سختی کردی ہے اوراب شامی
صدبشارالاسدکے قریبی رفقاءمیں 76افراد پابندی کا سامناہے ،ان لوگوں کے
اثاثے منجمدکردیے گئے ہیں اوربیرون ملک سفرکرنے کی بھی ان کو اجازت نہیں ہے
۔سلامتی کونسل میںشام کو روس اورچین کی حمایت حاصل ہے اورخطہ میں ایران اس
کا سب سے بڑا مددگارہے ۔مگرروس اورچین کی حمایت بھی بلامشروط جاری رہنے کی
کوئی ضمانت نہیں ہے۔اگرشام کی حکومت ہوش کے ناخن نہیں لیتی ہے اوراپنے
مخالفین کو یونہی کچلناجاری رکھتی ہے تو اسے ہمسایہ عرب ممالک کی طرف سے
پابندیوں کا سامناکرناہوگا۔دوسری طرف شام کے عوام بھی اپنی تحریک میں
اتناآگے جاچکے ہیں کہ صدربشارالاسدکی اقتدارسے علیحدگی سے کم ترکسی مطالبہ
پر وہ راضی نہ ہوں گے ۔فری سیرین آرمی دن بدن مضبوط ہوتی جائے گی ۔اورعوامی
تحریک میں ابھی جو اختلافات نظرآتے ہیں کامن کاز کی وجہ سے وہ بھی ختم
ہوجائیں گے ۔سردست وہاں تین محاذہیں،جن میں سب سے بڑا محاذ Syrian National
Council(SNC)کاہے ۔جس کے سربراہ یک شامی نژادفرنچ شہری برہان غلیون ہیں
،اورترجمان بسمة قدمانی ،دوسرابڑا گروپ اخوان المسلمون اوردوسری مذہبی
جماعتوں کا ہے ۔تیسراگروپ فوجی کمانڈروں کا ہے جنہوں نے اپنی آزادفوج فری
سیرین آرمی FSAتشکیل دے لی ہے جس میں چارکرنل اورتین میجرہیں ،جنرل ریاض
الاسد اس کی قیادت کررہے ہیں۔اورعرب ذرائع ابلاغ کے مطابق ایف ایس اے کے
پاس دس سے پچیس ہزارتک کی افرادی قوت جمع ہوچکی ہے اورسیریاکی فوج سے سپاہی
ٹوٹ ٹوٹ کربرابراس میں شامل ہورہے ہیں۔چوتھا بڑاگروپ National
Co-ordination Committee for Democratic Changeنامی اپوزیشن گروپ ہے
۔بشارالاسدکے ہاتھوں سے وقت نکلاجارہاہے اوراب کوئی دن جاتاہے جب ان کا
اوران کے ساتھیوں کا یوم حساب شروع ہوجائے گا۔شامی عوام کی قربانیاں رائگاں
نہیں جائیں گی ۔مسلمان فقہاءیہ کہتے ہیں کہ کفرکی حکومت برداشت کی جاسکتی
ہے مگرظلم کرنے والی حکومت نہیں۔اورموجودشامی موروثی آمریت کو تو نصف صدی
بیت چکی ہے ۔ |