لالو پرشاد 2004میں بھارتی ریلوے
کے وزیر بنے اور انہوں نے ایک سال کے اندراندربھارتی ریلوے کو نو سو کروڑ
یعنی ایک سو بیاسی ملین ڈالرمنافع کما کر دیااورحیران کن بات یہ ہے کہ
انہوں نے مسافروں کے کرائے میں کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ ریلوے کے ملازمین
کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا۔اور انہوں نے مال برداری کے سامان پر لگنے
والے ٹیکسوں میں بھی کمی کی۔اوسطاََ اس نےبھارتی ریلوے کو2004 سے2009تک
پچیس ہزار کروڑکا منافع کما کر دیا۔یہ تو تھی ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی
بات جو کہ ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا۔لیکن وہ آج ترقی کے تمام منازل طے کر
چکا ہے۔اور ترقی میں ہم سے کوسوں آگے ہے۔آئیے اب ہم ایک نظر اپنے ریلوے کے
نظام پر ڈالتے ہیں۔ہر کام میں نیت کی درستگی کا ہونا لازمی چیز ہے۔اور
پاکستان ریلوے میں اس کا کافی فقدان نظر آ رہا ہے۔
جب میں نے پاکستان کے ریلوے کے وزیرغلام احمد بلور کا یہ بیان سنا تھا کہ
میں نے حکومت سے کہہ دیا ہے کہ اگر ریلوے کو نہیں چلا سکتے تو اسے بند کر
دیں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ دنیا میں بہت سے ملک ایسے ہیں جو
ریلوے کے بغیر چل رہے ہیں۔لیکن شائد غلام احمد بلورصاحب یہ بھول گئے کہ
حکومت تو ہر کام میں ناکام ہو گئی ہے تو کیا ہر شعبے کو بند کر دیں۔اور جب
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بلور صاحب کو یہ کہا کہ ریلوے کا مسئلہ کافی
سنگین ہے۔آپ اس وزارت سے مستعفی ہو جائیں ہم آپ کو کوئی اور وزارت دے دیتے
ہیں تو غلام احمد بلورصاحب اس بات کا غصہ کر گئے اور کہا کہ اگر مجھے اس
وزارت سے ہٹا دیا گیا تو میں گھر چلا جاﺅں گا۔
غلام احمد بلورصاحب کو ہمارا یہ مشورا ہے کہ وہ ریلوے کو بند کرانے کی
بجائے خود گھر بیٹھ جائیں اور زندگی کے باقی ایام آرام سے گزاریں کیونکہ
وزارت ان کے بس کی بات نہیں۔اس بات سے بھی کسی کی نیک نیتی کا اندازہ لگا
سکتے ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کو اپنے وطنِ عزیزکی ترقی اور خوشحالی سے
زیادہ اپنی وزارتیں پیاری ہیں۔غلام احمد بلورصاحب جب سے ریلوے کے وزیر بنے
ہیں پاکستان ریلوے آئے دن مشکلات سے دوچار ہے۔کبھی انجن خراب تو کبھی ڈیزل
نہیں اور نہ ہی ملازمین کو دینے کیلیئے تنخواہیں ہیں اور ٹرینیں اپنے مقررہ
وقت سے دس سے پندرہ گھنٹے تاخیر سے پہنچتی ہیں۔اور مسافروں کو گھنٹوں
انتظار کرنا پڑتا ہے۔پاکستان ریلوے اس وقت اربوںروپے کے خسارے میں جارہا ہے۔
ٹرینیں کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔یہ بھاری سازوسامان
اور جنگی نقل و حمل میں بھی مفیدذریعہ سمجھا جاتا ہے۔اور اس کا سفر بسوں کی
نسبت زیادہ آرام دہ اور کم خرچ تصور کیا جاتا ہے۔قیام پاکستان کے وقت جو
کچھ ہمیں وراثت میں ملا ان میں ریلوے کے سب سے زیادہ اثاثے تھے۔اور ریلوے
کو سب سے زیادہ مضبوط اور منافع بخش ادارہ تصور کیا جاتا تھا۔قیام پاکستان
کے وقت ہمارے پاس آٹھ ہزار کلومیٹر کے قریب ریلوے ٹریک وراثت میں ملا۔اور
اب موجودہ دور میں ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کے قریب ٹریک بند ہو چکے ہیں۔ اس کے
علاوہ بہت ساری پٹڑیاں ضائع ہو چکی ہیں۔بہت سے جنکشنز بند کر دیے گئے
ہیں۔1975تک پاکستان ریلوے کافی مضبوط ادارہ تھا۔پورے ملک میں 300کے قریب
ٹرینیں چلاکرتی تھیں اور موجودہ دور میں 220کے قریب رہ گئی ہیں۔ایوب خان کے
دور میں ڈیزل انجنوں کو الیکٹرک بنانے کیلیئے منصوبے بنائے گئے۔اب ان میں
سے 120ٹرینوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔اس وقت پاکستان ریلوے پر
4ارب کے قریب قرضہ موجود ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق21بلین روپے مزدوروں اور
پنشنوں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔27دسمبر کو بینظیر کی شہادت کے بعد احتجاج کی
آڑھ میں پاکستان ریلوے کوبڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا۔ایک رپورٹ کے
مطابق کراچی‘سکھر ڈویژن میں 50کے قریب اسٹیشنز کو نظرِآتش کر دیا گیا اور
چند گھنٹوں میں ٹرینوں کو جلا دیا گیا اور پٹڑ یوں کوبھی شدید نقصان
پہنچایا گیا۔ہمارے ملک میں ریلوے کا نظام ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔اور
اگر ایسا غضب ہو گیا تو پورا پاکستان تو کیاامریکہ بھی اس کو بحال نہیں کر
سکتا۔ریلوے کی ناکامی میں بہت ساری چیزوں کا ہاتھ ہے ان میں سے تو سب سے
اہم تو کرپشن ہے۔حکومت کو پاکستان ریلوے کو کرپشن سے پاک کرنا ہوگااور
حکومت کو نیک نیتی کے ساتھ اس کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوگااور دوسری
بات یہ ہی کہ حکومت نے آج تک اس ادارے کی ترف توجہ نہیں دی۔ریلوے انجنوں کو
جان بوجھ کر خراب ڈیزل ڈال کر خراب کیا گیا ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ
ریلوے کو پرائیویٹ سیکٹر بنا دی جائے جیسا کہ ptclکو کیاگیا ہے۔وہ اس وقت
ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔دوسرا اہم طریقہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کو چین سے
مدد لینی چاہیئے کیونکہ وہ ریلوے میں ترقی یافتہ ملک ہے۔
ریلوے وزیر غلام احمد بلور کا یہ بیان کہ ریلوے کو بند کر دینا چاہیئے اس
لیئے حیران کن نہیں ہے کہ وہ موجودہ حکومت کا حصہ ہیں جو کہ بنیادی طور پر
ناکام ہو چکی ہے اور کرپشن ‘لوٹ ماراور عوام دشمن حکومت ہے۔اس حکومت میں
عوام کی فلاح و بہبود‘ترقی و خوشحالی کا کوئی سامان موجود نہیں ہے۔یہ حکومت
صرف اپنی مدت پوری کرنا چا ہتی ہے چاہے ملک کا کچھ بھی ہو جائے ان کو کوئی
فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے عوام کو چاہیئے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے ساتھ
ساتھ ملکی اثاثوں کی طرف بھی توجہ دیں کیونکہ ہمیں اسی ملک میں رہنا
ہے۔ہمارے نہ ہی بیرونِ ملک اثاثے ہیں اور نہ ہی ہمارے بنک ڈالروں سے بھرے
ہیں البتہ ہمارے ساستدانوں کے نہ صرف بیرونِ ملک اثاثے ہیں بلکہ سوئس بنک
بھی ڈالروں سے بھرے ہیں یہ وہ رقم ہے جو ہمارے وطنِ عزیز سے لوٹی گئی ہے۔اب
ہمارا ان سیاستدانوں پر کوئی بھروسہ نہیں رہا۔ |