کرکٹ کا کھلاڑی اور سیاست کے کھلاڑی

بظاہر عمران خان پہلے کی نسبت بہت تیزی سے اپنا سفر طے کرتے جا رہے ہیں ۔سمجھنا بہت آسان بھی ہے اور نہ سمجھنا ہو تو بہت مشکل،حالیہ کچھ دنوں کے بیانات تو بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے ،لاہور مینارِپاکستان کے بقول تحریک ِانصاف تاریخی جلسہءعام میں ان کی گفتگوخصوصاً کشمیر کے مﺅقف پرواضع تھی مگراب ان کا بیان کہ کشمیر کے مسئلہ کو عوام پر چھوڑدینا چاہیے وہ اس مسئلہ میں ذرداری کے ساتھ ہیں ۔خان صاحب واقعی کرشماتی شخصیت کے حامل ہیں اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے اور ان کی بہت ساری پالیسیز پر لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کی نیک نیتی اور پاکستان سے جنون کے رشتے اور ایمانداری کی داد دئیے بغیربات کو آگے بڑھانایقیناقلم کی کرپشن ہوگی جسے ہر جماعت نوٹ کرتی ہے مگرتحریکِ انصاف ایسے میںصاحبِ قلم کاخوب شجرہ نسب بنانا بھی جانتے ہیں ۔خان صاحب گزشتہ قریباًپندرہ سال سے پاکستان اور اقبال کے شاہینوں کی بات کرتے اور خود نوجوانوں کی آواز بنتے چلے آرہے ہیں ۔عمران خان کا کہنا ہے کہ کرکت میں ان کی تربیت یہ ہے کہ مخالف کہیں نہ کہیں غلطی کرتا ہے ۔خان کی ایک اور صفت کہ سیدھی اور بے لاگ بات کہہ جاتا ہے۔اثاثے ڈیکلئےر کروان کا مشورہ ہے کیونکہ کا کہنا ہے کہ اس وقت دونوں بڑی پارٹیاں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون اپنے اثاثے ظاہر کریں تو وہ ان سے مفاہمت کے لئے تیار ہیں ۔تحریکِ انصاف کی نون لیگ سے مفاہمت ہو نہ ہومگر ان کو جنوبی پنجاب میں بھی خوب محنت کرنی پڑے گی وہاں کی چھیالیس نشستوں تک اپنا اثرورسوخ بڑھانا بھی محنت طلب کام ہے ابھی بھی گو کہ خان نے دیہی سندھ کے لئے شاہد ملتان کے شاہ محمود قریشی پر نظریں جما رکھی ہیں اوران کو دیہی سندھ کی سیاست کے لئے مناسب دیکھ رہے ہیں ۔عمران خان قبل از وقت ہی شاہ محمود قریشی کی تحریک ِ انصاف میں شمولیت کی دہائی دے چکے ہیں ۔

14نومبرکو شاہ مخمود قریشی نے اپنی پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو کر اپوزیشن کو واضح پیغام بھی دے رہے تھے کہ آپ بھی مستعفی ہو جائیں اور عوام سے رجوع کریں ۔ظاہر سی بات ہے سیاست کے اکھاڑے میں اترا ہر شخص ہی اقتدار کے خواب دیکھتا ہے اور خصوصاً جس نے ایک دفعہ اقتدار میں ملی کسی کرسی کے مزے لے لئے ہوں وہ دوبارہ کسی بھی صورت اقتدار میں جانا چارہا ہوتا ہے ۔شاہ محمود فرماتے ہیں کہ pppبھٹو کے ویژن سے ہٹ چکی ہے ،چار سال کا دورانیہ ایک ساتھ گزار کراور اسی منشورکے اقتدار میںوزارتِ خارجہ جیسی اہم نشست پر رہ کر ان کو شایداب پیپلز پارٹی کے گم ہوتے سائے سے پیغام مل گیا ہے ۔اسی لئے شاہ جی نے استعفیٰ دیتے ہی ایک طرف بیان دے کر اپوزیشن کو اور دوسری طرف خان کو اپنا پیغام بھی سنا دیا ہے ۔مستقبل میں ملتان کے دیگرگدی نشینوں کے ساتھ موصوف کو بھی کچھ کڑوے کسیلے سوالات کاسامنا کرنا پڑے گا ۔اور یہ بھی واضع کرنا پڑے گا کہ جس وقت وہ اقتدار میں آئے تھے پیپلز پارٹی تھی بلکہ پوری طرح بھٹو صاحب کے ویژن پرعمل پیرابھی تھی اور جب انہوں نے پارٹی اور اقتدار چھوڑاتو اس وقت پیپلز پارٹی زرداری لیگ کیسے بن چکی تھی؟ اور یہ بھی واضح کرناہوگاکہ کب سے حسِ ذمہ داری نے انگڑائی لی ہے اور انہیں ق لیگ سے اتحاد میثاقِ جمہوریت کی نفی دیکھائی دینے لگاہے؟ کچھ بھی ہو شاہ جی جاتے جاتے زرداری کو یہ پیغام ضرور دے گئے ہیں کہ
کچھ مجبوریاں تھیں میر ی”میں“ بے وفا نہیں
شاید ہو لہجہ تلخ پر ”میں“ برا تونہیں

اور دوسرا پیغام وہ 27نومبر کو گھوٹکی میں جلسہ کر کے دیں گے ۔جبکہ وہ قومی اسمبلی کی نشست این اے 148سے منتخب ہوئے تھے ۔جبکہ ملتان کی سےاست سے واقف ِ حال لوگ کا کہنا بھی بجا ہے کہ شاہ جی صرف اپنے حلقہ ءانتخاب تک ہی محدود رہتے ہیںملتان کے دیگر علاقوں میں اپنے پر پھیلانے کی کوشش نہیں کرتے مگر اب کو وہ سندھ کے دیہی علاقوں تک پر کیسے ،کیوں اور کس لئے پھیلا رہے ہیںیہ آنے والا وقت بتائے گا۔ 27نومبر کو ہی موصوف عمران خان کی تحریک ِ انصاف میں یا پھر مسلم لیگ نون کے دامن میں آئیں گے۔

اقتدار کے مزے سے آشنا ایک بار پھر چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے اور اپنی ناسودہ آرزوﺅں کی تکمیل کے لئے تحریک ِ انصاف میں تحرک بپا کرنے والوں میں ایک نام چکوال سے فیض ٹمن کابھی ہے اگر وہ بھی اپنے رابطوں کو ظاہر کرتے ہوئے تحریک ِانصاف میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو ٹمن صاحب بھی 2008میں نون لیگ کے ٹکٹ سے کامیاب ہو کر آئے تھے تاہم بقول ان کے پارٹی قیادت سے اختلافات کے ایشو پر انہوں نے استعفیٰ دیاتھا ۔مگر اصل کہانی کچھ اور ہے کہ ان کہ استعفیٰ کی اصل وجہ ان کی جعلی ڈگری تھی۔ان کے قریب قریب ہی نئے نئے تحریکِ انصاف میں شامل ہونے والے ضلع اٹک میں ملک لال خان کے بیٹے ملک سہیل لمڑیال نے بھی خود حلقہ این اے 58سے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا اور 59ہزار 726ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ ان کے مقابل چوہدری پرویز الہی 70ہزار 943ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے ۔اسی طرح ساہیوال سے رائے عزیز احمد کی تحریک ِانصاف میں شمولیت بھی خود عمران خان کے لئے خوش آئند ضرور ہے مگر وہ بھی تو قاف لیگ سے وفا تبدیل کر کے آئے ہیں ۔ویسے بے وفاﺅں کو توخان خوب ہی جانتے ہیں ۔یہ سلسلہ چلتے ہوئے کرک کی سیاست تک جاتا ہے جہاں پر قومی اسمبلی کے حلقہ 15سے 2002میں عمران کے مد مقابل پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑنے والے مسود شریف ہیں جواُس الیکشن میں ناکام رہے تھے اور وہ ماضی میںایک جاسوسی ادارے کے سربراہ بھی رہے ہیں اور اس سے پہلے وہ شریف برادران سے بھی رابطے میں رہ چکے ہیں ۔انہی کے حلقہ سے لال مسجد کے سانحہ میں شہرت حاصل کرنے والے شاہ عبدالعزیز متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ سے 31ہزار325ووٹ لے کامیاب ہوئے تھے ۔تاہم یہی مسعود شریف اُس وقت ابنِ حاکم کو بھی شریف کہا کرتے تھے جو اِس الیکشن میں 17712ووٹ اور عمران خان 9ہزار 972ووٹ حاصل کر پائے تھے جب کہ اب یہ دونوں ایک ہیں اور اہل کرک کا واضح اعلان آج بھی شاہ عبدالعزیز کے گرد نظر آتا ہے ۔خود شاہ عبدالعزیز اس کی وجہ یہی بتاتے ہیں کہ ہم یک جائی ہیں ہر جائی نہیں۔

اگر دیکھا جائے تو ادھورا سچ بول کر پورا نفع حاصل کرنے والے یہ بازی گر بڑے آرام سے عوام کو بے وقوف بنا جاتے ہیں ۔خیبر پختون خواہ سے سابق ومرحوم وزیراعلیٰ راجا سکندر زمان کے بیٹے نے بھی تحریک ِ انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہے جس دن انہوں نے عمران خان سے ملاقات کر کے شمولیت کا اعلان کیا تھا اسی دن ہری پور سے ہی نوجوانوں نے مایوسی کا اظہار کیا تھا جو ظاہر ہے راجا عامر زمان کی سیاست سے نالاں تھے اگر وہ ناراض نہ ہوں تو
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد ِ دل میں سوا ہوتا ہوں

یادش بخیرعامر زمان گزشتہ الیکشن میں بھی شکست کا سامنا کر چکے ہیں اور ان کے کزن گزشتہ انتخابات میں جمیعت علماءاسلام کے ٹکٹ سے صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے اور ذرائع کے مطابق وہ بھی اپنی وفائیں تبدیل کرنے والے ہیں ۔لاہور سے تحریک ِانصاف میں شامل ہونے والے ایک میاں اظہر بھی ہیں جو بظاہر مضبوط امیدوار ہیں جن پر کرپشن کے الزامات نہ سہی مگر پرویزی دور میں انٹیلی جینس اداروں نے مسلم لیگ نون سے مسلم لیگ ق کے جنم کے لئے ان کا استعمال کیا تھا اور پھر وہی ہوا ق لیگ نے بھی use and throw والافارمولا اپنایا اور وہ اس حد تک مایوس ااور غیر مقبول ہوئے کہ الیکشن ہار گئے ۔جب کہ اب تحریکِ انصاف اعلان کرتی ہے کہ میاں اظہر میاں شہباز کے بیٹے حمزہ شہباز کو شرافت سے آئندہ الیکشن میں میدان سے بھاگنے پر مجبور کر دیں گے ۔یہ تو آنے والا ہی فیصلہ کرے گا کہ لاہور و پنجاب کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے خادم اعلیٰ کے بیٹے آئندہ انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں یا میاں اظہر برحال عمران خان کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ وہ کرکٹ کے کھلاڑی ہیں اور یہ سیاست کے کھلاڑی ہیں ۔
Azmat Ali Rahmani
About the Author: Azmat Ali Rahmani Read More Articles by Azmat Ali Rahmani: 46 Articles with 57999 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.