مجھے یہ بات کافی محسوس ہوئی کہ
زیارتِ حرمین شریفین کے سفر میں بے تابی کا عنصر بے صبری میں بدل جاتا ہے
کیونکہ ایک لمحہ سالوں پر محیط معلوم ہوتا ہے تاہم کبھی کبھی بے تابی میں
ادب کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا سخت افسوس کا باعث بن جاتا ہے۔
انتظار کی گھڑیاں اپنی ڈگر بیت رہی تھیں کہ اچانک زائرین کی اچھی خاصی
تعداد آ گئی اور تمام سیٹیں پُر ہو گئیں۔فارِد حسنین اور اہلیہ تو پہلے ہی
سو چکے تھے تاہم بس روانہ ہوتے ہی میرے سمیت زیادہ تر مسافر تھکاوٹ کی وجہ
سے نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
اِک عجیب قسم کی مہک، عظمت و جلال آمیز احساس اور روح کی گہرائیوں میں
اُترنے والی ناقابل ِ بیان کیفیت نے مجھے نیند کی وادی سے بیداری کے شہر
میں پہنچا دیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے میرا بدن خلاء میں ہے جہاں نور کی لپیٹ
نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ بس مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پَٹ سے
آنکھیں کھول دیں۔ روشنیاں برساتے مینار، نور چھڑکتے دَر و دیواراور عظمتوں
سے معمور فضائ، دل نے فوراً گواہی دی، حرمِ کعبہ تیرے سامنے ہے۔ اللہ اکبر!
جلال و ہیبت کے باعث میری پلکیں خودبخود مل گئیں اور اِسی انجانے میں اُن
کا وضو بھی ہو گیا۔
دل مچلا تو آنکھوں کی بے تابی سے رہا نہ گیا اور پلکوں کے پردے ایک بار پھر
اُٹھ گئے۔ لبیک اللھم لبیک کی صدائیں خودبخود ہونٹوں سے پھسلنے لگیں اور
نظریں حرم ِ کعبہ کے دَرودیوار چومنے لگیں۔ گاڑی اترائی میں اُتر رہی تھی
پھر سامنے ایک بورڈ پر نظر پڑی جس پر ''شارع ابراہیم خلیل'' لکھا ہوا تھا،
اُسی سڑک پر گاڑی مُڑ گئی۔ تقریباً چار پانچ سو گز آگے جانے کے بعد بس نے
یو ٹرن لیا اور سڑک کنارے کھڑی ہو گئی۔ اِس کے ساتھ ہی بس کی اندرونی
لائٹیں جل اُٹھیں اور ڈرائیور نے بس کا دروازہ کھول دیا۔
فارِد حسنین اور اہلیہ بھی جاگ گئے جبکہ باقی ماندہ مسافر بھی بیدار ہو
گئے۔ دو تین کارکن بس میں داخل ہوئے اور تمام مسافروں سے ہوٹل واؤچر طلب
کرنے لگے۔ سب نے ہوٹل واؤچر کی ایک ایک کاپی طلب کرنے والے کو دے دی۔
تقریباً دس پندرہ منٹ تک آپس میں مشورہ کرنے کے بعد اُنہوں نے مسافروں کو
نیچے اُتارکر ہوٹل میں بھیجنا شروع کر دیا۔ میں خاموشی سے بیٹھا رہا حتیٰ
کہ زیادہ تر مسافر نیچے اُتر گئے۔ بالآخر ایک نوجوان نے میرا نام پکارا تو
میں اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس کے ساتھ بس سے نیچے اُتر گیا۔ سامان ایک جگہ
رکھنے کے بعد میں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک واقف ِ حال نوجوان تیزی سے
میرے پاس آ گیا اور خود ہی سامان اُٹھاتے ہوئے بولا،مشکل نہیں ہے(یہ زیادہ
تر عرب ریاستوں میں ''نوپرابلم'' کے طور پر مستعمل ہے) آپ سے دس ریال لے
لوں گا۔بڑا بیگ اُس نے اُٹھا لیا جبکہ چھوٹا بیگ میں نے پکڑ لیا اور ہم سب
واؤچر والے نوجوان کے پیچھے چل پڑے جو ایک گلی میں داخل ہوا۔ تقریباً
درمیان میں ایک سبز دروازے سے وہ نوجوان اندر داخل ہوا۔ یہ کسی ہوٹل کا
استقبالیہ تھا۔ اُس نے ایک چابی ہمیں تھما دی۔ تیسرے فلور کا دوسرا کمرہ،
اُس کے لہجے نے بتا دیا کہ یہ بنگالی النسل ہے جو اعرابی کے روپ میں ہے۔
میں نے لفٹ میں سامان رکھا تو فارِد حسنین بھی دوڑ کر لفٹ میں گھس گیا،
سامان کے ساتھ ہم تیسرے فلور پر پہنچ گئے۔ مطلوبہ کمرے کا نمبر دیکھ کر ہم
اندر داخل ہوئے ، میں نے فوراً اے۔سی آن کیا مگر کامیابی نہ ہو سکی۔ دروازے
کے ساتھ لگے ہوئے انٹرکام سے میں نے استقبالیہ پر رابطہ کیا تو جواب ملا کہ
دروازے کے قریب سرخ رنگ کا ایک بٹن ہے ، پہلے اُسے آن کریں گے تو اے۔سی آن
ہو گا۔ چنانچہ میں نے اُسے آن کر کے اے۔سی چلا لیا۔ یہ بات قابل ِ ذکر ہے
کہ اگر ہوٹل کے کمرے میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہو تو استقبالیہ سے بات
کرنے پر حل ہو جاتا ہے جبکہ بعض لوگ اِس معاملہ میں پریشانی کا شکار ہو
جاتے ہیں۔ میں اور اہلیہ تو ایک طرف فارِد حسنین بھی تھکاوٹ کی وجہ سے چپ
چاپ لیٹ گیا۔ وقت دیکھا تو رات کے تقریباً بارہ بج رہے تھے۔ ذرا سی دیر میں
ہی کمرہ کافی ٹھنڈا ہو گیا، میری نظر اہلیہ اور فارِد پر پڑی تو دونوں
ٹانگیں کمبل میں گھسائے نیند کی وادی میں پہنچے ہوئے تھے۔ میں نے سوچا کہ
تھوڑی دیر سستانے کے بعد مناسک ِ عمرہ کی ادائیگی کے لیے حرم شریف کی طرف
چلے جائیں گے ۔
تھکاوٹ نے وقت کا پتہ ہی نہیں چلنے دیا اور فجر کے وقت میری آنکھ کھلی تو
فوراً اُٹھ بیٹھا۔ جلدی سے وضو کیا اور نماز ادا کرنے کے بعد اہلیہ کو نیند
سے بیدار ہونے کا کہہ کر میں حرم شریف کی طرف چلا گیا۔ اندھیرا آہستہ آہستہ
مٹتا چلا جا رہا تھا اور روشنی اُس کی جگہ لے رہی تھی۔ میں آہستہ آہستہ
چلتا ہوا نسبتاً ایک کھلی جگہ پر پہنچ گیا جسے دیکھتے ہی میرے دل نے کہا کہ
یقینا یہی ''کبوتر چوک'' ہے جو کافی معروف ہے۔ اِکا دُکا کبوتر بھی دکھائی
دئیے۔ مجھے اپنے سامنے لوگوں کا ایک جم غفیر آتا ہوا دکھائی دیا جو نماز کی
ادائیگی کے بعدحرم شریف سے واپس آ رہے تھے۔ ہر قوم، رنگ اور نسل کے افراد
میں خاصی تعداد حالت ِ احرام میں تھی۔
مجھے اپنے سامنے حرم شریف نظر آنے لگا۔ ہونٹوں سے بلاساختہ لبیک اللھم لبیک
نکلنا شروع ہو گیا۔ دل و دماغ جلال و عظمت ِ الٰہیہ سے لبریز اِک عجب کیفیت
کے حصار میں تھے۔ میری نظریں مسلسل حرمِ کعبہ کے دَرودیوار پر مرکوز تھیں
جبکہ قدم آہستہ آہستہ فاصلہ طے کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں حرم شریف کے صحن
کی حدود شروع ہوگئی۔
صحن ِ حرم میں قدم رکھتے ہوئے درج ذیل دعا پڑھی:
اللّٰھُمَّ اِنَّ حَرَمُکَ وَ حَرَمَ رَسُوْلِکَ فَحَرِّمْ لَحْمِیْ وَ
دَمِیْ وَ عَظَمِیْ عَلٰی النَّارِ اَللّٰھُمَّ اٰمِّنِیْ مِنْ عَذَابِکَ
یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ وَ اجْعَلْنِی مِنْ اَوْلِیَآئِکَ وَ اَھْلِ
طَاعَتِکَ وَ تُبْ عَلَّی اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَابُ الرَّحِیْمُ
اے اللہ! یہ تیرا اور تیرے رسول پاک کا حرم ہے پس میرے گوشت، خون اور ہڈیوں
کو آگ پر حرام کر دے۔ اے اللہ! مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھ۔ جس روز تو
اپنے بندوں کو اٹھائے گا اور مجھے اپنے ولیوں اور اطاعت گزاروں میں شامل
کردے اور مجھ پر نظر ِ کرم فرما۔ بے شک تُو توبہ قبول کرنے والا(اور)بڑا
رحم کرنے والا ہے۔
پھر رب العزت کی بارگاہ میں ابواب ِ رحمت کھولنے کے لیے دعا کی:
بِسْمِ اللّٰہِ وَالصَّلٰوةُ وَ السَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ
اللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ
اور ساتھ ہی اعتکاف کی نیت بھی کر لی:
نَوَیْتُ سُنَّتَ الْاِعْتِکَاف
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین تھی کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے وقت جو دعا
مانگی جائے، بارگاہِ ربوبیت میں قبول ہوتی ہے چنانچہ میں نے نظر جھکا لیں
اور رفتہ رفتہ حرم شریف کی عمارت کے اندر داخل ہو کر آگے بڑھتا گیا۔ لبیک
اللھم لبیک کی صدائیں مسلسل وردِ زباں تھیں۔میری کیفیت اُس تھکے ہارے پیاسے
جیسی تھی جس نے اِک مدت سے پانی دیکھا تک نہ ہو اور اچانک دریا سامنے نظر آ
جائے لہذا میں تھا اور بے تابی و بے چینی کا اِک جہاں تھا اور میں دنیا و
مافیہا سے بالکل بے خبر تھا۔ ساری توجہ بیت اللہ شریف کی طرف تھی۔ دل کی
دھڑکن بے ترتیب، سوچ کے تمام زاویے قسمت کے نقطہ ء عروج پر مرکوز اور
گنہگار قدم رُکتے بڑھتے لڑکھڑاتے آگے لیجا رہے تھے۔ بالآخر مجھے محسوس ہونے
لگا کہ صحن قریب ہے اور طواف کرنے والوں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔ جب
میں عمارت کی حد پر صحن کے کنارے کے قریب پہنچ گیا تو ایک دم نظر اُٹھالی۔
میرا وجود ساکت و جامد، سانس تھما ہوا، نظر خانہ کعبہ شریف پر جمی ہوئی،
سوچ کے سب دریچے بند، ذہن کا ہر دروازہ مقفل اور میں تو پلکیں جھپکنا بھی
بھول گیا ہاں مگر اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ ہی پہلی دعا، یا اللہ! میری ہر
دعا قبول فرما لینا جس میں دنیا و آخرت کی بہتری ہو، پھر اگلی دعا، مولائے
کریم! پیرومرشد سے نسبت قائم رکھنااور وہ مجھ سے راضی رہیں اور اگلی دعا
اہل و عیال، رشتہ دار، بیلیوں سمیت سب کی بخشش و مغفرت پھر الگ سے کئی
دعائیں اور ہر دعا میں آنکھوں نے بھی بہت ساتھ دیا، اشک ہائے ندامت احساس ِ
جرم و عصیاں کی ترجمانی کر رہے تھے جبکہ زبان شاید دریائے رحمت میں غوطہ
زَن تھی اِسی لیے مسلسل مصروفِ دعا رہی، بس یونہی تھا کہ دربارِ ربوبیت کے
سامنے اپنے کریم پروردگار جلشانہ' سے مانگ رہے ہو تو جھجک کیسی؟ آج سب کچھ
ہی مانگ لو، بلکہ مانگنا کیا ہے ، بس لے ہی لو۔ مجھے آج بھی یاد نہیں ،
نجانے کتنی دیر تک میں ایک ایسی کیفیت میں ڈوبا رہا کہ جسے بیان کرنے کے
لیے نہ تو الفاظ ہیں اور نہ ہی ہمت۔
میں نے جی بھر کر خانہ کعبہ شریف کی زیارت کی۔ بیت اللہ شریف کے اوپر چھوٹے
چھوٹے پرندوں کی ایک کثیر تعداد چہچہاتے ہوئے چکر لگا رہی تھی۔ سورج شاید
نکلنے والا تھا مگر موسم کی دلربائی اپنے جوبن پر تھی۔آسمان صاف مگر نہایت
خوبصورت لگ رہاتھا۔ دور خلاء میں دیکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ بیت اللہ
شریف کے عین اوپر بیت ِ معمور ہے جس کا طواف فرشتے ہر وقت کرتے رہتے ہیںاور
اِسی پر میری توجہ طواف ِ کعبہ کی طرف مبذول ہو گئی۔
میں جس دروازے سے صحن ِ حرم یعنی مطاف میں داخل ہو رہا تھا وہاں میرے دائیں
ہاتھ کچھ فاصلے پر بیت اللہ شریف کا حجر ِ اسود والا کونہ دکھائی دے رہا
تھا۔ یہی وہ جگہ تھی کہ جہاں سے مجھے طواف کا آغاز کرنا تھا۔ چنانچہ میں
اپنے سیدھے ہاتھ مڑ گیا اور خانہ کعبہ شریف اب میرے بائیں ہاتھ پر تھا۔
اِک گوناں گوں اطمینان و سکون کے ساتھ چلتے ہوئے میں حجر ِ اسود کے عین
متوازی پہنچ گیا۔ لبیک اللھم لبیک اِس دوران میرے وردِ زبان رہا۔ میں نے
فرش کی طرف دیکھا تو وہاں کوئی پٹی نظر نہ آئی۔ پھر میں نے دائیں بائیں
دیکھا تو سیدھے ہاتھ نسبتاً اونچائی پر سبز روشنی والی ٹیوب لائٹس جلتی
ہوئی نظر آئیں تو سمجھ آئی کہ اب یہ نشانی مقرر ہے تاہم یہ ضرور سوچا کہ
کالی پٹی کا نشان کیوں ختم کر دیا گیا ہے۔ بہرحال میں حجرِ اسود کے تقریباً
متوازی مگر تھوڑا بائیں طرف خانہ کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوگیا،
احرام کی اوپر والی چادر کا دایاں سرا پکڑ کر اُسے اپنے سیدھے بازو کے نیچے
سے نکالا اور بائیں کندھے پراچھی طرح ڈال دیا۔ اِسے اضطباع کہتے ہیں۔
دورانِ طواف مردوں کے لیے اضطباع کرنا ضروری ہے ۔ پھر میں نے طواف کی نیت
کی۔ (طواف کی نیت کے ساتھ ہی لبیک اللھم لبیک پڑھنا ترک کر دیا جاتا ہے)
اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدَ طَوَافَ بَےْتِکَ الْحَرَامِ فَےَسِّرْہُ لِیْ
وَ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ سَبْعَة اَشْوَاطٍ لِلّٰہ تَعَالٰی عزّوَجَل
اے اللہ! میں تیرے مقدس گھر کا طواف کرنے کی نیت کرتا ہوں۔ پس تو اسے مجھ
پر آسان فرما دے اور میری طرف سے سات چکروں کے(طواف)کو قبول فرما۔ جو محض
تجھ یکتا عزوجل کی خوشنودی کے لئے(اختیار) کرتا ہوں۔
طواف کی نیت کرنے کے بعد میں حجر ِ اسود کے بالکل سامنے آ گیااور پھر حجر
اسود کا اِستِلام کیا یعنی حجر اسود کے عین سامنے دونوں ہاتھ کانوں تک اس
طرح اٹھائے کہ ہتھیلیاں حجر اسود کی طرف رہیں اور درج ذیل تکبیر تحمید کے
ساتھ ہاتھوں کو چوم لیا۔
بِسْمِ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ وَالصَّلٰوةُ وَ
السَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ
اِس کے بعد میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ خانہ کعبہ شریف کی طرف بڑھنے لگا
یہاں تک کہ طواف کرنے والے لوگوں کے ساتھ مل گیا۔
اللّٰھُمَّ اِےْمَاناًبِکَ وَ اِتَباعًا لِسُنَّةِ نَبِّیِّکَ
اِس کے ساتھ ہی میں نے اپنا رُخ دوبارہ پہلے کی طرح تبدیل کر لیا یعنی خانہ
کعبہ شریف میرے بائیں ہاتھ پر تھاچنانچہ میں رمَل (یعنی اکڑ کر کندھے
ہلانا)کرتے ہوئے طواف کرنے والوں کے ساتھ ساتھ طواف کرنے لگا۔
دورانِ طواف میں تسبیح و تحمید کرتا رہا۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَ لَآ اِلَہٰ اِلاَّ اللّٰہُ وَ
اللّٰہُ اَکْبَرُ وَ لاَ حَوْلَ وَ لاَ قَوَّة اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ
الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَےِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ
سَےِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ بَارِک وَسَلَّمْ
دورانِ طواف خانہ کعبہ شریف کی طرف چہرہ نہیں کیا جاتا لیکن دل کنکھیوں سے
دیکھنے پر بار بار زور دیتا رہا۔ طواف میں بھی اِک عجیب سماں نظر آیا۔ ہر
ایک اپنے رب کی بارگاہ میں مست و بیخود ہو کر طواف کرنے میں مصروف تھا۔
مردوزَن گرد و پیش سے بے خبراور اپنی ہی دُھن میں طواف کیے جا رہے تھے۔
رمَل کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ بار بار رَش میں آ جانے کی وجہ سے اسے
ترک کرنا پڑتا ہے جو کہ جائز بھی ہے۔ ہمارا پروردگار کتنا عظیم و کریم ہے
اِس کا اندازہ ہمیں ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ اپنے بندوں کے لیے اپنے حقوق میں
نرمی کی گنجائش نکال دیتا ہے مگر جہاں حقوق العباد کی بات آ جائے تو وہاں
اُس کی مخلوق زیادہ اہم ہو جاتی ہے چنانچہ ایسا معاملہ بندوں کو ہی سونپا
جاتا ہے۔ جلد ہی طواف کا پہلا چکرمکمل ہو گیا اور حجر ِ اسود قریب آ گیا۔
میں نے دوسرے چکر کے لیے اِستِلام کیا اور پھر طواف میں مشغول ہو گیا۔
دورانِ طواف میں نے بعض بچے اور نوجوان دوڑ لگاتے ہوئے دیکھے۔ وہ آپس میں
ریس لگا رہے تھے۔ اِسی طرح ایک اور بات جسے میں نے بہت زیادہ محسوس کیا وہ
یہ تھی کہ جب کہ لوگ اپنا طواف مکمل کر لیتے ہیں یا حطیم (خانہ کعبہ سے
ملحقہ ایک بیضوی حصہ جسے خانہ کعبہ کا حصہ شمار کیا گیا ہے)سے واپسی کرتے
ہیں تو طواف کرنے والوں کو روکتے، صفوں کو چیرتے اور نظم و ضبط کو تہہ و
بالا کرتے ہوئے واپس آ رہے تھے۔ یہ بات انتہائی نامناسب معلوم ہوئی کیونکہ
باہر نکلنے کا ایک بہترین طریقہ یہ تھا کہ جب آپ حطیم، ملتزم (حجر ِ اسود
اور خانہ کعبہ شریف کے دروازہ کے مابین تقریباً سات آٹھ فٹ دیوار کا حصہ)
یا خانہ کعبہ شریف کے دروازے سے واپس آئیں تو طواف کرنے والوں کے ساتھ چکر
لگانے کے انداز میں شامل ہو جائیں اور پھر ایک ایک صف اپنے دائیں ہاتھ
کھسکتے چلے جائیں ، اِس طرح آپ سہولت سے باہر نکل سکتے ہیں جس میں کسی کو
آپ کی وجہ سے تکلیف بھی نہیں ہو گی۔
میں نے دیکھا کہ بعض لوگ اپنے گروپ کے ہمراہ اکٹھا طواف کر رہے ہیں جس میں
ایک راہنمائی کرتے ہوئے نسبتاً بلند آواز سے طواف کی دعائیں پڑھ رہا تھا
جبکہ دوسرے لوگ اُس کے پیچھے پیچھے دعائیہ الفاظ دہرا رہے تھے۔ یہ طریقہ
اچھا معلوم ہوا مگر بعض ایسے افراد بھی نظر آئے جو کچھ زیادہ ہی بلند آواز
سے دعائیں پڑھ رہے تھے چنانچہ اُن کی وجہ سے زبانی دعائیں پڑھنے والے اپنی
توجہ مرکوز نہیں رکھ سکتے اور پریشانی کا سامنا کرتے ہیں۔ اِس صورت میں کسی
کتاب یا رسالہ وغیرہ سے دیکھ کر دعائیں پڑھنے والے زیادہ مطمئن تھے۔ وہ
اپنے گردو پیش سے بے خبر دعائیں پڑھتے ہوئے طواف کیے جا رہے تھے۔ چنانچہ
معلوم یہ ہوا کہ اگر انفرادی طور پر طواف کریں تو کسی کتاب یا رسالہ سے
دیکھ کر دعائیں پڑھتے رہنا زیادہ بہتر ہے تاہم اگر کسی گروپ کی صورت میں
طواف کریں تو پھر گروپ لیڈر کے پیچھے پیچھے دعائیہ الفاظ دہرانا بھی مناسب
ہے۔
طواف سے قبل حجر ِ اسود ، مقامِ ابراہیم، حطیم، مطاف، ملتزم وغیرہ کی اچھی
طرح پہچان کرنا ازحد ضروری ہے کیونکہ مجھے بعض ایسے افراد بھی نظر آئے جو
حجر اسود کے سامنے اِستِلام کرنے کی بجائے رُکن یمانی کے سامنے اِستِلام کر
رہے تھے۔ بعض لوگ حجر ِ اسود کا اِستِلام کچھ اِس انداز میں کر رہے تھے
جیسے حجر ِ اسود کو ایک ہاتھ سے سلام کر رہے ہوں یا ہاتھ لہراتے ہوئے حال
چال پوچھنے کے انداز میں اِستِلام کرتے ہوئے نظر آئے۔ یہ سب انداز غلط ہیں۔
اِستِلام کا درست طریقہ صرف یہی ہے کہ دونوں ہتھیلیاں اُٹھا کر حجرِ اسود
کی طرف اشارہ کیا جائے اور ہاتھ چوم لیے جائیں۔ بعض ایسے سادہ لوح بھی نظر
آئے جو حجر ِ اسود کی سیدھ میں مطاف کے کنارے اور حرم شریف کے برآمدے کی
دیوار پربطور نشانی نصب کردہ سبز روشنی والی ٹیوب لائٹس کو ہی اِستِلام کیے
جا رہے تھے۔ الغرض معلومات کی کمی کے بہت سے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔
طواف ِ کعبہ ایک ایسا عمل ہے جو فطرت کا آئینہ دار ہے۔ اگر غور کیا جائے تو
اِس حقیقت کے بہت سے پردے اٹھتے ہیں کہ طواف ِ کعبہ صرف دائیں سے بائیں ہی
کیوں کیا جاتا ہے۔ یہ بائیں سے دائیں بھی ہو سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہے
چنانچہ اِس کے بارے میں چند نکات آئندہ ماہ قارئین کی خدمت میں پیش کیے
جائیں گے۔ انشاء اللہ |