زیارت ِ حرمین شریفین کے مبارک سفر کی تفصیلات اور کیفیات - قسط نمبر 1

کرم کی باتیں

مجھے اپنی زندگی کئی ادوار میں تقسیم نظر آتی ہے ، چھوٹی چھوٹی خواہشات سے لے کر بڑی بڑی دعاؤں تک کئی بار تبدیلی ہوئی مگر ایک خواہش ایسی تھی جو کبھی تبدیل نہیں ہوئی، جو ہمیشہ دعاؤں میں شامل رہی، وہ روضہ ء رسول کی زیارت و حاضری کی تمنا تھی۔شادی کے بعد میری اہلیہ آغاز سے ہی اِس آرزو سے آگاہ ہو گئی اور بہرصورت میرے ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کر دیا تھا چنانچہ چند ماہ قبل فیصلہ ہوا کہ فارِد حسنین (بیٹا) ہمارے ساتھ جائے گا جبکہ ذی بادہ ماہم(بیٹی) کو ننھال چھوڑدیں گے۔ چنانچہ گذشتہ دو تین سال سے پائی پائی جوڑنے لگا بالآخر ظاہری اسباب کا انتظام ہوتا ہوا نظر آنے لگاتو پیرومرشد، شیخ المشائخ، بابا جی سیّد میر طیب علی شاہ بخاری دامت برکاتہم العالیہ سے اجازت کا خواستگار ہوا ، آپ نے نہایت ملائم انداز میں ارشاد فرمایا؛ آقا کی بارگاہ میں ہاتھ باندھ کر میرا سلام بھی عرض کرنا۔ بس! یہی مہر ِ تصدیق مجھے چاہیے تھی چنانچہ تیاری میں جت گیا۔

فروری ٢٠١١ء کے آغاز میں ہی پاسپورٹ بنوانے کے لیے پاسپورٹ آفس پہنچ گئے۔ اگرچہ پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے درخواست ایک ساتھ ہی جمع کروائی مگر اہلیہ کا پاسپورٹ تاخیر کا شکار ہو گیا جو تقریباً ایک ماہ بعد موصول ہوا۔ مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی طبعی عمر کے کم ہونے کا سب سے بڑا راز یہی ہے کہ اپنے ساتھ روا بدسلوکیوں اور ناانصافیوں پر کڑھتے رہتے ہیں اِسی لیے جلدی انتقال کر جاتے ہیں۔

جیسے ہی مجھے پاسپورٹ موصول ہوئے ، میں نے محمد عباس طیّبی(ایچ۔کے ٹورز اینڈ ٹریولز کے منتظم) کو ویزا لگوانے کی تاکید کر دی۔ یہ دن بڑے ہی عجیب انداز میں بسر ہوئے۔ پاؤں زمین پر ٹکتے ہی نہیں تھے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا، آخر بلاوہ جو آیا تھا۔ زندگی سے پیار ہوگیا کیونکہ میرے نزدیک موت سے ڈرنے کی فقط ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ بارگاہِ رسالت مآب ۖ میں حاضری کے بغیر ہی موت آن پکڑے۔ وہ گھڑیاں جو انتظارِ سفر مدینہ طیبہ میں بیت رہی تھیں میرے لیے بیحد نازک تھیں۔

جیسے ہی عمرہ کا ویزہ لگا، دل کو جیسے تسلی ہو گئی، مزید اطمینان حاصل ہوا چنانچہ عمرہ کی ادائیگی کے سلسلہ میں درکار ضروری سامان اکٹھا کرنے لگے جس میں احرام ، بیلٹ، چپل وغیرہ شامل ہے۔

احرام
چونکہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں کپڑے کی دکان پر احرام دستیاب ہوتا ہے اِس لیے میں نے اوکاڑا شہر سے ہی احرام خرید لیا۔ اَن سِلی دو چادریں مرد کا احرام ہے جبکہ عورت کے لیے کوئی خاص احرام مقرر نہیں بلکہ اُسکے پہننے والے کپڑے ہی احرام کی نیت کرنے پر اُسکااحرام بن جاتے ہیں تاہم سہولت کے پیش ِ نظر عورت کے لیے ایک مخصوص چادر مل جاتی ہے جو سر کے بال اچھی طرح چھپا دیتی ہے۔

احرام کے لیے بہترین تولیے کا کپڑا ہے کیونکہ وہ بار بار ڈھلکتا نہیں بلکہ جسم پر ٹھہرا رہتا ہے۔ بعض لوگوں کو میں نے دیکھا کہ تہبند کو گرہ لگائے پھرتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا جائز نہیں تاہم اگر کوئی زیادہ ضعیف یا کمسن ہو اور سنبھالنے سے قاصر ہو تو اُس کے لیے رعایت ہے۔

اِحرام باندھے بغیر میقات (حدودِ حرم کی مقرر کردہ جگہ) سے آگے گزرنا جائز نہیں۔اگر کوئی اِحرام باندھے بغیر گزر گیا تو واپس لوٹ کر میقات پر آئے اور اِحرام باندھے لیکن اگر واپس نہ لوٹا تو دَم(ایک بکرا کی قربانی) لازم ہو جائے گا اور اگر واپس میقات سے احرام باندھ کر دوبارہ جائے تو دَم معاف ہو جائے گا لیکن گناہ باقی رہے گا اور توبہ و استغفار کرے۔

روانگی کے سفر کے لیے میں نے براستہ دوحہ (قطر)کو پسند کیا تاکہ ہم پاکستان سے ہی احرام باندھنے کی بجائے راستے میں احرام باندھیں۔

بعض لوگ جدہ سے احرام باندھتے ہیں ، یہ طریقہ درست نہیں کیونکہ بعض اوقات جہاز فضاء میں ہی میقات سے گذرجاتا ہے اور پھر جدہ اترتا ہے جبکہ احرام میقات سے پہلے باندھنا لازم ہے ،اِس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ عرب شریف کی حدود میں ہوائی جہاز کے داخل ہونے سے قبل ہی اِحرام باندھ لیا جائے۔

احرام باندھنے سے قبل جسم کی ظاہری صفائی کا خاص طور پر اہتمام کرنا چاہیے۔ ناخن تراشیں، زیر ناف اور بغل کے بال صاف کریں، مونچھیں اور داڑھی درست کریں اس کے بعد جسم کو اچھی طرح مل کر نہائیں۔

بیلٹ
چونکہ احرام کی کوئی جیب نہیں ہوتی جبکہ رقم، فون اور ضروری کاغذات ہمراہ رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے اِس لیے ایک جیبی بیلٹ خرید لینا چاہیے۔ یہ بیلٹ کمر کے گرد کس لیا جاتا ہے۔ اِس کا دوہرا فائدہ یہ ہے کہ جب یہ کمر کے گرد کسا جاتا ہے تو اُس میں تہبند کی بالائی تہیں بھی آ جاتی ہیں اور وہ بھی کَسی جاتی ہیں۔ اِس طرح وہ لوگ جنہیں تہبند باندھنے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا وہ بھی فائدہ میں رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ بیلٹ سے تہبند باندھنے کی نیت نہ کی جائے بلکہ سامان ہمراہ رکھنے کی نیت ہی درست ہے۔

چپل
مرد کے لیے لازم ہے کہ حالت ِ احرام میں اُس کے پاؤں کے اوپر والی ہڈی نظر آتی رہے چنانچہ اِس مقصد کے لیے قینچی چپل یا فوجی چپل کا استعمال درست ہے۔ خواتین کے لیے ایسی کوئی قید نہیں، وہ کھلا یا بند جوتا حسب ِ ضرورت استعمال کر سکتی ہیں۔

روانگی
کافی عرصہ پہلے کراچی باب ِ مدینہ طیبہ کے طور پر مشہور تھا کیونکہ ہوائی جہاز دستیاب نہیں ہوتے تھے یا ہوائی سفر عام آدمی کی پہنچ سے باہر تھا چنانچہ بحری جہاز کراچی سے روانہ ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ اِس نسبت سے کئی نعتیں بھی معروف ہوئیں۔ یہ نسبت کی بہاریں تھیں کہ محبت والے کراچی کا بھی ادب کرتے تھے۔ میری چھوٹی ہمشیرہ (جسے میں اپنی بیٹی زیادہ سمجھتا ہوں)کافی عرصہ سے خواہاں تھی کہ میں اُس سے ملنے کراچی آؤں چنانچہ میں نے کراچی سے ہی روانگی کا فیصلہ کر لیا۔

روانگی میں ابھی کئی دن باقی تھے مگر فارِد حسنین بہت زیادہ پُرجوش تھا۔ ہر ایک سے اپنی توتلی زبان میں کہتا پھرتا تھا کہ ''ہم مدینہ شریف جا رہے ہیں'' ۔ کبھی کبھی مجھ سے پوچھنے لگتا کہ ہم مدینہ شریف کب جائیں گے؟ جب اُس کی والدہ کا پاسپورٹ موصول نہیں ہو رہا تھا تو روزانہ محمد عباس طیّبی سے کہتا ، عباس بھائی! پاسپورٹ کب آئے گا؟ فارِد حسنین کا جوش اور خوشی کا انداز واقعی دیدنی تھا۔

کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اور مصروفیت شاید ایک دوسرے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، اِسی لیے فراغت میرے لیے بے چینی کا باعث بن جاتی ہے۔ جیسے تیسے کچھ کام میں نے ختم کیے تو کچھ واپسی کے لیے رکھ چھوڑے۔

کراچی کا سفر بذریعہ ٹرین طے کرنے کا فیصلہ ہوا اور مقررہ دن روانگی سے قبل اجازت حاصل کرنے کی نیت کے ساتھ حضرت صاحب کرماں والے کے مزارِ اقدس پر حاضر ہوا۔ دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو گئی ، وجود بالکل ہلکا مگر پاؤں جیسے کئی من بھاری ہو گئے۔ پلکیں خودبخود بھیگ گئیں۔ احساس ِ ندامت نے جیسے جکڑ لیا۔ پھر جو عرض و گذارش کا سلسلہ چلا تو جیسے چل ہی نکلا۔ اللہ تعالیٰ کے پیارے جہاں جلوہ افروز ہوں وہاں رحمت بچھ بچھ جاتی ہے اور عطائے رب ِ کائنات سے معمور میرے مرشد، حضرت کرماں والے بھی بڑے کریم ہیں۔ رحمت ِ انوارِ الہیہ کی بارش برسی تو دل کو اِک گوناں گوں سکون میسر آ گیا۔ دل میں جیسے ٹھنڈک پیدا ہو گئی تو اہل و عیال کے ہمراہ ریلوے اسٹیشن کی طرف عازمِ سفر ہو گیا۔

ریلوے اسٹیشن بروقت پہنچ گئے مگر گاڑی حسب ِ عادت تاخیر کا شکار تھی۔ ریلوے اسٹیشن پر مجھے معلوم ہوا کہ اوکاڑا شہر کے معروف صحافی سرور مجاہد کو دل کا دورہ پڑ گیا ہے ، مجھے یہ سن کر بیحد افسوس ہوا کیونکہ سرور مجاہد اسم بامسمی تھے۔ صحافت کا میدان ہو یا دین و مسلک کا ۔ وہ کبھی پیچھے نہیں رہتے تھے تاہم لرزا خیز بات یہ تھی کہ اُنکا عمرہ شریف کا ویزا لگ چکا تھا بلکہ ٹکٹ بھی ہو چکا تھا ، پتہ نہیں بارگاہِ ایزدی میں کیا مقبول ہے۔

مجھے ایک بات بڑی عجیب لگتی ہے، پاکستان کے دو ادارے ریلوے اور پی۔آئی۔اے سے ریزرویشن کے لیے رجوع کرو توجواب ملتا ہے کہ فروخت ہو جانے کے باعث ٹکٹ دستیاب نہیں مگر ہمیشہ خسارے کی رپورٹ ہی ملتی ہے۔

حسب ِ معمول علامہ اقبال ایکسپریس کے ٹکٹ دستیاب نہیں تھے چنانچہ میرے محسن سجاد شاہ صاحب کے والد ِ گرامی نے خصوصی شفقت کرتے ہوئے اضافی بوگی میں سیٹیں حاصل کر لیں اور بطورِ خاص لاہور سے ٹکٹ لے کر اوکاڑا پہنچ گئے۔

جب ہم ٹرین میں سوار ہو گئے تو فارِد حسنین کچھ حیران تھا اور قدرے پریشان کیونکہ وہ پہلی مرتبہ ٹرین میں سوار ہوا تھا۔ تاہم کچھ دیر تک غور کرنے کے بعد مطمئن ہو گیا۔ ٹرین چلتی رہی اور ہم دونوں آپس میں باتیں کرتے رہے۔ خاموشی کے دوران میں پیرومرشد کے اس فرمان میں کہیں گم سا ہو جاتا جو آپ نے گذشتہ سالانہ محفل میلاد و عرس مبارک کی رات کی نشست میں ارشاد فرمایا تھا کہ '' دیکھو! ریل گاڑی ایک ہی پٹڑی پر آتی جاتی ہے اور یہ اپنی سمت بھی تبدیل نہیں کرتی، یہ اِس کا کردار ہے''۔

اگلے دن ہم کراچی پہنچ گئے۔ بہنوئی عبید اللہ اور ہمشیرہ بہت خوش ہوئے بلکہ اُنکے تمام گھر والوں نے خاطرمدارات میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ ہمشیرہ کا بیٹا وصیل حسن بیحد کم گو اور نرم خو تھا جبکہ بیٹی وجہہ ٹھیک ٹھاک صحت مند۔

وقت کو جیسے پَر لگ گئے۔ پلک جھپکتے ہی فلائٹ کا وقت ہو گیا۔ ہم نے جلدی کے ساتھ تیاری کی اور قائد اعظم انٹرنیشنل ائیرپورٹ کراچی پہنچ گئے۔

فارِد حسنین کی نیند جیسے اُڑ گئی اور ائیرپورٹ کا لاؤنج اُس کے لیے کھیل کے میدان کی صورت اختیار کر گیا۔ میں نے ضروری سامان بشمول پاسپورٹ، ٹکٹ اور ہوٹل واؤچر ہینڈ بیگ میں رکھ لیے تھے۔ اگرچہ ہم تقریباً اڑھائی گھنٹے قبل ائیرپورٹ پہنچ گئے تھے مگر تصدیق و تلاشی کے مراحل سے گذرتے ہوئے جب ہم بورڈنگ کاؤنٹر تک پہنچے تو مسافر جہاز میں سوار ہو رہے تھے۔ چنانچہ ہم بھی جہاز میں سوار ہو گئے۔ جہاز جیسے ہی فضاء میں بلند ہوا۔ ہم تینوں نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ نیند و بیداری کے مابین ہی ناشتہ کیا اور پھر دوحہ (قطر) پہنچنے سے کچھ دیر قبل آنکھ کھل گئی۔

دوحہ ائیرپورٹ پر اُترے تو دھوپ غائب تھی۔ ائیرپورٹ کافی بارونق تھا اور مختلف اقسام و اقوام کے لوگوں سے بھرپور تھا۔ ہمارے پاس یہاں تقریباً پانچ گھنٹے کا وقت تھا چنانچہ کچھ دیر ایک کیفے ٹیریا میں بیٹھے جہاں فارِد حسنین نے ناشتہ کیا بعد ازاں ائیرپورٹ کے ایک گوشے میں واقع ریسٹ روم میں چلے گئے اور آرام کرنے لگے۔ فارِد حسنین یہاں کافی زیادہ بوریت محسوس کرنے لگا کیونکہ اُسے نیند نہیں آ رہی تھی جبکہ ہم دونوں آرام کرنے لگے۔ یہاں مکمل خاموشی تھی چنانچہ میں نے فارِد حسنین کو تاکید کی کہ شور بالکل نہیں کرنا کیونکہ سب لوگ سو رہے ہیں۔ فارِد حسنین نے تصدیقی انداز میں نظریں گھمائیں اور پھر کچھ کہنا چاہا مگر میں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر ششکار دیا تو اُسکی بات حلق میں ہی رہ گئی۔ یہاں کسی فلپائنی یا چینی شخص نے مجھے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ میں تو سو گیا مگر وہ جب بھی فارِد کے قریب سے گذرتا تو ہونٹوں پر انگلی رکھ کر ششکار دیتا۔ فارِد حسنین نے یہ دو گھنٹے بڑی مشکل سے گذارے۔ اِسی اثناء میں ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا تو ہم نے اپنا سامان اُٹھایا اور مسجد میں جا پہنچے۔ مردوں کے لیے الگ جبکہ خواتین کے لیے الگ مسجد بنی ہوئی تھی۔ غسل تو ہم پہلے سے ہی کر چکے تھے چنانچہ میں نے پہلے فارِد حسنین کو احرام باندھا اور پھر اپنا احرام باندھ لیا۔ اِسی دوران وہاں موجود دیگر کئی افراد بھی احرام باندھنے کے لیے مجھ سے امداد لینے لگے ۔

اِحرام باندھنے سے پہلے تیل ، سرمہ اور خوشبو وغیرہ لگانا جائز ہے تاہم کپڑوں کو صرف ایسی خوشبو لگانا جائز ہے جس کی تہہ وغیرہ کپڑوں پر باقی نہ رہے اور جس خوشبو کی تہہ وغیرہ باقی رہے وہ کپڑوں کو لگانا ممنوع ہے۔

احرام باندھنے کے دوران لاہور سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان کسی دوسرے شخص کے پاس انگوٹھی نما چھوٹی سی تسبیح دیکھ کر پریشان ہو گیا اور مجھے کہنے لگا کہ میرے پاس تو ایسی تسبیح نہیں ، اب میں کیا کروں؟ میں نے اُسے بتایا کہ یہ چھوٹی سی تسبیح دراصل صرف اور صرف طواف کے چکر یاد رکھنے کے لیے ہے وگرنہ اِس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ طواف کے چکر یاد رکھنے کے لیے کوئی اور طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا جبکہ بعض بڑی باتوں کو معمولی سمجھا جاتا ہے۔ حالت ِ احرام میں سر ننگا اور دونوں بازو ڈھانپ کر رکھیںجبکہ خواتین کے سر کے بال نظر نہ آئیں۔

احرام کی نیت
احرام باندھنے کے بعد پہلے نماز ادا کی اور پھر دو رکعت نماز نفل احرام کی نیت سے ادا کیے جن میں پہلی رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورة الکافرون اور دوسری رکعت میں سورة اخلاص پڑھی۔ سلام پھیرنے کے بعد احرام کی نیت کی اور ساتھ ہی ساتھ درج ذیل الفاظ بھی ادا کیے۔
اَللّٰھُمَّ نَوَیْتُ الْعُمْرَةَ وَاَحْرَمْتُ بِہ فَتَقَبَّلْھَا مِنِّی
اے اللہ! میں نے عمرہ کی نیت کی اور اِس کا احرام باندھ لیا ، میری طرف سے اِسے قبول فرما۔

عمرہ کی نیت
احرام کی نیت کرنے کے بعدمیں نے عمرہ کی نیت کی اور ساتھ ہی ساتھ مسنون دعا کے طور پر درج ذیل الفاظ بھی ادا کیے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْعُمْرَةَ فَیَسِّرْھَالِیْ وَ تَقَبَّلْھَا مِنِّیْ وَ اَعِنِّیْ عَلَیْھَا وَ بَارِکْ لِیْ فِیْھَا نَوَییْتُ الْعُمْرَةَ وَاَحْرَمْتُ بِھاَ لِلّٰہِ تَعَالٰی
اے اللہ تعالیٰ ! میں عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں، میرے لیے اِسے آسان اور اِسے میری طرف سے قبول فرمایا، اور اِس کے (ادا کرنے میں)میری مدد فرما اور اِس کو میرے لیے بابرکت فرما۔ میں نے عمرہ کی نیت کی اور اللہ تعالیٰ جلشانہ' کے لیے اِسکا احرام باندھا۔

عمرہ کی نیت کرنے کے بعد نسبتاً بلند آواز سے تین مرتبہ تلبیہ پڑھا:
لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ ، لَبَّیْکَ لا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ ، اِنَّ الْحَمْدَ وَ الْنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ لا شَرِیکَ لَکَ
میں حاضر ہوں، یااللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں اور ملک بھی، تیرا کوئی شریک نہیں۔

تلبیہ پڑھتے ہوئے ایسا لطف و قرار میسر آیا کہ روح تک اثر پہنچ گیا اور اِک عجیب کیفیت پورے سراپے میں سرایت کر گئی۔ مولا! اِک خطاکار پر اتنا بڑا کرم! میں کہ اِک ذرئہ بے قدر اور تیری عظیم الشان بارگاہ میں حاضری! ۔۔۔ مولا! تیرا کروڑہا شکر۔ لطف ِ عمیم کا ذائقہ ایسا بھایا کہ بار بار لبیک اللھم لبیک زبان پر بے اختیاری سے جاری ہو گیا۔ اِسی دوران کرم کی بارش برسی تو ہونٹ خودبخود کریم و رحیم آقا کی ذات ِ بے کس پناہ پر درودِ پاک پڑھنے لگے۔ درود شریف پڑھنے کے بعد حسب ِ ذیل دعا مانگی۔
اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رَضَاکَ وَالْجَنَّة وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ غَضَبِکَ وَالنَّار
اے اللہ! میں آپ سے آپکی رضا اور جنت مانگتا ہوں اور آپ کی ناراضگی اور جہنم سے آپ ہی کی پناہ چاہتا ہوں۔

اب ذکر و استغفار کے ساتھ ساتھ تلبیہ کثرت سے پڑھنے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ دیگر دعائیں بھی مانگتا رہا۔ احرام کی نیت کے فوراً بعد احرام کی پابندیاں شروع ہو جاتی ہیں چنانچہ صرف اُسی شخص کو احرام کی نیت کرنی چاہیے جس کا ٹکٹ تصدیق شدہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ احرام کی نیت کر بیٹھے جبکہ جہاز تاخیر کا شکار ہو گیا یا سرے سے منسوخ ہو گیا تو حدود ِ حرم میں قربانی کروانی پڑے گی۔
احرام کی حقیقت
یاد رہے کہ احرام کی چادریں اوڑھنے سے احرام کی پابندیاں شروع نہیں ہوتیں بلکہ احرام و عمرہ کی نیت کے ساتھ احرام کی پابندیاں شروع ہوتی ہیں مزید برآں احرام کسی لباس کی بجائے ایک مخصوص حالت یا کیفیت کا نام ہے جس میں مختلف قسم کی پابندیاں عارضی طور پر عائد ہوتی ہیں۔ چنانچہ اگر احرام کی چادریں گندی یا ناپاک ہو جائیں تو اِنہیں بدلا بھی جا سکتا ہے۔

احرام کی حالت شروع ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ تلبیہ پڑھنا ہوتا ہے چنانچہ میں بھی بے اختیاری کے ساتھ مسلسل لبیک اللھم لبیک پڑھتا رہا۔ ایک عجب کیفیت تھی جسے الفاظ میں بیان کرنا ازحد مشکل معلوم ہوتا ہے۔ رحمت ِ الہیہ کے انوار و تجلیات رگ و پے میں سرایت کر رہے تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ میرا وجود اِس دنیا میں نہیں بلکہ اِک الگ دنیا میں پہنچا ہوا ہے۔ مجھے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو دل جسم سے باہر نکل کر آگے آگے دوڑنا شروع کر دے۔

جب ہم ائیرپورٹ لاؤنج سے بورڈنگ کاؤنٹر پر پہنچے تو فارِد حسنین سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ہر ایک نے باری باری اُسے پیار کیا۔ کوئی اُس کے ساتھ بات چیت کرتا تو وہ فوراً بول اُٹھتا کہ ''ہم مدینہ شریف جا رہے ہیں''

دوحہ سے جہاز روانہ ہوا تو فوراً کھانا لگا دیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ ہر مسافر کو ایک فارم بھی دیا گیا جسے پُر کرنے کی تاکید کی گئی۔ اُس فارم پر عمرہ کا ویزہ جاری کرنے والے شرکہ (کمپنی) کانام اور مسافر کی تفصیلات درج کرنے کی ہدایات کی گئیں چنانچہ کھانا کھاتے اور فارم پُر کرتے ہوئے یہ وقت بھی گذر گیا اور پائلٹ نے جہاز کی لینڈنگ کا عندیہ دے دیا۔ اہلیہ اور فارِد حسنین کے ساتھ ساتھ میں بھی بڑی بے تابی کے ساتھ سرزمین ِ عرب شریف کی زیارت کرنے لگا۔ سنگلاخ پہاڑوں کی کثرت اِس بلندی سے بھی بڑی صاف نظر آ رہی تھی مگر نبیوں کی آماجگاہ بڑی پُرہیبت اور رعب و دبدبہ والی محسوس ہو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ زمین سے بلندی کا فاصلہ کم ہوتا چلا گیا مگر ہماری بے تابی بڑھتی چلی گئی حتیٰ کہ جہاز کے ٹائر زمین کے ساتھ لگتے ہی دل خوشی سے جھوم اُٹھا۔

تمام مسافر نیچے اُترنے لگے جہاں جدہ ائیرپورٹ کی بسیں مسافروں کی منتظر کھڑی ہوئی تھیں۔ ایک ایک کر کے تمام بسیں مسافروں کو لے کر ائیرپورٹ کی پُرشکوہ عمارت کے قریب چلی گئیں۔ ائیرپورٹ میں داخل ہونے کے بعد تمام مسافر قطار میں لگ گئے اور تصدیق و تلاشی کے مراحل سے گذرنے لگے۔ ائیرپورٹ پر ہی صفائی کرنے والا ایک بنگالی ملازم ہمارے قریب آیا اور فون کی سِم بیچنے کی کوشش کرنے لگا۔ اُس نے ہمیں بتایا کہ اِس سِم میں 35ریال کا بیلنس موجود ہے مگر اِس کی قیمت صرف 50ریال ہے۔ میں نے اِس خیال سے اُسے منع کر دیا کہ جو سِم یہ یہاں ائیرپورٹ پر فروخت کر رہا ہے تو یقینا یہ کافی منافع لینا چاہتا ہے کیونکہ ائیرپورٹ پر ہر چیز کی قیمت کافی زیادہ ہوتی ہے۔ میرے منع کرنے پر وہ ملازم وہاں سے چلا گیا۔

تصدیق و تلاشی کے مراحل طے کرنے کے بعد سامان حاصل کر کے ہم ویٹنگ لاؤنج میں پہنچ گئے جہاں ایک اعرابی نے ہمارے پاسپورٹ لے کر تھیلے میں ڈال لیے اور ہمیں سامنے نشستوں پر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے لیے کہا۔

اِسی دوران عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تو پہلے اہلیہ نے عصر کی نماز ادا کی بعد ازاں میں نے بھی عصر کی نماز ادا کر لی۔ یہاں پر ایک خاتون نے فارِد حسنین کو دیکھا تو اُس نے بیحد پیار کیا پھر اُس کی تصاویر بنائیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کوئی نہ کوئی اعرابی نوجوان آتا جس کے ہاتھ میں چند پاسپورٹ ہوتے اور وہ بآواز بلند مسافروں کے نام پکارتا، متعلقہ مسافر اپنا سامان اُٹھا کر اُس کے ساتھ چلے جاتے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ عمرہ کا ویزہ جاری کرنے والے ہر شرکة(کمپنی) کے ملازم یہاں موجود ہیں اور ائیرپورٹ ملازمین اُنہیں پاسپورٹ فراہم کر رہے ہیں اور وہ اپنے اپنے ذمہ مسافروں کو مختلف گاڑیوںپر بٹھا کر مکة المکرمہ روانہ کر رہے ہیں۔

تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کے بعد ایک نوجوان اعرابی نے میرا نام پکاراتو میں فی الفور اُس کے پاس چلا گیا، اُس نے مجھے سامان لانے کا اشارہ کیا اور ہم سامان اُٹھا کر اُس کے ساتھ چل پڑے۔ ائیرپورٹ سے باہر نکل کر اُس نے ہمیں ایک گاڑی میں بٹھا دیا۔ تقریباً آدھا گھنٹہ اُس گاڑی میں انتظار کیا کہ چند مزید مسافر پہنچ گئے اور وہ بھی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی روانہ ہوئی تو ہماری جان میں جان آئی مگر صرف دس منٹ کے بعد گاڑی ایک جگہ بس کے قریب رُک گئی اور ڈرائیور نے ہمیں اُس بس میں سوار ہونے کا اِشارہ کیا۔ تمام مسافر اُس بس میں سوار ہو گئے جبکہ ہمارے پاسپورٹ بس کے ڈرائیور کے پاس پہنچ گئے۔ اب ہم اِس بس میں انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیر گذرنے پر بس روانہ نہیں ہوئی تو مسافر آہستہ آہستہ اتنی تاخیر ہونے پر چہ مگوئیاں کرنے لگے۔ ایک شخص جو کچھ زیادہ ہی بے تاب تھا، وہ زیادہ ناراض ہو گیا اور کہنے لگا، ''اگر ہمیں آگے لے کر نہیں جانا تو ہم یہاں سے واپس چلے جاتے ہیں'' ۔ اِس بات نے طبیعت کو مکدر کر دیا۔ یقینا ہمیں بولنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ ہم کیا کہنے والے ہیں۔ اُس شخص کی بات مجھے بڑی عجیب معلوم ہوئی۔ ہم لوگ لاہور سے کسی دوسرے شہر جانے لگیں تو بعض اوقات ایک دو گھنٹے انتظار کرنا پڑ جاتا ہے لیکن اُس پر کچھ نہیں کہتے مگر یہاں ایسی بے صبری کہ اللہ کی پناہ۔
Pir Sanaullah Tayyabi
About the Author: Pir Sanaullah Tayyabi Read More Articles by Pir Sanaullah Tayyabi: 18 Articles with 45840 views Nothing Special.. View More