26نومبر کو نیٹو کے صیہونی لشکر
کی جانب سے مہمند ایجنسی میں قائم دو فوجی چوکیوں پر بلااشتعال فائرنگ کے
نتیجے 28 فوجی جوانوں کی شہادت ایک بہت بڑا واقعہ ہے جس نے پاکستانی
سیکیورٹی اداروں سے لے کر اوبامہ انتظامیہ تک کو ہلا کر رکھ دیا ہے یہ اِس
طرز کا پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی بیسیوں بارنیٹو کے طیارے پاک سرزمین
کی زمینی و فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بے گناہ پاکستانیوں کے خون
سے ہولی کھیلتے رہے ہیں سات حملے تو صرف پاکستانی چوکیوں پرہی ہوئے جن میں
72فوجی جوان شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے یہاں قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ
حکومت کی جانب سے احتجاج صرف اسی وقت دیکھنے میں آیا جب حملہ فوجی چھاؤنیوں
پر ہوابات کو آگے بڑھانے سے قبل ہم اس سے قبل نیٹو کی جانب سے فوجی
چھاؤنیوں پر ہونے والے حملوں پر ایک نظر ڈالنا مناسب سمجھتے ہیں
۔۔گیارہ جون2008ءکو مہمند ایجنسی پر امریکی و نیٹو کے ایک فضائی حملے میں
گیارہ فوجی شہید ہوئے جن میں ایک اعلیٰ افسر بھی شامل تھا
۔۔تین ستمبر 2008ءکو امریکی و اتحادی فوجیوں نے جنوبی وزیرستان کے ایک مکان
میں کاروائی کرتے ہوئے اکیس افراد کو جاں بحق کردیا جن میں متعدد خواتین
اور بچے بھی شامل تھے
۔۔مئی 2011ءکو شمالی وزیرستان میںنیٹو افواج نے تین حملے کئے جس کے نتیجے
میں آٹھ فوجی جوان شہید ہوگئے
۔۔اور اسی طرح کرم ایجنسی میںہونیوالی ایک کاروائی میں ایک فوجی جوان شہید
ہوگیا۔
اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو 26 نومبر کو نیٹو افواج کی کاروائی اب تک کی
ہونیوالی سب سے بڑی فوجی کاروائی ہے جس میں 28 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اس
کے علاوہ نائن الیون کے حادثے کے بعد امریکہ کے شیطانی اتحاد میں شامل ہونے
سے لے کر اب تک ہونے والے 70ارب ڈالر کے نقصان اور 40ہزار بے گناہ
پاکستانیوں کا خون بھی اسی امریکی ڈائن کے سر جاتا ہے مہمندایجنسی حملے کی
عسکری ماہرین کئی وجوہات بیان کررہے ہیں مثلاََحال ہی میں کالعدم تحریک
طالبان کی جانب سے پاکستان پرحملے روکنے اور پاکستان کی جانب سے بھی طالبان
کے ساتھ مذاکرات کے عندیے نے بھی امریکہ کو بوکھلا کے رکھ دیا کیوں کہ یہ
صورتحال کم از کم امریکہ کیلئے ناقابل قبول تھی کہ پاکستان ایسے افراد کے
ساتھ مذاکرات کی سٹیج سجائے جن کے ساتھ پاکستانی فورسز کی لڑائی ہی امریکہ
کو بھاتی ہے لہٰذا اس امن عمل کو آغاز میں ہی سبوتاژ کرنے کیلئے یہ کاروائی
کی گئی اور ایک وجہ امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے میمو ایشو
کوپس منظر میں دھکیلنا بھی اس حملے کا ایک مقصد قرار دیا جارہا ہے جس کے
حقائق منظرِ عام پر آنے سے کئی امریکی مہروں کے بے نقاب ہونے کا خدشہ ہے
لیکن اس حملے کی وجہ جو بھی ہو اب ہمیں ایک زندہ اور غیرتمند قوم ہونے کا
ثبوت دیتے ہوئے امریکہ کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف جنگ سمیت ہر سطح کا تعاون
ختم کردینا چاہئے جس کا آغاز نیٹو سپلائی کی بندش اور بون کانفرنس کے
بائیکاٹ سے کربھی دیا گیا ہے لیکن ہمیں اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے ِ مزید
سخت اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے اگرچہ اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب
عبدللہ حسین ہارون نے بان کی مون کو لکھے گئے خط میں کافی سخت لہجہ اپنایا
اور امریکی حملے کو پاکستان کی سلامتی کیلئے شدید خطرہ قرار دیتے ہوئے
پاکستان کو جوابی کاروائی کا حقدار بھی قرار دیا ہے جس کی سلامتی کونسل کے
کئی ارکان نے حمائت بھی کی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑا سوال یہ بھی ہے
کہ پاکستان اس معاملے کو کس قدر آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے کیوں کہ
ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات پیش آئے لیکن چند روز کی ناراضی کے بعد
پاکستان پھر ''دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مل کر کام کرتے رہیں گے''کے اعلان
کے ساتھ پھر امریکی گود میں جابیٹھتا ہے ۔لیکن حکومت کو اب یہ بات ذہن نشیں
کرلینی چاہیے کہ اب قوم کو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر دہشتگردی کو
فروغ دینے والی اس امریکی جنگ سے کنارہ کشی سے کم پر کسی صورت بھی مطمئن
نہیں کیا جاسکے گا لہٰذا قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے حکومت کو فوری طور
امریکہ سے ہرقسم کا تعاون بند کردینا چاہئے اور ساتھ ہی امریکی امداد کو
بھی پائے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے قوم کو آخری معرکے کیلئے تیار کرنا چاہئے
مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستان ایسا اقدام کرتا ہے تو جانباز پاکستانی قوم
اسکے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی۔
قاسم علی دیپالپور |