ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ایم کیو ایم
کے خلاف “ثبوتوں”سے بھرے تین بریف کیس لے کرلندن کے لئے روانہ ہوئے تو خیال
یہ تھا کہ قومی میڈیا پر روز ذوالفقار مرزاچھائے ایک ایک کر کے ثبوتوں کے
میزائل چلاتے جائیں گے۔اخباروں کی سرخیاں۔۔۔ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز۔۔۔ٹاک
شوز کے تبصرے مرزا صاحب کے ارد گرد گھوم رہےہونگے۔مگر “ستم ظریفی” دیکھئے
کہ خبر شرجیل میمن بن گئے۔ گناہ یہ تھا وہذوالفقار مرزا کے ساتھ لندن کیوں
گئے ؟ ان سے وزارت اطلاعا ت کا قلم دان واپس لے لیا گیا۔ ایسے لگاکہ اب
موضوع بحث ذوالفقار مرزا نہیں شرجیل میمن ہونگے۔انہیں ابھی اپنے بریف کیس
نکالنے کا موقع ہی نہ ملا تھا کہ اس کے بعدسابق وزیر خارجہ اور پاکستان
پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما شاہ محمود قریشی نےنہ صرف قومی اسمبلی کی نشست
سے استعفی دے دیا بلکہ جماعت کی بنیادی رکنیت سےبھی مستعفی ہو نے ساتھ ساتھ
ستائیس نومبر کو گھوٹکی کےمقام پر جلسہ عام میں اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ
کرنے کا اعلان بھی کردیا۔جلسے کے دن تک انہوں نےکسی کو کانوں کان خبر نہ
ہونے دی کہ وہ کدھر کا رخ کریں گے۔
بالآخر وہ”تبدیلی” کے دوش پہ سوار ہو گئے کپتان نہیں تو نائب کپتان ضرور بن
جائیں گے۔لگتا تھا کہ کچھ دن وہ میڈیا کا عنوان ٹھہریں گے مگر میمو گیٹ
سکینڈل نے ان کےکئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔اب میمو گیٹ سکینڈل میڈیا پہ
چھاگیا۔سیاسی اورعسکری قیادت کے درمیان بڑھتے فاصلے موضوع سخن بن گئے۔حسین
حقانی کو واپس بلا لیا گیا۔ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے اجلاس وزیر
اعظم ہاوس میں منعقد ہوا بتایا گیا کہ عسکری قیادت ایوان صدر جانے کے لیے
تیار نہیں۔اب موضوع سخن بیشتر مباحثوں کا صدر مملکت کا منصب اور اس
کی”توہین”ٹھہرا۔نیٹو حملے نےبحث کا رخ بدل دیا وحشت ناک بربریت نے بجا طور
پر پوری پاکستانی قوم کو غم زدہ کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے سوالات کو بھی
جنم دیا۔مگر اطمینا ن رکھیں جس طرح قوم کو اس سے پہلے بڑے بڑے سوالوں اور
خدشات کے جوابات نہیں ملے اب بھی پرانی تنخواہ پہ گزارہ کرنا ہوگا۔
نیٹوحملےپراحتجاج،مذمت،افسوس کا سلسلہ بیاناتکی حد تک تو جاری ہے مگر
امریکہ اور نیٹو نے اس واقعہ پر معافی مانگنے سےانکار دیا ہے اور ساتھ یہ
بھی کہہ دیا کہ واقعہ کی تحقیقات اپنے طور پر کریں گےاور یہ قطعا ضروری
نہیں کہ اس کے نتائج پاکستان کے ساتھ شیئر کریں۔پریشانی کی کوئی بات نہیں
شمسی ائیر بیس خالی ہو جائے گا کیونکہ وہ پہلے ہی خالی ہے۔جیکب آباد ائیر
بیس کا ذکر کسی اور بڑے واقعہ کے بعد ہو گا۔عوام کیوں پریشانی میں مبتلا
ہیں یہ سب کچھ جان کر کیاہوجائے گا جو جانتے ہیں انہوں نے کیا کر لیا ہے؟ہم
خواہ مخواہ کی خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ اس بربریت کا منہ توڑ جواب دیا
جائے گا۔کیا کہیے ہمیں تو بریفنگ میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ منہ توڑ جواب تو
ممکن تھا مگر اس کے بعدکی صورتحال کو سنبھالنا ایک بڑاسوالیہ نشان تھا۔ اب
میڈیا میں ذکر نیٹو حملے میں شہید ہونے والے چھبیس فوجی جوانوں کا نہیں
بلکہ جنگ کے بعد کا افغانستان کا ہو گا۔کیونکہ موضوع سخن ،جرمنی میں ہونے
والی بون کانفرنس ہو گی جس میں حکومت پاکستان نے شرکت سے انکار کر دیا
ہے۔مگرتسلی رکھیے بون کانفرنس، نیٹو کا حملہ کل سے موضوع بحث کم کم ہی
ہوگا۔کیونکہ سپریم کورٹ میمو گیٹ سکینڈل پر مسلم لیگ ن کی طرف سے دائر
درخواست پر سماعت کاآغاز کر رہی ہے۔ خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ
میاں محمد نواز شریف بذات خود سپریم کورٹ میں بحث میں حصہ لینے اوردلائل
دینے جا رہے ہیں۔ لہذابحث مباحثے ، اخبارات کی سرخیاں ،ٹی وی چینلز کی ہیڈ
لائنز اورتبصرہ نگاروں کےتبصروں کا موضوع بدل جائے گا۔کوئی بات نہیں ہم خوش
ہیں ہمارا ملک انسانی ترقی کے انڈکس میں 187ممالک میں سے 145ویں نمبر پر
آگیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ دس کروڑسے زائد لوگ تعلیم اور علاج کی بنیادی
سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ ننگ ،بھوک اور افلاس ہر طرف رقصاں ہے۔
میرےملک کے غریبوں خوش رہو۔ فکرو فاقہ اچھی چیزہے اس سے “تذکیہ نفس “ہوتا
ہے۔عاجزی اور انکساری بڑھتی ہے۔آپ کے” مسائل“گھمبیر ہیں اور حکومت آپ کے
لئے مزید ”مسائل“ پیدا نہیں کرے گی کیونکہ اس کےاپنے بہت زیادہمسائل
ہیں۔64سال کا سفر محض ابتدائے عشق ہے آگے آگے دیکھیے ہوتاہے کیا۔۔۔ |