نئی ٹوکری کی تلاش

26 نومبر کو مہمند ا یجنسی میں دو پاکستانی چوکیوں پر نیٹو فورسز کا حملہ انتہائی شر انگیز اور بزدلانہ فعل تھا ۔اسامہ بن لادن کے خلاف کاروائی کی طرح اس بار بھی شب خون مارا گیا جس میں 24 پاکستانی جوان شہید ہو گئے یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں اور شاید آخری بھی نہ ہو کہ جس طرح ماضی میں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت افغانستان میں تعینات ایساف اور نیٹو کی ایک لاکھ چالیس ہزار فوجیوں کے لئے خصوصی گوشہ رکھے ہوئے ہے اس میں ان فوجیوں کی جانب سے پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں اور پاکستان کے طاقت کے تمام مراکز کی جانب سے احتجاج بلند کرنا بھی کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ۔ ریمنڈڈیوس کے معاملے پر احتجاج ہوا چند روز کے لئے نیٹو کی سپلائی بھی بند کر دی گئی اور پھر تعلقات بحال ہو گئے اب کی بار بھی شاید ایسے ہی ہو کہ کمزور ا تحادیوں کے سہارے قائم حکومت کابینہ کے دفاعی کمیٹی کے فیصلوں کے خلاف ہی چل پڑے گی ۔

نیٹو کی سپلائی لائن تو فوری طور پر طورخم اور چمن کے راستے روک دی گئی جبکہ بلوچستان کے شمسی ائیر بیس کو 15 دن میں خالی کرنے کی امریکہ کومہلت دیدی گئی ہے دوسری جانب واشنگٹن کا ایک جانب جہاں یہ کہنا ہے کہ اس کا شمسی ائیر بیس پر کوئی فوجی موجود نہیں صریحاً غلط بیانی ہے ، امریکہ اور پاکستان کے مشترکہ دوست متحدہ عرب امارات کے سفیر نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات میں بیس خالی کرانے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا جسے مسترد کر دیا گیا ،جبکہ دو دسمبر کو امریکی سینٹ نے پاکستانی کی امداد مشروط طور پر روکنے کا بل منظور کر لیا ہے لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان کے فیصلے سے امریکہ کا کچھ نہیں بگڑا ہے۔

دفتر خارجہ میں امریکی سفیر ڈاکٹر کیمرون منٹر کی طلبی جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے اب کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ۔کابینہ کی دفاعی کمیٹی نے فیصلہ صادر کر دیا پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی معاملے کی تحقیقات کرے گی ایسے ہی جیسے پی پی کی حکومت ایبٹ آباد کمیشن،پارلیمنٹ کی قرارداوں اور عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے کرتی رہی ہے ، دوسری جانب صدر نے جہاں دوست ملک کی درخواست مسترد کر دی وہیں وزیراعظم گیلانی نے سی این این کے ذریعے دنیا کو پیغام دیا کہ اب کچھ سخت جواب دینا پڑے گا،امریکہ کےساتھ تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔

افواج پاکستان جسے پہلے ہی ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے تنقید کا سامنا کر نا پڑا عالمی میڈیا اسے ایک بار پھر کٹہرے میں لانے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ پہلے پاکستان کی جانب سے فائرنگ کی گئی نیٹو ہیلی کاپٹر اور امریکی طیارے نے جوابی کارروائی کی ،حقائق کیا ہیں دونوں جانب سے تحقیقاتی ٹیموں نے کام شروع کر دیا ہے آئی ایس آئی کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ اس واقعہ سے سنگین نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے انکا کہنا تھا کہ سکیو رٹی فورسز نے یہ علاقہ شرپسندوں سے خالی کر ا دیا تھا او ر اس آپریشن میں انکے 74 جوان شہید بھی ہوئے اس کے باوجود اگر نیٹو نے افسوس کرنے کے بجائے الزام لگایا کہ فائرنگ پاکستان کی جانب سے کی گئی ہے تو اسے اس حوالے سے ثبوت پیش کرنے چاہئے۔اس معاملے پر عوام کے شدید تحفظات ہیں کہ جب سکیورٹی فورسز کے خلاف سرحد پار سے کارروائی ہوتی ہے تو حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچ جاتی ہے لیکن جب ڈرون حملوں میں ہر روز معصوم شہری مارے جاتے ہیں تو ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔

وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے بقول واشنگٹن کو شمسی ائر پورٹ خالی کرنےکا نوٹس بھجوا دیا گیا ہے جبکہ حکومت نے 5 دسمبر کو جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی کانفرس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے جو یقینا افغان امن عمل کو متاثر کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا، ایسی صورتحال میں مغربی ریاستوں کے دارالحکومتوں کے ساتھ ساتھ وہاں کی عوام کو بھی ایک سخت پیغام دیا گیا کہ ان کے فوجی پاک سرزمین پر جس آسانی سے خون ناحق بہا رہے ہیں اس سے ان کے فوجی بھی محفوظ نہیں رہیں گے کیونکہ پاکستان اگر تعاون سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو افغانستان میں ایساف اور نیٹو فوجیوں کا مزید رہنا محال ہوجائے گا۔

امریکہ میں آئندہ سال صدارتی انتخاب ہونے والے ہیں جبکہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے پر امن انخلا کے لئے واشنگٹن اسلا م آباد کی جانب دیکھ رہا تھا لیکن جو کچھ ہوا اور اتحادی افواج کا اسلحہ اس کے اپنے ایک اہم اتحادی کے خلاف جس بری طرح سے استعمال ہوا اس پر امریکی افواج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی کو بھی افسوس ہے لیکن وہ اب بھی اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ معاملہ کی تحقیقات مکمل ہونے تک وہ معافی نہیں مانگیں گے ۔ واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے یہ رویہ نہایت افسوس ناک ہے افغانستان میں اتحادی افواج کا سرخیل امریکہ ہے اور24 سکیورٹی اہلکاروں کی نعشیں سب کے سامنے ہے جبکہ اتحادی ممالک کا کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا تو پھر کیسی تحقیقات ا ور کیسی معافی ،دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی تو 26 نومبر کو ہی ہو چکا تھا لیکن امریکہ بضد ہے کہ معاملہ کی تحقیقات مکمل ہونے تک وہ کوئی ٹھوس ردعمل ظاہر نہیں کرے گا ۔

امریکہ نے سفارت کاری کے ذریعے تعلقات میں آنے والی کشیدگی کو جہاں کم کرنے کی کوشش شروع کر دی وہیں پاکستان نے بھی چین سمیت دیگر دوست ممالک کے ساتھ رابطے کئے ، حکومتی سطح پر احساس بڑھ گیاہے کہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو از سر نو ترتیب دینے کا وقت آ گیا ہے جبکہ پی پی اپنی رہی سہی ساکھ بچانے کے کوشش بھی کر رہی ہے شاید اسی لئے صدر آصف علی زرداری جو پی پی کے شریک چئرمین بھی ہیں کو یہ کہنا پڑا کہ وہ بھٹو کے روحانی بیٹے اور بے نظیر کے قابل اعتماد ساتھی ہیں قوم ان پر اعتما د کرے ، پیپلز پارٹی کی حکومت ماضی کے روئےوں سے ہٹ کر کچھ غیر معمولی کرے گی تو تب ہی اس کی “فیس سیونگ “ ممکن ہو سکتی ہے ۔

پاکستان کے پاس شروع دن ہی سے انسانی وسائل اور ذخائر کی صورت میں بہترین انڈے موجود تھے اور ہیں ہم ا نہیں ناقص اور ناقابل اعتبار ٹوکری میں رکھ کر مطمئن ہوتے رہے لیکن جب بھی موقع ملا کوئی نہ کوئی انڈا اس ٹوکری سے گرتا ہوا ملا، اب یہ حکومت پر ہے کہ وہ اپنے قیمتی اور بیش قیمت وسائل کے انڈوں کو پرانی اور بوسیدہ ٹوکری میں رکھنا چاہتی ہے یا پھر وہ نئی ٹوکری کی تلاش شروع کرکے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کی جتن کرتی ہے فیصلہ بہرحال حکومت ہی نے کرنا ہے۔
Shahzad Iqbal
About the Author: Shahzad Iqbal Read More Articles by Shahzad Iqbal: 65 Articles with 48248 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.