زرداری اور خان مشکل میں

پاکستانی حکومت اس وقت شدید اندرونی اور بیرونی دباﺅ کا شکار ہے،جہاں ایک طرف 26 نومبر 2011ءکو امریکی اور نیٹو افواج کی دہشت گردی نے حکومت کےلئے مشکلات کھڑی کردی ہیں، وہیں پر میمو گیٹ اسکینڈل کا سپریم کورٹ تک پہنچنے سے حقیقت تک رسائی ممکن ہے جو ایک اچھی بات ہے مگر پیپلزپارٹی کی جانب سے ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔

پیپلزپارٹی کے سابق راہنماءمخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی صدر زرداری سے حساب برابر کرنے تہیہ کیا ہواہے۔ انہوں نے پہلے جوابی حملہ کرکے 27 نومبر 2011ءکو پیپلز پارٹی کے قلعے سندھ میں بھرپور نقب لگانے کی کوشش کی اور جلسے کی حد تک تو صدر زرداری اور ان کی پارٹی کو سخت دھچکا پہنچادیاہے، لیکن الیکشن میں اس کے کیا اثرات ہونگے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گاتاہم صدر زرداری کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کے کچھ زیاد ہی جذباتی دکھائی دیتے ہیںیہی وجہ ہے انہوں نے اپنے نئے سفر کے آغاز کے لیے سندھ کے ضلع گھوٹکی کا انتخاب کیااور پنے آپ کو تحریک انصاف سے منسلک کیا۔شاہ محمود قریشی یقیناً عمران خان اور انکی تحریک کےلئے ایک بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوسکتے ہیں لیکن یہ سرمایہ کہیں خود عمران خان کے سونامی ثابت نہ ہو جس طرح عمرانی قافلے میں سونامی کی طرح دھڑا دھڑ شمولیتیں ہورہی ہیں اس سے یہ خدشہ ہے کہ جس طرح سونامی اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز ملیا میٹ کردیتا ہے اسی طرح یہ سونامی تحریک انصاف کواقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کی بجائے نشان عبرت نہ بنادے۔ عمران خان نے آج سے 15 سال قبل اپنی تحریک کا علم انصاف کے نام پر بلند کیا لیکن آج اس میں تحریک تو ہے مگر انصاف کہیں نہیں دکھائی دیتا ،جس طرح کے لوگ کپتان کے ساتھ شامل ہورہے ہیں۔ اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسٹر خان نے بھی اقتدار تک رسائی کے لیے روایتی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ہے جہاں سب کچھ جائز ہو۔

عمرانی قافلے میں قاتلوں کے انچارج کی شمولیت اور غیر مشروط عمرانی قبولیت نے صورت حال کو اور بھی پیچیدا بنادیا ہے لال مسجد اور جامع حفصہ کے سینکڑوں شہداءکی ارواح آج بھی یہ سوال کرتی ہیں کہ”ہمیں کس جرم میں قتل کیا گیا“ اور یہ سوال اب عمران خان سے بھی ہورہا ہے۔ اس لئے کہ 2007ءکے بعد پرویز مشرف کے زوال کے جو اسباب گنے گئے تھے ان میں سب سے بڑا سبب سانحہ لال مسجد کو قرار دیا گیا اور اس سانحے میں قاتلوں، ظالموں اور جابروں کے لشکر کے انچارج اس وقت کے وزیر مملکت برائے امور داخلہ ظفر اقبال وڑائچ ممی ڈیڈی سونامی کے ذریعے عمرانی قافلے میں شامل ہوچکے ہیں۔ یہ وہی ظفر اقبال وڑائچ ہیں جنہوں نے 4 جولائی 2007ءکو اسلام آباد میں اپنے دائیں، بائیں محمد علی درانی اورطارق عظیم کو ساتھ بٹھا کر ایک بھرپور پریس کانفرنس کی اور پھر اعلان کردیا کہ لال مسجد والوں کے خلاف اب آپریشن ہوگا اور واقعی آپریشن ہوا، سینکڑوں افرادشہید ہوئے، جامع حفصہ جہاں پر قال اللہ اور قال الرسول کا درس دیا جاتا تھا کو صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا۔ قرآن پاک اور حدیث کی کتب کو شہید کرکے نالوں میں بہادیئے گئے۔ مسجد کو فاسفورس کے ذریعے جلا کر تباہ کردیا گیا اور یہیں سے سابق آمر مشرف کے زوال کا شروع ہوا۔

لوگوں کا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ چار سال میں قاتلوں کے لشکر کے انچارج ظفر اقبال وڑائچ کو لوگ بھول گئے ،جس نے کبھی جونیجو لیگ ،کبھی آزادی، کبھی پیپلز پارٹی، کبھی ق لیگ کا سہارا لیا اور اب وہ عمران خان کی چھتری تلے آکر عمرانی سہارے ہیں۔ لال مسجد کے شہداءعمران خان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کپتان جی یہ بتاﺅ قاتلوں کے انچارج کو اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے کیا آپ نے یہ پوچھا کہ لال مسجد والوں کا جرم کیا تھا؟ ان معصوم بچیوں کا جرم کیا تھا؟، انہیں زندہ درگور کیوں کیا گیا ؟ عمران خان سے یہ سوال اس لئے کیا جارہا ہے ہے کہ ان کا شمار 2007ءسے لے کر کچھ عرصہ قبل تک ان لوگوں میں شمار ہوتا تھا جو لال مسجد کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھتے اور انصاف کی بات کرتے تھے۔ شہداءکو انصاف تو نہ ملا تاہم قاتلوں کو تحریک انصاف میں پناہ ضرور ملی۔ لال مسجد کے ساتھ جس جس نے ظلم کیا وقت نے ان سب سے بدلہ لے لیا، چاہے وہ شیخ رشید احمدہوں یا اعجاز الحق، پرویز مشرف ہوں یا چوہدری شجاعت یا کوئی اور، وقت نے ان سے انتقام لے لیا اور لے رہا ہے۔ شیخ رشید احمد اور اعجاز الحق آج تک اپنی اس غلطی اور کوتاہی پر نہ صرف نادم بلکہ مسلسل پشیمان اور معافی کے طالب ہیں۔ رہی پرویز مشرف کی بات اسے تو اتنی جرات بھی نہیں کہ وہ اس ملک میں قدم رکھ سکے۔ چوہدری برادران کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے کیونکہ ان کے اردگرد گھومنے والے نئی پناہ گاہوں کی تلاش میں ہیں جبکہ چوہدری شجاعت اور ان کے کچھ ساتھی وقتی طور پر صدر زرداری کی پناہ میں آگئے، لیکن اب لگتا ہے کہ نئی پناگاہ تلاش کرنی پڑے گی کیونکہ صدر زرداری کے حوالے مستقبل کے حالات کچھ اچھے دکھائی نہیں دے رہے ہیں جبکہ بابر اعوان جیسے ڈیڑھ ہوشیاری لوگ اپنی شعلہ بیانی کے ذریعے پیپلز پارٹی بالخصوص صدر آصف علی زرداری کو اس مقام پر لا کھڑا کر رہے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔

اس ضمن میں ایک جانب سپریم کورٹ اور پیپلز پارٹی جبکہ دوسری جانب قومی سلامتی کے ادارے اور پیپلز پارٹی کی حکومت نبرد آزما نظر آتے ہیں۔ میمو گیٹ کو ملکی سلامتی پر حملہ قرار دیا جارہا ہے اس سے منسلک مبینہ لوگوں کا تعلق بھی صدر زرداری کے خصوصی دوستوں میں ہوتا ہے اس معاملے پر حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کے مابین اختلاف رائے واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے اور، اب یہ معاملہ بھی عدالت میں پہنچ چکا ہے۔ یہی صورت حال قومی مفاہمتی آرڈیننس( این آر او) کیس کی بھی ہے جس پرنظرثانی لی اپیل مسترد کئے جانے کا فیصلہ آچکا ہے، اب صرف عمل درآمد کی بات ہے اس کیس میں عمل درآمد ہی وہ نکتہ تھا جو حکومت اور عدالت کے درمیان تناﺅ کا سبب بنا ہے ۔حکومت کی خوائش ہے کہ عدالت فیصلہ ضرور کرے لیکن عمل کے حوالے سے خاموش رہے جبکہ عدالت عظمیٰ عمل چاہتی ہے۔اب سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت عمل نہیں کرتی تو یقینا تصادم ہوگا جس کا نتیجہ کسی بھی شکل میں نکل سکتا ہے۔26 نومبر2011ءکو امریکا اور نیٹو کی دہشت گردی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو بعض مبصرین میمو گیٹ سے توجہ ہٹانے یا کسی کو آنکھیں دکھانے کی کوشش بھی قرار دے رہے ہیں۔ معاملہ کچھ بھی ہو یہ یقینا ملکی سلامتی پر حملہ ہے اور اس کا مقابلہ ہمیں جرات مندی سے کرنا چاہئے۔ امریکی اورنیٹو کی دہشت گردی کے حوالے سے حکومت نے اب تک جو اقدامات کئے ہیں چاہے وہ دباﺅ کے ذریعے ہی کیوں نہ کئے ہیں وہ مناسب ہیں اب حکومت کو اس پر ڈٹ جانا چاہئے۔حالات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض قومی ادارے حکومتی پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں اور حکومت ہے کہ بیرونی امداد اور تعاون کا ساتھ چھوڑنے کےلئے تیار نہیں۔ صدر زرداری اب تک اپنی سیاسی چالوں کے ذریعے ہر حریف کو چت کرچکے لیکن لگتا ہے کہ اب ان پر بھی مشکل آن کھڑی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب وہ سازش کی بات کررہے ہیں اور بات یہاں تک پہنچی ہے کہ سپریم کورٹ میں واٹر گیٹ اسکینڈل اور سابق امریکی صدر نیکسن کے1974ءمیں استعفےٰ کی طرح کی باتیں بھی ہونی لگی ہیں۔

صدر زرداری کے پاس ایک سندھ کارڈ تھا لیکن اب لگتا ہے کہ اس کارڈ میں بھی جان نہیں رہی اس لئے کہ وقت کے حساب سے صدر زرداری نے لوگوں کو استعمال کیا۔ نظریاتی لوگوں کو نظر انداز کیا اور اب وہ مفاد پرست ٹولہ اپنے آپ کو بچانے کی فکر میں لگا ہوا ہے اور بعید نہیں کہ جب اقتدار کی چھتری ہٹ جائے تو پلٹ کر دیکھیں تو زرداری تن تنہا کھڑے ہوں گے۔ شاہ محمود قریشی کو ضیاءالحق کی باقیات قرار دینے والوں کےلئے 27 نومبر 2011ءکو گھوٹکی میں شاہ محمود قریشی کا بھرپور استقبال اور جلسہ یقینا ایک بہت بڑا دھچکاہے۔ زرداری پر اب مزید وار بھی ہونے والے ہیں، سندھ کی سطح پر قوم پرست اور پی پی مخالف قوتیں متحد ومنظم ہورہی ہیں جو ایک مضبوط اتحاد کی شکل میں سامنے آنے والی ہیں جس کا باقاعدہ اعلان دسمبر میں متوقع ہے۔ سابق وزرائے اعلیٰ ارباب غلام رحیم، لیاقت جتوئی، ممتاز بھٹو،غنویٰ بھٹو، قوم پرست تنظیموں کے علاوہ کچھ اور جماعتوں کی اس اتحاد میں شمولیت کا امکان ہے۔ یہ اتحاد پیپلز پارٹی کو سندھ میں مشکل میں ڈال کرصوبے میں متبادل کے طور پرسامنے آجائے گا۔ پیپلز پارٹی اورق لیگ نے ن لیگ کو دباﺅ میں لینے اور نیچا دکھانے کےلئے تحریک انصاف کے لاہور کے جلسے کوتو کامیاب کرایا لیکن اب تک تحریک انصاف کی جانب سے سفر کرنے والے تقریباً تمام ہی لوگوں کا تعلق پیپلز پارٹی یا پھر ق لیگ سے ہے اور اب باری عوامی نیشنل پارٹی کی بھی آرہی ہے۔یقیناًیہ بہت بڑی تبدیلی ہوگی جو پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کےلئے مشکلات پیدا کرے گی۔

سب سے بڑا مسئلہ پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کےلئے 25 دسمبر 2011ءکو تحریک انصاف کا کراچی میں ممکنہ جلسہ ہے۔ اگر یہ جلسہ کامیاب ہوتا ہے تو حکمران اتحاد کےلئے مشکلات پیدا ہوں گی اور اگر ناکام ہوتا ہے تو یہ تحریک انصاف کےلئے ایک بہت بڑا دھچکا ہوگا اور یہیں سے پھر سونامی کی واپسی شروع ہوجائے گی۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا ہے کہ تاریخی جلسہ کریں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کی مخالفت کے باوجود کراچی جیسے شہر میںمزار قائدکے مقام پر تاریخی جلسہ کرنے میں کامیاب ہونگے ؟۔ لگتا یہی ہے کہ جو جال ن لیگ کےلئے بچھایا گیا تھا اب اس میں پیپلز پارٹی ،ق لیگ اور اتحادی خود پھنس رہے ہیں۔ رہی بات عمران خان کی تو کہا یہی جاتا ہے کہ آخری وقت میں ان کا بھی وہی انجام ہوگا جو 2002ءکے انتخابات کے بعد ملک میں میاں اظہر کے ساتھ چودھریوں نے کیا اور سندھ میں ارباب غلام رحیم نے ایس ڈی اے کے سربراہ امتیاز شیخ کے ساتھ کیا۔ جو عمران خان دوسروں کی شفافیت پر سوالات اٹھاتے آج ان کے حوالے سے بھی بھی سوالات پیدا ہورہے ہیں،جن کا جواب دینا ہوگا ورنہ حالات اب ان کے قابو سے بھی باہر ہوجائیں گے اور سونامی تحریک انصاف کو بھی بہا کر لے کر جائے گا اور اس میں سب سے بڑا کردار شہدائے لال مسجد کا ہوگا۔ ویسے شہدائے لال مسجد کا خون ن لیگ بالخصوص مخدوم جاوید ہاشمی کا بھی پیچہا کر رہا ہے جنہوں نے شہداءکے خون کو2008ءخوب استعمال کیا اورکامیابی کے بعد بھول گئے ،الیکشن کے بعد انہیں سب کچھ یاد رہا لیکن لال مسجد کے شہداءیاد نہیں رہے۔شہداءے لال مسجد نواز شریف سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے چار سال میں شہداءکے انصاف کےلئے کیا کیا۔ اس سوال کا جواب سب نے دینا ہوگا۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 97442 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.