اینٹی پاکستان پیپلز پارٹی
عنصرہماری سیاست میں اس وقت ہی شامل ہو گیا تھا جب بھٹو نے پیپلز پارٹی کے
قیام کا اعلان کیا تھا اس وقت اس عنصر کی سر خیل جماعت اسلامی تھی بعد میں
دائیں بازو کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس گروہ میں شامل ہو گئیں اس تقسیم
کی وجہ اسلامی سوشلزم کا نعرہ بنااگر چہ اب اس نعرے کی معنوی حیثیت ختم ہو
چکی ہے پیپلز پارٹی نے بھی اس نعرے کا استعمال ترک کر دیا ہے۔عالمی افق پر
بھی اب سوشلزم اور کمیونزم کا نظام دم توڑ چکا ہے لیکن پاکستان میں یہ
تقسیم اسی طرح موجود ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا ایک mind set
ابھر کر آیا ہے اسmind set کے نمایاں خد وخال لا دینیت، قانون کا عدم
احترام اور آمرانہ ذہنیت ہیں اس پارٹی کو آمرانہ ذہنیت پارٹی کے بانی سے
ورثے میں ملی ہے جنرل ایوب کو آمرانہ اور ظالمانہ اقدامات کے مشورے دینے کے
لئے مشہور تھے۔ اپنے دورِ حکومت میں جمہوری آزادیاں سلب کر رکھی تھیں تقریر
و تحریر پر قدغن لگا ئے رکھی دفعہ 144 ان کے پورے دورِ حکومت میں ملک بھر
میں نافذ رہی ان کے دور میں مخالف سیاستدانوں کو عملی طور پر سیاست کرنے کی
اجازت نہیں تھی مخالفانہ آواز کو بزورِ قوت دبا دیا جاتا تھا خواجہ رفیق
اور احمد رضا قصوری کے والد کو سیاسی مخالفت کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھونا
پڑا ۔میاں طفیل محمد امیرِ جماعت اسلامی کو جیل میں جس غیر انسانی سلوک کا
سامنا کرنا پڑا اس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ
عدالت میں پیشی کے دوران ظلم و ستم کی تفصیل بتانے کی بجائے روتے رہے
جمہوریت کے ساتھ بھٹو صاحب کی وابستگی اس وقت اور زیادہ عیاں ہو گئی جب
انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کرانے کا خوداعتراف کیا غرض ان کے دور میں
قانون کی حکمرانی کا تصور تک نہ تھا ان کے منہ سے نکلا ہوا ہرلفظ قانون کا
درجہ رکھتا تھا بے نظیر بھٹو نے اپنے دونوں ا دوارِ حکومت میں جمہوریت کے
حوالے سے اپنے والد کی نسبت اپنا ریکارڈ بہتر کیا اب پیپلز پارٹی کا چوتھا
دورِ حکومت ہے جس کی باگ ڈور زرداری کے ہاتھوں میں ہے یہ اس جماعت کا سب سے
برا دور ثابت ہو رہا ہے موجودہ دور میں بھی ملک قانون کی حکمرانی سے محروم
ہے آئین اور قانون کا مذاق اڑایا جا رہا ہے پارلیمانی نظامِ حکومت میں صدرِ
پاکستان کاعہدہ آئین کی رو سے ایک غیر سیاسی عہدہ ہوتا ہے صدر ریاست کا
سربراہ ہوتا ہے اس کی وابستگی ریاست کے ساتھ ہوتی ہے نہ کہ کسی مخصوص سیاسی
جماعت کے ساتھ۔حالیہ دنوں عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں حکم دیا ہے کہ صدر
صاحب پارٹی کے کو چےئرمین اور صدرِ پاکستان میں سے کوئی ایک عہدہ اپنے پاس
رکھیں اور دوسرے عہدے سے مستعفی ہو جائیں لیکن زرداری صاحب صدارت کے ساتھ
ساتھ سیاست میں بھی پوری طرح ملوث ہیں سیاسی جوڑتوڑ توگویا ان کے فرائضِ
منصبی میں شامل ہے اعلانیہ سیاسی بیانات جاری کرتے رہتے ہیں اور آئے دن
پارٹی کے جلسوں کی صدارت کرتے ہیں حقیقت میں چیف ایگزیکٹو کے اختیارات بھی
وہ خود استعمال کر رہے ہیں گیلانی صاحب تو نوکری کر رہے ہیں جمہوریت کے
حوالے سے عدلیہ کے ساتھ ان کا طرزِ عمل قابلِ توجہ ہے اب تک تو یہی ثابت
ہوا ہے کہ وہ عدلیہ کے کسی ایسے فیصلے پر عمل کرنے کو تیار نہیں جس سے ان
کی اپنی ذات ،وزیرِ اعظم ، ان کا کوئی وزیر یا کولیشن پارٹنر براہ راست
متاثر ہوتا ہو ایسے فیصلے سے بچنے کے لئے سندھ کارڈ سمیت آپ تمام پتے
کھیلنے کے لئے تیار رہتے ہیں اس وقت صورتِ حال یہ ہے ملکی ترقی کو کرپشن نے
بریک لگا رکھی ہے اور یہ کرپشن کو تحفظ دینے کا کردار ادا کر رہے ہیں کرپشن
مقدمات میں عدالتی کاروائی کو بے توقیر اور بے اثر بنانے کے لئے حکومت ہر
حربہ استعمال کر رہی ہے جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ حکومت سر سے
پاؤں تک کرپشن کے کارو بار میں ملوث ہے (تمام جمہوری ممالک میں یہ ایک
مستحکم روایت ہے کہ سر براہِ حکومت سب سے پہلے اپنے آپ کو محاسبے کے لئے
پیش کرتا ہے اسلام میں تو عدل و انصاف اور محاسبے کا عمل شروع ہوتا ہی
حکمران کے گھر سے ہے )۔
پیپلز پارٹی کے اس مائنڈ سیٹ کے خلاف ماضی میں دائیں بازو کی جماعتیں باہمی
اختلافات کے باوجود بڑی حد تک متحد رہی ہیں بڑے بڑے سیاسی اتحاد وجود میں
آتے رہے ہیں لیکن یقین کے ساتھ نہیں کہاجا سکتا کہ آنے والے انتخابات میں
بھی یہ روایت قائم رہ سکے گی اس وقت اینٹی پیپلز پارٹی فورسسز میں سب سے
بڑی اور منظم فورس مسلم لیگ (ن) ہے جس نے پیپلز پارٹی کے غبارے سے ہوا
نکالی اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو دیوار کے
ساتھ لگایا وفاقی حکومت کی جس طرح کارکردگی جا رہی ہے آئندہ اتخابات میں
پیپلز پارٹی کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے اس پارٹی کا ایک minus
point اس کا پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ساتھ اتحاد ہے مسلم لیگ (ق) کی عوام
میں جڑیں نہیں ہیں اگر یہ دونوں پارٹیاں آئندہ انتخابات میں اتحاد بنا لیتی
ہیں تو یہ اتحاد مسلم لیگ (ن) کے لئے نقصان کی بجائے فائدہ مند ثابت ہوسکتا
ہے کیونکہ مسلم لیگ (ق) کا وجود ہی اینٹی پیپلز پارٹی عنصر(چودھری ظہور
الٰہی کا قتل )کا مرہونِ منت ہے حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کے بعدجب بنیاد
ہی ختم ہو گئی تو ووٹ بینک کیسا۔
مسلم لیگ (ن) کے لئے میدان بالکل بھی صاف نہیں ہے عمران خان بھی میدان میں
ہے اگر چہ تحریکِ انصاف کی تنظیم بہت کمزور ہے اور تنظیمی صلاحیت کا ہونا
انتخابی جیت کے لئے ناگزیر ہے بہر حال وہ مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچانے کی
پوزیشن میں ہیں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ عمران خان زرداری کی بجائے نواز
شریف کو کیوں زیادہ ٹارگٹ کر رہے ہیں شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے
پیپلز پارٹی کے ووٹ توڑنا مشکل ہو گا مسلم لیگ کے ووٹرز سے توقع کی جا سکتی
ہے کہ وہ تحریکِ انصاف کے کیمپ کا رخ کر لیں ایساممکن ہو سکتا تھا اگر
عمران خان اپنی توپوں کا رخ زرداری اور پیپلز پارٹی کی طرف رکھتے اینٹی
پیپلز پارٹی ووٹ وہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں جب کہ وہ سب سے بڑی اینٹی پیپلز
پارٹی قوت کو ٹارگٹ کر رہے ہیں پھر ان کے دلائل بھی کمزور ہیں حلال کی
کمائی غیر ملکی بینکوں میں رکھنے اور لوٹی ہوئی دولت غیر ملکی بینکوں میں
رکھنے کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے خان صاحب کو یہ فرق ملحوظ رکھناہو
گا- |