آڈٹ اور بد عنوانی کی سرپرستی

خبر گرم ہے کہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چئیرمین چوہدری نثار علی خان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔جب بھی نئی پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے تو قومی اور صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کا قیام عمل میں آنے کے بعد منتخب ہونے والے نئے چئیر مین سرکاری اداروں اور بیورو کریسی کے احتساب کی نوید سناتے ہیں۔ پی اے سی( پبلک اکاؤنٹس کمیٹی) کی میٹنگز میں آڈٹ پیروں کو بنیاد بنا کر کرپشن اور بد عنوانی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ایسا ہی کچھ قومی اسمبلی میں موجودہ اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان کے چئیر مین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بننے کے بعد دیکھنے کو ملاتھا۔ پھر کچھ عرصہ سکوت رہا ۔’’چوہدری صاحب ‘‘ قومی خزانے کے خائنوں کو گرفت میں لانے کا نعرہ لگا کر سیاست میں مشغول ہوگئے تھے۔ ہم مایوس نہیں ہوئے تھے کہ مایوسی گناہ ہے۔ اس انتظار میں رہے کہ شاید چوہدری نثار علی کو مسلم لیگ ن کی سیاست سے کچھ وقت بچ جائے تو آڈٹ کرنے والے عملے کی کارستانیوں کا جائزہ بھی لیں۔کیونکہ اس وقت سرکاری اداروں اور محکموں کا آڈٹ کرنے والے ادارے بدعنوان افسران اور اہلکاروں کے لئے سونے کی چڑیا بن چکے ہیں۔جس طرح ہمارے ہاں بیورو کریسی نے پورے ملکی نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے اسی طرح آڈیٹر جنرل اور اکاؤنٹنٹ جنرل کے محکموں نے پوری بیورو کریسی کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ہماری ساری امیدیں حسرتوں میں بدل گئیں اور اب وہ وقت آگیا جب پی اے سی کے حوالے سے چوہدری نثار علی خان گئے وقتوں کی کہانی بن گئے۔سوچا اب اپنی ناتمام حسرتوں کو سپرد قرطاس کرتے ہوئے آڈٹ اداروں کی چیرہ دستیاں عوام کی عدالت میں پیش کی جائیں۔

’’ مالیاتی محتسبوں ‘‘ کی کرپشن کی کہانی کچھ یوں ہے کہ وفاقی اور صوبائی محکموں کے مالیاتی اموراور حسابات کی جانچ پڑتال کے لئے علیحدہ علیحدہ محکمے قائم ہیں۔بعض محکموں میں دوہرے آڈٹ کا نظام قائم ہے۔آمدنی والے اداروں میں ڈیپارٹمنٹل آڈٹ سسٹم( انٹر نل آڈٹ) پری آڈٹ کے ساتھ ساتھ ’’ ایکسٹرنل آڈٹ سسٹم ‘‘ بھی رائج ہے۔وفاقی اداروں میں آڈیٹر جنر ل اور صوبائی اداروں میں اکاؤنٹنٹ جنرل کے اہلکار آڈٹ کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

آڈٹ کے لئے مختلف ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں جو سارا سال مختلف علاقوں میں جا کر محکموں اور سرکاری اداروں کی آمدنی اور اخراجات کے معاملات کی چھان بین کرتی ہیں۔پہلے پہل ایک ٹیم میں ایک آڈٹ آفیسر ، دو جونئیر آڈیٹر اور ایک درجہ چہارم کا ایک ملازم شامل ہوتا تھا۔ لیکن آجکل ایک سینئر آڈیٹر کے ساتھ جونیر آڈیٹر کو بھیج کر کام چلا یا جانے لگا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ ٹیموں کی تشکیل کے مرحلے سے ہی کرپشن کا آغاز ہوجا تا ہے۔’’مجاز اتھارٹی ‘‘ اکثر اوقات ایسے من پسند افراد پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دینے کو ترجیح دیتی ہے جو فیلڈ میں آڈٹ کی ’’چھری ‘‘ چلاتے وقت نہ صرف خود مال بناسکتے ہوں بلکہ اس میں ’’اوپر ‘‘ والوں کو بھی حصہ دار بنانے کا فن جانتے ہوں۔

آڈٹ ٹیم اپنے فرائض کی ’’انجام دہی‘‘ کے لئے کسی دفتر میں پہنچتی ہے تو پورے دفتر میں گویا ایمر جنسی نافذ ہو جاتی ہے۔ٹیم کے قیام و طعام کے لئے ہنگامی بنیادوں پر وی آئی پی انتظامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں ان خصوصی مہمانوں کی خدمت بجا لانے کے لئے چھوٹے سے چھوٹے اہلکار سے لے کرافسران تک سبھی تیار ہوتے ہیں۔اور ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو۔حالانکہ آڈٹ کے عملے کو اپنے محکمے کی طرف سے ٹی اے ڈی اے سمیت ہر قسم کی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔لیکن پھر بھی آڈٹ ٹیم متعلقہ دفتر کے لئے ’’ پیرا سائیٹ ‘‘ ثابت ہوتی ہے۔

یہ لوگ اپنی آمد کے ایک دو رو ز بعد تک خوب رنگ دکھاتے ہیں۔ریکارڈ پر طرح طرح کے اعتراضات لگائے جاتے ہیں اور زیادہ تعداد میں سخت سے سخت آڈٹ پیراجات بنائے جانے کی دھمکیاں اور اشارے دئے جاتے ہیں۔ان ہتھکنڈوں سے متعلقہ دفتر کے اہلکار اور افسران پریشان ہو جاتے ہیں اور پھر سرکاری رقوم میں کی گئی خرد برد اور مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کے خوف سے آڈٹ ٹیم کی ہر خواہش کے احترام کا عندیہ دے دیا جاتا ہے۔آڈٹ کے عملے سے صرف نچلے اور درمیانے درجے کے ملازمین ہی خوف زدہ نہیں رہتے بلکہ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعینات بڑے اور طاقتور افسران بھی ا ن سے خوفزدہ رہتے ہیں۔

اس دوران متعلقہ محکمہ کے اہلکاروں کی جانب سے دانستہ طور پر ایسی کوششیں بھی کی جاتی ہیں کہ آڈٹ ٹیم کو ریکارڈ ملاحظہ کرنے کا زیادہ موقع نہ ملے۔ٹیم کو سیر کے لئے صحت افزا مقام پر لے جانے کے ساتھ ساتھ مختلف مشاغل میں الجھا دیا جاتا ہے۔ بعض چالاک آڈیٹر حضرات چھوٹے عملے سے رابطہ قائم کرکے ان سے معلومات حاصل کرکے عملے کو بلیک میل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔لیکن اسی دوران ان کی متعلقہ اہلکاروں کے ساتھ انڈرا سٹینڈنگ ہو جاتی ہے۔پیچیدہ اور سنگین نوعیت کے آڈٹ پیراجات پر ’’ معاملہ ‘‘ طے ہو جاتا ہے اور انہیں آڈٹ رپورٹ سے نکال دیا جاتا ہے۔اور ان کی جگہ برائے نام آڈٹ پیرا جات شامل کرکے رپورٹ کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے۔ٹیم کی واپسی کا وقت جیسے جیسے قریب آتا جاتا ہے ان کی ڈیمانڈز میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔اور یوں آڈٹ کا وقت ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی بہت سی مرادیں پوری ہو جاتی ہیں۔اور کام ختم کرکے گھروں کو لوٹتے وقت ان کے ہمراہ بڑی مقدار میں خشک فروٹ،میوہ جات، کپڑے، شہد کی بوتلیں اور دیگر تحائف ہمراہ ہوتے ہیں اور یوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک دفتر کے آڈٹ کا پہلا مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے۔

دوسرے مرحلے پرآڈٹ رپورٹ موصول ہونے پر محکمہ کے افسران اور اہلکار اعتراضات کا جواب دیتے ہیں۔اسی دوران اگر دوبارہ آڈٹ ٹیم آجائے تو محکمے تیار کر دہ جواب دیکھ کر پیرا ختم ( ڈراپ) کر دیا جاتا ہے۔اس موقع پر بھی خصوصی خدمت کا عمل دوہرایا جاتا ہے۔باقی بچ جانے والے آڈٹ پیراجات کے لیئے ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی ( D.A.C ) کا اجلاس ہوتا ہے۔ میٹنگ سے پہلے ایک آڈٹ آفیسر پیرا جات سے متعلقہ ریکارڈ کی پڑتال یا تصدیق کرتا ہے۔اور اکثر اوقات ویریفیکیشن کے دوران ہی ’’ مک مکا ‘‘ ہو جاتا ہے۔دوسرے دن اجلاس کے دوران آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کا نمائندہ خاموش ہو جاتا ہے اور میٹنگ میں محکمہ کے جواب کو درست تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ جو آڈٹ پیراجات ڈراپ نہ ہوں وہ اگلے اجلاس تک باقی کر دئے جاتے ہیں ۔ یا پھر ’’ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ‘‘ کو بھیج دئے جاتے ہیں۔

یہ ہمارے ہاں رائج آڈٹ سسٹم کی ایک معمولی سی جھلک تھی۔جبکہ آڈٹ کے محکموں کے عملے کی کارستانیوں اور ستم ظریفی کی کہانیوں کا سلسلہ خاصا طویل اور تکلیف دہ ہے۔اکاؤنٹنٹ جنرل اور مختلف اضلاع میں قائم ضلعی دفاتر خزانہ صرف آڈٹ کے معاملات ہی میں مال نہیں بناتے بلکہ تنخواہوں، کنٹیجنسی بلز، سرکای ملازمین کی تنخواہوں، بقایا جات ، جی پی فنڈ اور پنشن وغیرہ کے مراحل میں بھی ان لوگوں کی ’’ چاندی ‘‘ ہی رہتی ہے۔یہ شکایات اب تصدیق کے مراحل سے گزر کر ایک حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں کہ ضلعی دفاتر خزانہ میں کوئی بھی کام مٹھی گرم کئے بغیر نہیں ہوتا۔

سرکاری اداروں میں بڑھتے ہوئے اخراجات، خرد برد ، مالی بے ضابطگیوں اور خسارے کی ایک بڑی وجہ آڈٹ اور اس سے متعلقہ محکموں میں پایا جانے والا کرپشن کا وائرس ہے جو اب ناقابلِ علاج ہوتا جا رہا ہے۔اگر آڈٹ کرنے والا عملہ دیانتدار، فرض شناس ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ سرکاری اداروں کے فنڈز اور حسابات میں خورد برد اور بد عنوانیوں کا سدِ باب نہ ہو سکے۔لیکن ہمارے ہاں آڈٹ کرنے والے محکموں میں کرپشن آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ان محکموں کے اہلکاروں کی حرکتیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ دوسروں سے مال بٹورنا،اپنی جیبیں بھرنا،ٹی اے ڈی اے وصول کرکے سرکاری گاڑیوں کا بے دریغ ناجائز استعمال کرنا، سرکاری دفاتر اور ریسٹ ہاؤسسز میں قیام کرکے ہوٹلوں میں رہائش کے جعلی بل تیارکرکے قومی خزانے سے رقم وصول کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔

آخر میں ہم قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے نئے چئیر مین کی طرف رجوع کرتے ہوئے انہیں مشورہ دینے کی جسارت کریں گے کہ پی اے سی کے کسی آئندہ اجلاس میں آڈٹ کے محکمے کے احتساب کا نعرہ بھی بلند کریں یقین کریں کہ بہت سی کرپشن ختم ہو جائے گی۔یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید عبد القادر گیلانی کو پنجاب اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیرمین بنایا گیا تھا ۔ کم عمر عبد القادر گیلانی سے بھی ہم نے کچھ توقعات وابستہ کی تھیں۔ لیکن حج سکینڈل اور دیگر معاملات کے حوالے سے جو کچھ ہمارے علم میں ہے اس پر ہم یہ ذہن میں لاکر خاموشی اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھیں گے کہ ’’بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میان سبحان اللہ‘‘۔
انوار حسین حقی
About the Author: انوار حسین حقی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.