ایک دوروہ تھا جب ہمارے سیاستدان
اپنے اثاثے فروخت کرکے عوام کی خدمت اور سیاست کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے
پاس کاروبار کیلئے وقت نہیں ہوتا تھا اورایک دوریہ ہے جہاں سیاستدان سیاست
کی آڑ میں دھڑادھڑاثاثے بنانے میں مصروف ہیں۔سرمایہ داروں نے تجارت کی طرح
سیاست کوبھی یرغمال بنالیا ہے اب کوئی عام آدمی قومی یاصوبائی اسمبلی میں
جانے کاتصوربھی نہیں کرسکتاکیونکہ اب کوسیاست کوایک منفعت بخش
کاروباربنادیا گیاہے۔ماضی میں سیاستدان اپنے ووٹرزکے کام کیلئے خودساتھ
چلتے اور اپنے ذاتی وسائل استعمال کیا کرتے تھے جبکہ اب اگرکسی کاکوئی
جائزیاناجائزکام کرناہوتواس سے پہلے معاملہ طے کیا جاتا ہے۔اندرون ملک سمیت
اوورسیزسے پارٹی فنڈکے نام پرکروڑوں اوراربوں روپے اکٹھے ہوتے ہیں جوپارٹی
سربراہان کے نجی اکاﺅنٹ میں چلے جاتے ہیں اورسیاسی پارٹیوں کی مختلف تقاریب
کیلئے ارکان اسمبلی اورعہدیداران سے الگ چندہ لیا جاتا ہے۔ قومی وصوبائی
اسمبلی کیلئے پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں سے درخواست کے ساتھ فی کس ہزاروں
اورپارٹی فنڈ کے نام پرکروڑوں روپے ناقابل واپسی وصول کئے جاتے ہیں۔ٹکٹ
اورپارٹی عہدے کے خواہشمند افرادپارٹی لیڈرکی خدمت میںقیمتی گاڑیوں،گھڑیوں
اورآئی فون سمیت مختلف تحائف پیش کرتے ہیں مگران کاکوئی ریکارڈنہیں
ہوتا۔سیاستدانوں کویہ بات پسندنہیں کہ کوئی ان سے ان کی آمدنی یااثاثوں کے
بارے میں سوال کرے یاان پرانگلی اٹھائے۔
عمران خان نے اپنے اثاثہ جات ڈکلیئر کرنے میں دیرکردی تاہم گینداب صدرآصف
زرداری اورمیاں نوازشریف سمیت دوسرے پارٹی سربراہان اورسیاستدانوں کے کورٹ
میں ہے ۔ عمران خان نے اپنے اثاثوں کی ڈکلیئریشن سے دوسری سیاسی پارٹیوں کے
سربراہان کوایک کٹھن امتحان میں ڈال دیا ہے ۔عمران خان نے جس وقت اثاثوں کے
ایشوکوتحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں اورپروگرام کامحوربنایا تھااگرا خلاقی
طورپروہ اسی وقت اپنے اثاثے ظاہرکردیتے تو زیادہ اچھاہوتا ۔ عمران خان نے
اپنے اثاثوں کی ڈکلیئریشن کے وقت صدرآصف زرداری اورمیاں نوازشریف کوچیلنج
کیاتھاتاہم اس پرصدرزرداری توابھی تک خاموش ہیں جبکہ میاں نوازشریف کی
بجائے میاں شہبازشریف نے اپنے اوراہل خانہ کے اثاثے ڈکلیئرکرکے ایک سوال
کھڑاکردیا ہے،وہ یہ کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف ہیں توپھران
کی بجائے میاں شہبازشریف نے اپنے اوراپنے بیٹوں حمزہ شہبازاورسلمان شہبازکے
اثاثے ظاہر کرنے میں عجلت سے کام کیوں لیا ۔ میاں نوازشریف سے پہلے میاں
شہبازشریف کااپنے اثاثے ظاہرکرنابلاشبہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔میاں
نوازشریف کی صاحبزادی مریم نوازکی سیاست میں آمدسے اس تاثر تاثر کوتقویت
ملی ہے کہ انہیں حمزہ شہبازکوکاﺅنٹرکرنے کیلئے میدان سیاست میں اتاراگیا ہے
کیونکہ بیگم کلثوم نوازنظریہ ضرورت کے تحت اس وقت سیاست میں آئی تھیں جس
وقت میاں نوازشریف اٹک قلعہ میں قید تھے اوران کی زندگی کو خطرہ تھا تاہم
شریف خاندان کی رضامندی سے جلاوطنی اورپھروطن واپسی کے بعدانہوں نے کبھی
دوبارہ سیاست کارخ نہیں کیااورنہ انہوں نے کبھی پلٹ کران کارکنوں کی طرف
دیکھا جوان کے ساتھ مجلس تحفظ پاکستان میں اپنافعال کردارادا کرتے رہے۔میا
ں نوازشریف کے داماد اورممبرقومی اسمبلی محمدصفدر کومسلم لیگ (ن) کے اندرہ
پذیرائی نہیں ملی جوحمزہ شہبازکونصیب ہوئی ہے ۔جس پرمریم نوازکوآزمانے
کافیصلہ کیا گیاتاہم سیاسی پنڈت مریم نواز کی شخصیت اورخوداعتمادی سے کافی
متاثرہیں ۔
پاکستان میں پٹواری اور تھانیدار سمیت سبھی یارلوگ اپنے نام پراثاثے نہیں
رکھتے بلکہ احتیاطی اورحفاظتی تدابیر کے تحت اپنے بیوی بچوں یاعزیزواقارب
کانام استعمال کیا جاتا ہے لہٰذاسیاستدانوں کے اثاثہ جات ظاہرہونے سے کچھ
نہیں ہوگاکیونکہ صدرآصف علی زرداری اورمیاں نوازشریف سمیت پاکستان کاحکمران
طبقہ اتناسادہ نہیں ہے جو وہ اپناسب کچھ اپنے نام پر رکھیں گے۔جہاں
حکمرانوں اورمنتخب عوامی نمائندوں کویہ فن آتاہوکہ اپنے اثاثوں کوکس طرح
چھپانایاکم ظاہرکرناہے وہاں اثاثے ظاہرکرنے کی رٹ محض ایک سیاسی سٹنٹ ہے،اس
سے عوام کوتوبیوقوف بنایاجاسکتا ہے مگرمنجھے ہوئے سیاستدانوں کوہراساں
یابلیک میل نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان میں سیاستدانوں اورسرمایہ داروں کوٹیکس
سمیت مختلف قانونی پیچیدگیوں سے بچاﺅکیلئے اکاﺅنٹس میں ہیرپھیرکرنے میں
مہارت رکھنے والے افرادکی خدمات دستیاب ہوتی ہیں ۔ہمارے ہاں زیادہ
ترسیاستدان اورمنتخب نمائندے ایک طرف انتخابی گوشواروںمیں خودکومقروض
ظاہرکرتے ہیں اوردوسری طرف انتخابات میں ہونیوالے بھاری اخراجات کو دو ست
احباب یامریدوں کی طرف سے ملے تحائف بتاکر متعلقہ اداروں کوگمراہ کیا جاتا
ہے ۔ ہمارے ملک میں رائج سیاسی نظام اس قدرآسانی سے نہیں بدلے گاکیونکہ
پاکستان کے بیشتراداروں کو کرپشن نے زنگ آلودکردیا ہے۔اگرہمارے ملک میں
ڈاکٹری اوروکالت سمیت میں ہرقسم کی جعلی ڈگریاں بن سکتی ہیں توپھراثاثے
چھپانے کیلئے جعلی دستاویزات کیوں نہیں بنائے جاسکتے۔عمران خان نے صرف بال
ٹمپرنگ کانام سناہے مگرانہیں پاکستان میں پیپرٹمپرنگ کے بارے میں معلومات
نہیں ہیں ۔پاکستان میں اینٹی کرپشن کوآنٹی کرپشن کے نام سے یادکیا جاتا
ہے،لہٰذا کروڑوں روپے کی کرپشن کرنیوالے لاکھوں روپے رشوت دے کرباآسانی
چھوٹ جاتے ہیں ۔ جب تک اس کرپشن کی نحوست سے نجات نہیں ملے گی اس وقت تک
ہمارے معاشرے سے اثاثے چھپانے ،ٹیکس چوری،بجلی چوری ،پانی چوری اوردوسروں
کی زمین جائیدادپرقبضہ کرنے کی مجرمانہ روش ختم نہیں ہوگی۔
عمران خان کونامعلوم ان کے کس مشیر نے اثاثوں کے پیچھے لگادیا ہے ،اثاثوں
کی ڈکلیئریشن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر پاکستان کاحقیقی چیلنج
بیرون ملک اثاثوں کی ہمارے ملک میں منتقلی ہے ۔ہمارے حکمرانوں
،سیاستدانوں،ججوں ،جرنیلوں اوربیوروکریٹس کے بیرون ملک بڑے پیمانے پر
کاروبارہیں اوران کاسرمایہ بھی بیرونی بنکوں میں پڑاہے ۔ان لوگوں نے
پاکستان کی قومی معیشت کی رگ رگ سے لہوکاایک ایک قطرہ نچوڑلیا ہے ۔یہ لوگ
حکومت اورسیاست پاکستان میں مگرتجارت پاکستان سے باہران ملکوں میں کرتے
ہیںجودوستی کی آڑمیں ہمارے ساتھ دشمنی نبھاتے ہیں۔اگریہ لوگ پاکستان میں
انوسٹمنٹ نہیں کریں گے توبیرونی سرمایہ کار اپناسرمایہ ہمارے ملک میں کیوں
لگائیں گے۔اوراگرپاکستان میں سرمایہ کاری نہیں ہوگی توہمارے
افرادکوروزگارکس طرح ملے گا۔ضرورت اس امرکی ہے کہ جولوگ پاکستان میں سیاست
کرتے اورحکومت کے خواہاں ہیں اورملک وقوم کی تقدیرتبدیل کرنے کے بلندبانگ
دعوے کرتے ہیں انہیں یاان کے اہل خانہ کے کسی فردکوپاکستان سے باہرایک پائی
کی انوسٹمنٹ کرنے کی اجازت نہ دی جائے ۔ایسی قانون سازی کی جائے جس کے بل
پر پاکستان سے باہرایساکوئی بھی کاروبار جوہمارے حکمرانوں اورسیاستدانوں کے
اپنے یاان کے اہل خانہ کے نام پرچل رہاہواسے پاکستان منتقل کیاجائے ۔اس
اقدام سے ہمارے ہنرمندافرادکواپنے ملک روزگارملے گااور ہماری افرادی قوت
دیارغیر نہیں جا ئے گی۔
سیاستدان اوردوسرے افراداپنے اثاثوں کی ڈکلیئریشن کے ساتھ اس بات کی بھی
وضاحت ضرورکریں کہ انہو ں نے یہ اثاثہ جات کس طرح بنائے اوروہ بیرون ملک کی
بجائے پاکستان میں کاروبارکیوں نہیں کرتے۔ اگر انہیں پاکستان میں کاروباری
سہولیات پراعتمادنہیں ہے توکوئی پرایاسرمایہ کار ہمارے ملک کارخ کیوں کرے
گا ۔ ہمارے ہاں مقتدرطبقات کو اختیارات سے تجاوزاورا ن کاناجائزاستعمال کر
نے کی بری عادت ہے۔بجٹ بنانے والے اپنی معلومات کونہ صرف اپنے کاروبارکیلئے
استعمال کرتے ہیں بلکہ اپنے عزیزواقارب کوبھی مستفیدکرتے ہیں ۔حکمران
اورسیاستدان اپنے عہدے اور اثرورسوخ کے بل پراپنا کاروبارخوب چمکاتے ہیں
اورکروڑو ں کی جائیدادکوڑیوں کی قیمت پرخرید لی جاتی ہے۔پھروہاں شاہراﺅں
سمیت ترقیاتی منصوبوں کاجال بچھانے کیلئے قومی وسائل کارخ اپنے محلات
اورفارم ہاﺅسز اورانڈسٹریزکی طرف موڑدیاجاتا ہے۔بنک بھی عام آدمی کی بجائے
نام نہاد اشرافیہ کوقرض جاری کرتے ہیںجوبعدمیں معاف کردیاجاتا ہے۔آپ اس بات
سے اندازہ لگائیں کہ پاکستان کاقومی خزانہ تقریباًخا لی ہوگیا ہے جبکہ
ہمارے حکمرانوں ،سیاستدانوں اور کاروباری شخصیات کی تجوریاں لبا لب بھری
ہوئی ہیں۔کیونکہ انہیں پاکستان کی قومی معیشت سے نہیں صرف اپنے نجی کاروبار
کی مضبوطی اورترقی سے سروکارہوتا ہے۔عمران خان اثاثوں کی رٹ چھوڑیں
اورسیاستدانوں کے بیرون ملک کاروباری اداروں اور اثاثوں کی وطن واپسی کیلئے
آوازاٹھائیں۔ |