بھلا ہو اس لوڈ شیڈنگ کا جس نے
ہمیں بھی لکھاری بنا دیا ۔شدید ترین گرمی میں جب باغیانہ خیالات دماغی بھٹی
میں تپنے لگتے ہیں تو ہم بے اختیار کا غذ قلم سنبھال لیتے ہیں ۔ آج کل
چونکہ انقلاب اور بغاوت جیسے الفاظ زبان زدِ عام ہیں ، اس لئے ہمارے کالم
بھی خوامخواہ ایسے ہی مقبول ہو جاتے ہیں جیسے محترم جاوید ہاشمی کی ”ہاں
میں باغی ہوں“ محض اپنے نام کی بنا پر مقبول ہو گئی ۔حالانکہ ہم ان سے کہیں
بہتر آپ بیتی لکھ سکتے تھے لیکن ہمیں کوئی جیل ہی میسر نہیں آ ئی یوں تو
میاں شہباز شریف بھی بُلٹ پروف کی اوٹ سے ہاتھ لہرا لہرا کرانقلاب انقلاب
پُکارتے رہتے ہیں لیکن اُن کے سیاسی وارث نے تو ہم پنجابیوں پر ”مرغی حرام
“ کررکھی ہے ۔
کچھ لوگوں کو یقین ہے کہ یہ لوڈ شیڈنگ بھی امریکی سازش ہے ۔ پتہ نہیں عمران
خان کو کب علم ہو گا اور وہ کب دھرنا دیں گے۔ نذیر ناجی کا یہ ”ڈرون سیاست
دان “ بھی عجیب ہے جسے پاکستان کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ دنیا فیملی
پلاننگ پر کھربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے جبکہ ہمارے دوست کی مہربانی سے نہ صرف
ہماری آبادی مفت میں کم ہو رہی ہے بلکہ غریب حکمرانوں کو جھولیاں بھر بھر
کر ڈالر بھی مل رہے ہیں گویا ”آم کے عام ، گٹھلیوں کے دام “ پھر بھی وسیع
ظرف امریکہ نے کبھی احسان نہیں جتایا ۔وہ بیچارہ تو یہ بھی نہیں جتلاتا کہ
اس کی ایک ڈرون پرواز پر کتنے ملین ڈالر صرف ہوتے ہیں اور ایک ایک خود کُش
بمبار کی تیاری پر اسے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں ؟۔پھر بھی یہ گلہ کہ
امریکہ ہمارا دوست نہیں ؟ ۔
کتنے احسان نا سپاس ہیں ہم جو ایک چھوٹی سی امریکی ”واردات “ پر ”ان کیمرہ
بریفنگ “ اور تحقیقاتی کمیشن پر اتر آئے ۔ شائد اسی بنا پر ہمارے سیکرٹری
خارجہ سلیمان بشیر کو تنگ آ کر یہ کہنا پڑا کہ ”قوم پریشان نہ ہو ہمارے
اعصاب بہت مضبوط ہیں ۔ اُن کی بات ہے تو پتے کی ۔ ہم نے اپنے چالیس ہزار
بندے مروائے ، پانچ ہزار جوان شہید کروائے ، ستّر ارب ڈالر دہشت گردی کی
نظر کئے ، سو ارب ڈالر معشیت میں نقصان اُٹھایا ، ریمنڈ رہا کیا ، ایبٹ
آباد کا سانحہ ہوا اور پی۔این۔ایس مہران میں گنتی کے چند دہشت گردوں نے
ہمارا بھرم توڑا ، لیکن مجال ہے جو ہمارے معمولاتِ زندگی میں بال برابر بھی
فرق آیا ہو ۔ کچھ احمق اسے بے غیرتی اور بے شرمی پر محمول کرتے ہیں حالانکہ
یہی تو اعصاب کی مضبوطی ہے ۔ پی۔این۔ایس مہران سے یاد آیا ۔ سُنا ہے کہ اس
پر بھی ”ان کیمرہ بریفنگ “ کا شور اُٹھا تھا لیکن جنرل کیانی نہیں مانے کہ
فردوس عاشق اعوان پہلے بھی ”روندی“ مار گئی تھیں ۔
ابّا میاں کہا کرتے تھے کہ گرمی بڑی نعمت ہے ۔جتنی زیادہ گرمی پڑتی ہے اتنے
ہی بیماریوں کے جراثیم ختم ہوتے ہیں ۔اُس وقت ہمارا معصوم ذہن سوچا کرتا
تھا کہ جہنم میں تو گرمی ہی گرمی ہو گی ، وہاں تو سبھی صحت مند ہوں گے اور
جنتی لوگ تو بیمار شمار ہی رہیں گے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ تب ہمیں جہنم میں
اُتنی ہی کشش محسوس ہوتی تھی جتنی کشش ہمارے گیلانی اور زرداری صاحب کوآج
کل ڈرون حملوں میں ہوتی ہے ۔ شائد اپنے مربی ومحسن امریکہ اور اس کے ڈرون
حملوں کے خلاف عاقبت نا اندیش سیاست دانوں کے متواتر شور و غوغا سے تنگ آ
کر ہی زرداری صاحب طویل ”مراقبے“ سے نکلے اور نکلتے ہی خوب گرجے برسے
۔انہوں نے فرمایا کہ عنقریب نیوز چینلز پر اداکار نہیں ، دانشور بیٹھیں گے
۔ اسے کہتے ہیں ”تنگ آمد بجنگ آمد“ ۔الیکٹرونک میڈیا نے بھی مزاحیہ ”ٹاک
شوز“ کی آڑ میں دُنیا جہان کے ”بھانڈوں “ کو ان کے پیچھے لگا کر ناطقہ بند
کر رکھا تھا ۔ ”اینکرز اور اینکرنیوں “ کو نذیر ناجی ”چھاتہ بردار“ کہتے
ہیں ۔ لیکن میرے خیال میں وہ ”کھمبیاں“ ہیں جو اُگنے پہ آتی ہیں تو بے
تحاشا اور بلا سبب اُگ آ تی ہیں ۔ جس بات سے میں خوف زدہ ہوں وہ یہ ہے کہ
سُسر نے کہا تھا ”تھوڑی سی پیتا ہوں ، کوئی حلوہ تو نہیں کھاتا “ جب کہ تین
عشروں بعد داماد نے انتہائی حقارت سے میاں نواز شریف کے لئے ”مولوی “ کا
استعارہ باندھا ہے ۔ زرداری صاحب ! ذرا بچ کے ، یہ مولوی حلوہ کھاتے ہی
نہیں کبھی کبھی بانٹتے بھی ہیں ۔اگر بات پلّے نہ پڑی ہو تو ”اعوان قلندر “
سے پوچھ لیں جو حلوہ بانٹنے کی تاریخ کا ایک اہم حصّہ رہے ہیں ۔یہ اعوان
صاحب بھی خوب ہیں ۔ کبھی ڈاکٹر بن جاتے ہیں ، کبھی قلندر ۔چند دن ہوئے ایک
ٹی۔وی ٹاک شو میں اپنے بارے میں فرما رہے تھے ۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دِل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
وہ ”قلندر“ ہیں یا ”مچھندر“ یہ وہ جانیں یا رانا ثنا اﷲ لیکن ہم تو اتنا
جانتے ہیںکہ وہ ”ڈاکٹر “ بنے تو حریفوں کے جعلسازی کے طعنوں کے باوجود وہ
آج بھی ڈاکٹر ہیں (سُنا ہے کہ وہ رحمٰن ملک کے لئے بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری
لائے تھے لیکن وہ بُز دِل نکلے اور بھاگ گئے )۔اب اگر بابر اعوان ”قلندری“
کے منصب پر فایز ہوئے ہیں تو کس کی مجال جو دم مار سکے البتہ ان سے پوچھنا
پڑے گا کہ وہ کون سے قلندر ہیں؟ کیوں کہ لغت میں ڈگڈگی بجا کر بندر نچانے
والے کو بھی قلندر کہتے ہیں ۔
رہا میاں برادران کا معاملہ تو زرداری صاحب لاکھ انہیں صبر کے مشورے دیں ان
پر کچھ اثر نہیں ہونے والا کیوں کہ اب ان کا ”جھاکا“ کھُل چُکا ہے ۔زیادہ
سے زیادہ کیا ہو گا ؟ ۔ ایک دفعہ پھر خوش الحان میاں شہباز شریف کسی سعودی
طیارے میں بیٹھتے سمے گُنگنانے لگیں گے کہ :۔
ہم تو چلے پردیس ، ہم پردیسی ہو گئے
چھوٹا اپنا دیس ، ہم پردیسی ہو گئے
اور اس دفعہ تو انہیں لمبے چوڑے بریف کیس بھی ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں
کیونکہ وہ تو پہلے ہی باہر پڑے ہیں ، البتہ محترم زرداری صاحب کے لئے ایک
مخلصانہ مشورہ ہے (گر قبول افتد زہے عزو شرف) کہ آئیندہ اپنی تقریروں میں
لفظ ”لوہار“ کے استعمال سے گریز کریںکیونکہ وہ محاورہ تو اُنہوں نے سُنا ہی
ہو گا کہ :۔ ”سو سُنار کی ، ایک لوہار کی “
بات لوڈ شیڈنگ سے شروع ہوئی اور کہیں دور نکل گئی ۔ بہرحال لگتا ہے کہ اب
مستقل بنیادوں پر”سیاسی لوڈشیڈنگ “ ہو گی ۔کیونکہ اب جوتیوں میں دال بٹنے
لگی ہے لیکن عوام خوش ہیں کہ ان کے شغل میلے کا کچھ تو سامان ہوا ۔۔۔ |