پاکستانی سیاست کے مستقبل کا نقشہ اور دائیں بازو کا کردار

ستمبر ستمگر اصطلاح پاکستانی سیاست میں کافی پرانی تھی مگر اس بار مسلم لیگ (ف)کے سربراہ اور بزرگ سیاست دان پیر پگارا نے”نومبر ستمگر“ اور” دسمبر ستمگر“ اصطلاح کو متعارف کرایا ہے اور کسی حد تک صورت حال بھی اس کی نشاندہی کر رہی ہے،اسی لیے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ موجودہ عالمی بالخصوص پاکستانی سیاست پر اعتبار کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے، کیونکہ یہاں یہ علم نہیں ہوتا کہ کون کب کس کا دوست یا دشمن ہوگا۔ اس کوچہ ملامت میں سب کچھ ذاتی مفادات کے لیے ہوتا ہے مگر نام غریب عوام کا استعمال کیا جاتا ہے اور جب ذاتی مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتو پھر ”گوگو “اور” یس یس“ کے نعروں کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔ اس وقت ملک کو ایسی ہی سیاست کا سامنا ہے ۔ ہماری قومی سیاست مختصر خاموشی کے بعد ایک مرتبہ پھر بھرپور الزام تراشیوں اور”گو گو“ اور”یس یس“ کے نعروں سے گونجنا شروع ہوگئی ہے، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ پانچ سالوں کے لیے نئی صف بندی ہورہی ہے۔ بظاہر دیکھا جائے تو اس وقت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر آصف علی زرداری اپنی چالیں کھیلنے میں بھرپور کامیاب دکھائی دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو شاید وہ آئندہ کا ٹرم حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوں گے، لیکن10مئی 2011ءکے میمو تنازع اور 2دسمبر2011ءکوسپریم کورٹ کے احکام ،بابراعوان کی شعلہ بیانی،قومی مفاہمتی آرڈیننس(این آراو) نظر ثانی کیس پر25نومبر2011ءکو سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے میں حکومتی مﺅقف کو مسترد کیا جانا،26نومبر2011ءکو مہمند ایجنسی میں پاکستانی چوکی پر نیٹو دہشت گردی ،صدر زرداری کی جانب سے30نومبر2011ءکو پیپلزپارٹی کے 44ویںیوم تاسیس پر ایک مرتبہ پھرسازشوں کی باز گشت اور ملک کے اندر کے حالات کی وجہ اب شاید ایسا نہ ممکن نہ ہوسکے، کیونکہ یہاں پر سیاست کا رنگ تبدیل ہونے میں وقت نہیں لگتا،کچھ قوتیں پیپلزپارٹی کے زرداری مخالف قوتوں اور بعض دیگر کو جمع کرنے میں مصروف ہیں جو صدر زرداری کے لئے مشکل بھی ثابت ہوسکتے ہیںجبکہ انتخابات قریب آنے میں ابھی سالوں نہیں تومہینے ضرور ہیں اور ان مہینوں میں بہت کچھ بدل جائے گا ۔ویسے بھی پہلے ستمگر( نومبر) میں ہی بہت کچھ بدل چکا ہے جبکہ دوسرے ستمگر(دسمبر) کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے ۔

چند سال قبل تک نہ صرف پاکستانی سیاست بلکہ فوج جیسے اداروں میں بھی دائیں اور بائیں بازو کے نظریات حاوی تھے، مگرگزشتہ دو دہائیوں سے سیاست اور فوج میں اوپر کی حد تک ان نظریات کا عملاً خاتمہ ہوگیاہے اور اب نظریات کی جگہ مفادات اور اصولی سیاست کی جگہ وصولی سیاست نے لی ہے، لیکن اس کے باوجود عالمی و مقتدر قوتوں اور نچلی سطح پر یہ تقسیم موجود ہے اور اس کا کچھ اظہار انتخابی کھیل اوراس کے نتائج سے بھی ہوتاہے۔ اس وقت قوم انتخابی یا نظام کے حوالے سے بنیادی طور پر تین(چارٹ نمبر4) حصوں میں تقسیم ہے ۔(1)دائیں بازو(مذہبی یامذہب سے قریب تر)،(2) بائیں بازو(لبرل یا سیکولر) اور(3)درمیانی ووٹ(ہواکا روخ دیکھنے والے ،چارٹ نمبر 4)۔ لیکن حقیقی معنی میں یہ تقسیم دو ہی حصوں کی ہے۔ ایک دائیں بازواور دوسرا بائیں بازو۔

ہم جب دائیں بازو کی طرف دیکھتے ہیں تووہاں پرمسلم لیگ (ن)، جمعیت علماءاسلام، جماعت اسلامی،جمعیت علماءپاکستان، مسلم لیگ( ق) اور دیگر کے علاوہ اب ایک اضافہ عمران خان کی تحریک انصاف کا بھی دکھائی دیتا ہے،کلمہ طیبہ کے ورد،نعرہ تکبیر ،نعرہ رسالت اور پاکستان کا مطلب کیا ؟ لاالٰہ الااللہ کے بھرپور نعروں کی گونج میں 30نومبر2011ءکو گھوٹکی میں مخدوم شاہ محمود قریشی کی تحریک انصاف میں شمولیت نے تحریک انصاف کے مذہبی رنگ اور بھی اضافہ کیاہے تاہم کپتان کے قافلے میں سانحہ لال مسجد جامعہ حفصہؓکے سکیڑوں طلباءاور طالبات کے قاتلوں کے انچارج اور مشرف دور کے وزیر مملکت برائے امور داخلہ ظفر اقبال وڑائچ کی شمولیت نے بھی عمران خان کی تحریک انصاف کی شفافیت اور انصاف پسندی کو سوالیہ نشان بنادیا ہے ۔ویسے بھی مجموعی طور پردائیں بازو کی تمام قوتیں نہ صرف منتشر، بلکہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نظر آتی ہیں۔ اس ضمن میں 28 اکتوبر 2011ءکو مسلم لیگ (ن )کی لاہور میں احتجاجی ریلی اور 30 اکتوبر 2011ءکو لاہور میں ہی عمران خان کا کامیاب جلسہ عملی ثبوت ہے۔ اگرچہ عمران خان کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لےے مسلم لیگ( ق) ، پیپلز پارٹی اور اتحا دی پیش پیش رہے غالباً اس کا مقصد مسلم لیگ (ن )کو نیچا دکھانا تھا، لیکن27نومبر2011ءکو گھوٹکی میں مخدوم شاہ محمود قریشی کے کامیاب جلسے نے پیپلزپارٹی میں نقب لگادی اور پیپلزپارٹی کے ہوش ٹھکانے لگادئے ، جبکہ ق لیگ کے رہنماﺅں کی تحریک انصاف کی جانب دوڑ نے اس کے غبارے سے ہوا نکا ل دی ہے لیکن پنجاب اسمبلی کی خالی نشست 275میںق لیگ اور پیپلزپارٹی کے امیدوار کی کامیابی نے ن لیگ کے تکبر اور غرور کو بھی خاک میں ملادیا ہے۔رہی بات جمعیت علماءاسلام(ف)، جماعت اسلامی اور جمعیت علماءپاکستان کی تو وہ اپنی انا کے خول سے باہر آنے کے لئے تیار نہیں ہیں،اگر حالات ایسے ہی رہے تو ان کا انجام ماضی قریب و بعید سے بدتر ہوگا۔

دوسری جانب بائیں بازو کی قوتوں میں پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور کچھ دیگر جماعتیں شامل ہیں، جن کودائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعت مسلم لیگ (ق )کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس وقت بائیں بازو کی قوتیں آپس میںشدید اختلافات اورایک دوسرے پر سنگین الزام تراشیوں کے باوجود کسی حد تک متحد اور منظم دکھائی دیتی ہیں، جس کا ثبوت30اکتوبر2011ءکو کراچی میں صدر زرداری کے حق میں ایم کیو ایم کی ریلی اور اس میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق)، مسلم لیگ(ف) کی شرکت اور عوامی نیشنل پارٹی بھرپورحمایت اورحکران جماعت کے ساتھ کھڑا ہونا ہے ۔اگر موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھیں تو آنے والے انتخابات میں دائیں بازو کا ووٹ تقسیم در تقسیم، جبکہ بائیں بازو کا ووٹ متحد نظرآتا ہے اور لگتا ہے کہ اکثریت رکھنے کے باوجود دائیں بازو کی قوتوں کو1988ئ،1993ءاور2008ءکی طرح(چارٹ نمبر 4) عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔کیونکہ تیسرے قوت آخری وقت میں اپنا فیصلہ وقتی مفادات کو مد نظر رکھکر کرتی ہے ۔اس قوت میں دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں یا ارکان اسمبلی انفرادی طور پر ہوتے ہیںاور مقتدر قوتیں بعض اوقات اس قوت کا بھر پور فائدہ بھی اٹھاتی ہیں۔

تاہم کچھ قوتیں ایسی ہیں جن کو حقیقت کا کسی تک ادراک ہے جو دائیں بازو کی قوتوں کو متحد ومنظم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس حوالے سے متحدہ مجلس عمل کے احیاءاور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ”اسلامی جمہوری اتحاد“ طرز کے ایک اتحاد کی بھی بات چیت چل رہی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے احیاءیا پھر مذہبی قوتوں کو یکجا کرنے کے حوالے سے مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں ”پاکستان دفاع کونسل “کے قیام،جماعة الدعوة کے حافظ محمد سعید کی ثالثی کے علاوہ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ اور جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ اس ضمن میں قاضی حسین احمد کی رہائش گاہ پر اجلاس ہوا، جس میں ایک غیر سیاسی مذہبی اتحاد”قومی مجلس مشاورت“ کی بازگشت بھی سنائی دی، جو دائیں بازو کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔جبکہ تحریک انصاف میں نو وارد اور ماضی کے تجربہ کار سیاستدان مخدوم شاہ محمود قریشی کا ن لیگ کے بارے میں نرم اور ہمدردانہ لب ولہجے بھی ن لیگ اور تحریک انصاف کے مابین پل ثابت ہو سکتا ہے۔

مذہبی قوتوں میں گزشتہ کئی سالوں سے اس ضرورت کو محسوس کیا جارہا ہے کہ تمام انتخابی وغیر انتخابی مذہبی قوتوں کو یکجا اور منظم کیا جائے اور انہی میں سے انتخابی قوتیں بھی اپنا ایک اتحاد قائم کریں۔ اگر ملک کی مجموعی صورتحال کو ہم دیکھیں تو موجودہ صورتحال کا نتیجہ تو وہی ہے، جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔تاہم مذہبی قوتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور پھر مسلم لیگ(ن) کے ساتھ اتحاد کیا جائے۔ ایسی صورت میں یہ اتحاد ملک بھر میں ایک مضبوط قوت بن کر ابھرے گا اور اس کی کامیابی کو روکنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا اور اس وقت ملک کے ہمدرد اور مخلص طبقے کی خواہش ہے کہ موجودہ حکومت کے غلط اقدام کے حوالے سے دائیں بازو کی قوتوں کا کوئی منظم اتحاد سامنے آنا چاہیے۔ بظاہر تو اس کے آثار دکھائی نہیں دیتے، اس لیے کہ مسلم لیگ (ن)، جمعیت علماءاسلام(ف)، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سمیت دیگر قوتیں اپنی اپنی انا کے خول میں بندنظر آتی ہیں۔ انہیں شاید تنہا پرواز میں زیادہ فائدہ دکھائی دے رہا ہے۔ حالانکہ ماضی کے انتخابات (چارٹ نمبر 4)گواہ ہیں کہ اس تنہا پرواز نے دائیں بازو کی قوتوں کو ہمیشہ شکست کے سوا کچھ نہیں دیا، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ دائیں بازو کی باالخصوص مذہبی قوتوں نے ابھی تک اس سے سبق نہیں سیکھا۔

ملک میں سیاسی سرگرمیاں بڑھنے کی ایک وجہ 12 مارچ 2012ءکے سینیٹ کے انتخابات ہیں۔ پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی خواہش ہے کہ وہ یہ انتخابات کروائیں، کیونکہ اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو ایوان بالا میں بھرپور کامیابی ملے گی، جبکہ متحدہ قومی موومنٹ اپنی موجودہ پوزیشن کو ہی مستحکم رکھ سکے گی(چارٹ نمبر1) دوسری جانب مسلم لیگ( ق) جماعت اسلامی اور دیگر قوتوں کا عملاً ایوان بالا سے خاتمہ ہوگا، جبکہ جمعیت علماءاسلام(ف) کی عددی پوزیشن بھی بہت نیچے آجائے گی۔مارچ 2012ءمیں سینیٹ کے انتخابات ہونے کی صورت میں بائیں بازو کی قوتوں کو سینیٹ کے مجموعی طور پر 100 میں سے تقریباً72 سے زائدارکان ہوگی(چارٹ نمبر2) ، جو دو تہائی سے زائد ہے، جبکہ مذہبی قوتوں کے حامی ارکان کی تعداد دہرے ہندسے کے عدد کو بھی کراس نہیں کرپائیں گی، جو یقیناً دائیں بازو کی قوتوں کے لےے کسی المیے سے کم نہیں ہوگا۔ اگرچہ سینیٹ میں مسلم لیگ(ن) کی نشستوں میں مناسب اضافہ ہوگا لیکن اس کا فائدہ زیادہ نہیں، اس لےے دائیں بازو کی تمام قوتوں کی یہ خواہش ہوگی کہ وہ سینیٹ کے انتخابات سے قبل ملک میں تبدیلی لے آئیں۔ 12 مارچ 2012ءکے سینیٹ کے انتخابات کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوگاجو آیندہ انتخابات میں شکست کے باوجوبھی مزید 3سالوں تک سینیٹ میں قابض ہوگی جو نئی حکومت کے لئے مشکلات کا سبب ہوگا اور سنینیٹ میں ان کا کنٹرول وفاقی حکومت کو آزادانہ کام نہیں کرنے دیگا۔

ملک میںتبدیلی کس طرح آئے گی؟ یہ اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ خطرہ ہے کہ اگر احتجاجی سیاست کا آغازطول پکڑ گیا تو اس کا نتیجہ ایک اور مارشل لا کی صورت میں سامنے آسکتا ہے، جو ”عدالتی مارشل لا“ بھی ہوسکتا ہے اور اسے ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ غالباً اس کا کچھ خطرہ مسلم لیگ (ن )کی قیادت بھی محسوس کررہی ہے اور مولانا فضل الرحمن کے بعض بیانات بھی اس جانب اشارہ کررہے ہیں۔ یہی وہ خطرہ ہے جو مذہبی اور دائیں بازوں کی قوتوں کو بھرپور احتجاج سے روکتا ہے۔ مبصرین کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ بعض قوتیں اس حوالے سے عمران خان کو ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر استعمال کررہی ہیںاور انہوں نے بھی اپنی توپوں کا رخ صدر آصف علی زرداری یا بائیں بازو کی قوتوں کی بجائے دائیں بازو کی قوتوں کی طرف کردیا ہے، جبکہ ان کے ماضی کے بدترین مخالفین پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے حوالے سے عمران خان کے لب ولہجے میں کافی حد تک نرمی آئی ہے اور مستقبل میں عمران خان کے ان جماعتوں کے ساتھ کسی الائنس میں شامل ہونے کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے۔لیکن اس ساری صورت حال میں اب میمو گیٹ تنازع میں صدر آصف علی زرداری کے رفیق خاص اور امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کامبینہ طور پر ملوث ہونا اور اس میمو گیٹ میں صدر آصف علی زرداری کے نام کی موجودگی نے صدر زرداری کے لیے مزید مشکلات کھڑی کردی ہیں،معاملہ اب عدالت تک پہنچ چکا ہے۔

مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان ایک مخلص اور صاف گو آدمی ضرور ہیں لیکن ان کی جدوجہد میں تسلسل اور استقامت نہ ہونے کی وجہ سے وہ مناسب وقت پر اپنی تمام کارکردگی کو صفر کردیتے ہیں اوران کی جماعت نے بھی الیکشن کی تیاری نہیں کہ ہے۔ عمران خان نے چند ماہ قبل ڈرون حملوں کو بنیاد بنا کر بھرپور تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا لیکن وہ تحریک اعلان ہی تک محدود رہی اور آج بھی ڈرون حملوں کا سلسلہ تاحال جاری اور عمران خان نے بھی سخت عوامی تنقید کو مدنظر رکھتے ہوئے 28 اکتوبر 2011ءکو اسلام آباد میں ڈرون حملوں کے حوالے سے جرگہ منعقد کیا، جس میں ان کی سابق اہلیہ جمائمہ گولڈ اسمتھ نے بھی بھرپور شرکت کی۔ جمائمہ کی اس جرگے میں شرکت عمران خان کے لیے فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بن رہی ہے، کیونکہ اسلامی اور مشرقی معاشرے میں اپنی مطلقہ بیوی سے اس طرح کے تعلقات اور رابطوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اس حوالے سے شدید تنقید کی اور عمران خان کو مشرقی ثقافت وتہذیب پر ڈرون حملہ قرار دیا ،جبکہ امریکی اور نیٹو کی حالیہ دہشت گردی کے حوالے بھی عمران خان کے مﺅقف میں وہ شدت نہیں جو ہونی چائے یا ماضی میں تھی اس لیے عمران خان کے حوالے سے اب لوگوں کے تحفظات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن لوگوں کے تحفظات صرف عمران خان تک ہی محدود نہیں، بلکہ میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن کے حوالے سے بھی مبصرین مختلف آراءکا اظہار کررہے ہیں۔

اس وقت مذہبی قوتوں کے اتحاد کی راہ میں اصل رکاوٹ دوبڑی مذہبی جماعتیں جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام(ف) ہیں۔ جماعت اسلامی کے اندر بعض قوتیں اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ صدر آصف علی زرداری کے اتحادی ہونے کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا ہے اور جو بھی ان کے ساتھ کھڑا ہوگا آئندہ انتخابات میں اسے بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ صرف ایک مفروضہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن جس طبقے میں سیاست کرتے ہیں وہ آج بھی اس میں سیاسی طور پر مقبولیت کے عروج پر ہیں اور ان کے حامیوں میں کمی نہیں آئی ہے اور آج بھی وہ طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن موجودہ پالیسی کو اختیار نہ کرتے تو دینی قوتوں کے خلاف حکمران کئی اقدام کرتے اور حکمرانوں کے مذموم عزائم کی راہ میں اصل رکاوٹ مولانا فضل الرحمن ہی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ مولانا فضل الرحمن اپنے ووٹرز یا نظریاتی لوگوں میں غیر مقبول ہوگئے ہیں یہ غیر منطقی اور غلط تجزیہ ہے۔ مولانا کی پوزیشن اپنی جگہ آج بھی مضبوط اور مستحکم ہے۔امریکا اور نیٹوکی حالیہ دہشت گردی نے مولانا فضل ارحمان کے ماضی کے مﺅقف کوسچ کردکھایا ہے۔

دوسری جانب جمعیت علماءاسلام (ف)کے اندر بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی بالخصوص سید منور حسن کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے عوامی سطح پر غیر مقبول اور تنہا ہوئی ہے۔ اس کی اس تنہائی میں شامل ہونے کا مطلب اپنے آپ کو بھی تنہا کرنا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی اس ملک کی سب سے مضبوط اور نظریاتی نیٹ ورک رکھنے والی جماعت ہے، جس کے کارکنوں اور ہمدردوں پر حالات وواقعات کا بہت ہی کم اثر پڑتا ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی کے حوالے سے جمعیت علماءاسلام(ف) کے بعض لوگوں میں پایا جانے والا یہ خدشہ غلط ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام(ف) کو الگ کرکے کوئی مذہبی اتحاد کامیاب نہیں بنایا جاسکتا اور اگر ان دونوں جماعتوں کو مذہبی جذبے کے ساتھ متحد ومنظم کیا جائے تو یقینا اس کے اثرات مستقبل میں بہت مثبت ہوں گے۔

اس وقت ان دونوں جماعتوں کے پاس نئی نسل کی ایک بھرپور فوج ہے، جس کو استعمال کرکے ملک کو بہتری کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ عصری تعلیمی اداروں میں جماعت اسلامی کی اسلامی جمعیت طلبہ کا مضبوط اثر ہے، جس کا اظہار ماضی کی طرح انہوں نے 15 سے 17 اکتوبر 2011ءتک لاہور میں اپنے سہ روزہ اجتماع عام کے ذریعے کیا۔ یہ اجتماع اپنے نظم وضبط اور اسلامی جمعیت طلبہ کی مثالی کارکردگی کا بہترین اظہار بھی تھا۔ آپ قومی سیاست پر نظر دوڑائیں تو کئی اہم چہروں کا ماضی اسلامی جمعیت طلبہ سے جڑا ہوا دکھائی دے گا۔ 1947ءمیں قائم ہونے والی اسلامی جمعیت طلبہ آج بھی اپنے نظریہ کی بنیاد پر نہ صرف قائم ہے، بلکہ مزید مضبوط اور منظم ہے۔ اگر ملک کے طول وعرض میں نظر دوڑائی جائے تو کوئی طلبہ تنظیم اس طرح منظم دکھائی نہیں دیتی۔ اگرچہ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا شمار بھی ماضی کی منظم طلبہ تنظیموں میں ہوتا ہے لیکن اس وقت مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا صرف نام باقی رہ گیا ہے وہ بھی مسلم لیگ( ن) کے علاوہ مختلف دیگر لیگی دھڑے اپنے ساتھ سابقوں اور لاحقوں کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے خیالات ونظریات سے لاکھ اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اس طلبہ تنظیم نے نوجوان نسل کی اصلاح میں بہت حد تک کردار ادا کیا ہے، جو ناقابل فراموش ہے۔

دوسری جانب دینی ادارے ہیں، جہاں اگرچہ مضبوط سطح پر کوئی طلبہ تنظیم کام نہیں کررہی لیکن مجموعی طور پر دینی اداروں میں جمعیت علماءاسلام (ف) اور اہلسنت والجماعت پاکستان کا اثرضرور دکھائی دیتا ہے اور دیکھا جائے تو اس وقت بھی مدارس کے طلبہ کی اکثریت کسی تنظیمی نظم میں نہ ہوتے ہوئے بھی مولانا فضل الرحمن اورمولانا محمد احمد لدھیانوی سے ہمدردی رکھتی ہے۔ یہ دونوں حضرات جب اور جہاں چاہیں ہزاروں نہیں لاکھوں طلباءو علماءکو میدان میں لے آسکتے ہیں،تاہم مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت جمعیت علماءاسلام (ف)کو وسیع سیاسی تجربے ،تعلقات اور بر وقت سیاسی فیصلوں کی صلاحیت دیگر کے مقابلے میں ممتاز کرتی ہے،جبکہ مولانا محمد احمد لدھیانوی اور انکی اہلسنت والجماعت پاکستان ایک مخصوص نظریہ اور فکر کی وجہ سیاسی میدان میںبڑے پیمانے پر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں اس لیے دینی اداروں کی حد تک مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت جمعیت علماءاسلام (ف)کوہی مؤثرسمجھا جاتا ہے جو یقینی بات ہے ، اگرچہ اس حوالے سے دیگر مذہبی جماعتوں کو بھی حمایت حاصل ہے لیکن وہ کافی محدود ہے۔ اس لیے جمعیت علماءاسلام(ف) اور جماعت اسلامی ان دونوں قوتوں کا مثبت استعمال کرکے ملک و ملت کو حقیقی اسلامی انقلاب کی طرف گامزن کرسکتی ہیں جو یقیناً صرف چہروں کی تبدیلی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی ہوگا اور اس حقیقی سونامی میں ممی ڈیڈی سونامی بھی خس وخاشاک کی طرح بہہ جائگا اور اس ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لےے بھی مثبت پیش رفت اسی راستے ہی ممکن ہے۔

مذکورہ بالا خدشات،تحفظات ،اعتراضات،امید اوراتحادوتقسیم کو مد نظر رکھتے ہیں تو پاکستان کے سیاسی مستقبل باالخصوص دائیں اور بائیں بازو کے حوالے سے7خاکے نظر آتے ہیں۔( 1)خاکہ یہ بنتا ہے کہ دائیں بازو کی موجودہ تقسیم در تقسیم اور بائیں بازو کے اتحاد کی وجہ سے آیندہ انتخابات میںوفاق، سندھ،خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں دائیں بازو کی بدترین شکست یقینی ہے تاہم پنجاب میں اگرچہ بدترین شکست نہیں ہوگی لیکن پھر بھی حکومت بائیں بازو کی ہوگی ۔( 2) خاکہ یہ بنتا ہے کہ اہم مذہبی قوتیں جمعیت علماءاسلام(ف)، جماعت اسلامی،جمعیت علماءپاکستان اور دیگر چھوٹی جماعتیں متحد ہوں ایسے میں وفاق،سندھ میں پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی،خیبر پختونخواہ میںمذہبی قوتیں ،بلوچستان میںمذہبی قوتیں اور قوم پرست جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن)اور دیگر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہونگے۔( 3) خاکہ یہ بنتا ہے کہ مذہبی قوتوں کا عمران خان کے ساتھ اتحاد ہوایسی صورت اس کے اثرات خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں مثبت اور دائیں بازو کے لیے پنجاب میں منفی ہونگے۔( 4) خاکہ یہ بنتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور مذہبی قوتیں متحدہوں ایسی صورت میںوفاق،پنجاب،خیبر پختونخواہ اور بلوچستان دائیں بازو کی بھرپور کامیابی اور بائیں بازو کی شکست ہے ۔( 5) خاکہ یہ بنتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور عمران خان متحد ہوں ایسی صورت میں پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں ان کی کامیابی ،سندھ میں پیپلزپارٹی اوراس کے اتحادی جبکہ وفاق اور بلوچستان مخلوط حکومت بنے گی۔( 6)خاکہ یہ بنتا ہے کہ مذہبی قوتیں ،مسلم لیگ(ن) اور عمران خان متحد ہوں ایسی صورت میں دائیں بازو کی تاریخی کامیابی اور بائیں بازو کی بدترین شکست ہوگی۔ ( 7) خاکہ یہ بنتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے ناراض رہنماءالگ گروپ بناکر زرداری کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور پھر ن لیگ ،عمران خان ،سندھ کی سطحہ پرممکنہ طورپر بننے والاقوم پرستوں کے اتحاد یا مذہبی قوتوں سے اتحاد کریں ایسی صورت میں وفاق،پنجاب،خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں صدر زرداری کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور سندھ میں بالخصوص صدر زرداری کے لیے حکومت سازی میں ایم کیو ایم کی بھر پور مدد درکار ہوگی تاہم مذکورہ تما تر حالات میں بیرونی مداخلت اور مقتدر قوتوں کوبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔موجودہ صورت حالات میں پاکستانی سیاست کے حوالے سے عدالتی فیصلے،بابر اعوان کی حد سے زیادہ خود اعتمادی،عسکری قیادت کے احساسات و جذبات،پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے حکومت کے حالیہ اقدام، پاک امریکا کشیدگی اور پاک افغان تعلقات بھی اہم کردار اداکرینگے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106864 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.