مسلم پرسنل لاءبورڈ کا ”احتجاجی“ تحریک کا منصوبہ

آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کی مجلس عاملہ نے نئی دہلی میں 26 نومبر کو منعقدہ میٹنگ میں ”رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ، ڈائرکٹ ٹیکسکس کوڈ اور وقف بل “ میں مطلوبہ اصلاحات کےلئے ”ملک بھر میں”احتجاجی“ تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ .... حکومت عوامی دباﺅ محسوس کرے“ اور قوانین میں اصلاحات کرے۔ تحریک کو منظم کرنے کےلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے کنوینر محترم ولی رحمانی ہیں۔ رحمانی صاحب ہرچند کہ خانقاہ رحمانیہ مونگیر شریف کے سجادہ نشین ہیں لیکن سیاست میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔بہار میں ایم ایل سی رہ چکے ہیں اور گزشتہ اسمبلی الیکشن کے موقع پر ’لالو۔پاسوان‘ اتحاد کے ایک قومی لیڈر اشفاق کریم نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ رحمانی صاحب کو اتحاد کی جانب سے نائب وزیر اعلا کے طور پر پیش کیا جائے۔ اس لئے ملکی سطح پر’احتجاجی تحریک ‘ کی قیادت ان کے مزاج کے تو عین مطابق ہوگی مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا بورڈ کے اساسی مقاصداور طریقہ کار نیز ملک کے موجودہ ماحول کے مدّ نظر مسلم مسائل پربورڈ کےلئے کوئی ’احتجاجی تحریک ‘ چلانا مناسب و مفید ہوگا؟ ہمارے خیال سے ’ ہرگز نہیں‘ اورا س ’ہرگز نہیں ‘کی کئی وجوہات ہیں۔

اس ضمن میں پہلے چند بنیادی باتیں:(الف)عالمی سطح پر ملت اسلامیہ احساس محرومی کا شکار ہے اوراحتجاج اس کا مزاج بن چکا ہے۔ کسی بھی عنوان ان کیفیات کومزید ابھارنا مناسب و مطلوب نہیں۔ ہماری اولین ترجیح تعمیری مزاج کی آبیاری ہونی چاہئے ۔ اسی مناسبت سے اپنے مسائل کے حل کےلئے ملّی و قومی تحریکات کو منظم کیا جانا چاہئے۔(ب) قومی سطح پر تحریکات چلانے کےلئے ایک مربوط، منظم اور مستحکم ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ بورڈ کا حال یہ ہے اس کا صدر دفتر دہلی میں ہے، تمام عہدیدار جز وقتی ہیں،کوئی بہار میں مقیم ہے تو کوئی لکھنو میں اور کوئی حیدرآباد میں۔ جو منصب داراپنی کسی دیگر حیثیت سے دہلی میںمقیم ہیں وہ بھی بورڈکے دفترکو زینت بخشنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ بورڈ کا عوامی رابطہ مفلوج ہے ۔ حد یہ ہے کہ اس کی ویب سائٹ بھی نو،دس سال سے اپڈیٹ نہیں ہوئی۔(ج)اب مسلم پرسنل لاءبورڈ مسلمانان ہند کا نمائندہ نہیںرہ گیا ہے۔ شیعہ، خواتین اور بریلوی مکتب فکر کے بورڈ الگ الگ بن چکے ہیں۔ قومی سطح پر تحریک چلانے کےلئے سب کی نمائندگی نہیں ہوگی تو تحریک بے اثر رہیگی اور اس کے مضمرات شدید ہونگے۔ریا سہا وقار بورڈ کا بھی مجروح ہوگا(د) ملک کا سیاسی ماحول احتجاج کا نہیں احتیاط کا متقاضی ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں ہروقت گھات میں لگی رہتی ہیں اور مسلمانوں کا ہر مطالبہ جو عوامی سطح پر اٹھایا جاتا ہے،اس کے خلاف صف بستہ ہو جاتی ہےں۔اقدام سے پہلے خود اپنے وسائل اور مخالفین کی طاقت کو پیش نظر نہیں رکھا جائیگا تو اسکا نتیجہ کیا نکلے گیا؟ بورڈ خود کو ٹیم انا نہ جان لے جس کی آواز اس لئے عوامی تحریک بن گئی تھی کہ خصوصی مفاد کی خاطر پورا سنگھ پریوار اور کارپوریٹ میڈیا اس کی پشت پر کھڑا ہوگیا تھا۔اس کے باوجود اس کا کیا نتیجہ نکلتا نظر آرہا ہے؟ تلنگانہ کےلئے جاری ’احتجاجی مہم ‘کا کیا نتیجہ نکل رہا ہے؟ نئی دہلی میں’ تمل ناڈو مسلم منیتر کزگم ‘ نے مارچ 2007 میںجو بے مثال اور عظیم الشان ریلی نکالی تھی، اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ایسی صورت میںبورڈ کی’ احتجاجی تحریک‘ کس طرح نتیجہ خیز ہوگی؟ (ھ)۔مطالبات کے حق میںدھرنے پردرشن ہونگے ۔یہ احتجاجی سیاست کس سنت کی پیروی ہے؟ (و)انتخابات کا زمانہ قریب ہے۔کسی نے شرانگیزی کی، کہیں تشدد ہوگیا تو اس کاازالہ کس طرح ہوگا؟

یہ صحیح ہے کہ بورڈکی تحریک کی بدولت راجیو گاندھی کی سرکار نے مسلم مطلقہ ایکٹ بنادیا تھا، مگر اس کا پس منظر مختلف تھا۔ 1972-73 میں بورڈ کا قیام اس وقت عمل میں آیا تھا جب پارلیمنٹ میں متبنٰی بل پیش کرتے ہوئے وزیر قانون ایچ آر گوکھلے نے اعلان کردیا تھا کہ یہ یونیفار م سول کوڈ کی جانب پہلا قدم ہے، جس سے پوری امت مسلمہ میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اور بلاتفریق مسلک و مدرسہ مسلمانان ہند نے یہ محسوس کیا تھا کہ مسلم پرسنل لاءکی حفاظت کےلئے اٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔چنانچہ جب اس مقصد کےلئے بورڈ کا قیام عمل میںآیا تو پوری امت اس کی پشت پر کھڑی تھی۔ آج نہ تو عوام میں کوئی ایسا ہیجان ہے اور نہ ملت کی بورڈکو ویسی تائید حاصل ہے۔شیعہ الگ ہیں ،بریلوی الگ ہیں اور خواتین یہ محسوس کرتی ہےںکہ بورڈ نے مسلم معاشرے میں اصلاح کےلئے کوئی موثر تحریک نہیں چلائی جس سے گھر خاندان میں ان کو وہ مقام ملتا جو ان کا شرعی حق ہے۔چنانچہ انہوں نے اپنی امیدیں شائستہ عنبر سے زیادہ وابستہ کرلی ہیں۔

بورڈ نے اپنے تاسیس کے وقت جو اہداف مقرر کئے تھے ان میں ایک ہدف یہ تھا کہ امت مسلمہ میں ایسا شعور بیدار کیا جائےگا کہ وہ خود اپنے معاملات شریعت کی روشنی میںحل کرنے پر آمادہو جائے۔ اسی نظریہ کے تحت شرعی عدالتوں کامتبادل نظام بنایا گیا۔ ہرچند کہ ان عدالتوں کوقوت نافذہ حاصل نہ تھی اور بقول پروفیسر ڈاکٹر طاہر محمود ان کی حیثیت ’ازالہ تنازعات کے متبادل نظام ‘ کی تھی اور ان سے عدالتوں کے بوجھ اورموکلوں کے مصارف میں تخفیف ہوتی، مگر قاضی مجاہد الاسلا م قاسمی ؒکے بعدنہ تو اس نظام کو چست و درست کرنے پر توجہ دی گئی اور نہ امت میں اس کو قبولیت حاصل ہوسکی۔بالفاظ دیگر یہ صریحاً بورڈ کی ناکامی ہے جو مسلمانوں کو شرعی نظام کے تحت اپنے تنازعات حل کرنے پر راغب و آمادہ نہیں کرسکا۔بیشک بورڈ نے اس نظام کو قانونی درجہ دلانے کی کوشش کی مگرناکام رہی۔ اس سے قبل مولانا حفظ الرحمٰن نوراللہ مرقدہ،سید اسعد مدنی ؒاور جمعیة کے دیگر زعما وارکان پارلیمنٹ شرعی عدالتوں کے قیام کامطالبہ کرتے رہے، یہ مطالبہ اب بھی جاری ہے، مگر سب بے سود۔وجہ شاید اس کی یہ ہے کہ مطالبہ سازگار ماحول بنائے بغیرکیا جاتا رہا۔ سازگارماحول سے مراد امت مسلمہ میں شرعی نظام کے تحت تنازعات کے حل کےلئے ہمہ گیرآمادگی ہے۔مگر حال یہ ہے کہ وہ جماعتیں بھی جو اس تجویز کی موئد ہیں خود اپنے معاملات عصری عدالتوں میں لے جاتی ہیں گویا اسی عدالتی نظام سے شریعت میں مطلوب حق قائم ہوجائیگا۔ میں یہاں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا، ہمارے قائدین ، عمائدین اور مدارس اسلامیہ کے ناظمین اپنے گرد نظر ڈال کر دیکھ لیں، اس کی زندہ مثالیں مل جائیں گیں۔ایسی صورت میںمخالفین کی اس دلیل میںجان پڑگئی ہے کہ مسلمان خود مروجہ عدالتی نظام کو ہی ترجیح دیتے ہیں،شرعی نظام کا مطالبہ ان ’قدامت پسند‘ عناصر کا علمی مشغلہ ہے جو ’سیکولر‘ نظام کے نظریاتی مخالف ہیں۔چنانچہ ہونا یہ چاہئے کہ حکومت پر ’دباﺅ ‘ڈالنے کےلئے ’احتجاجی تحریک ‘چلانے سے پہلے خوداپنے اندر آمادگی اور رغبت پیدا کی جائے۔حکومت وقت سے یہ توقع کرنا کہ وہ قانون بناکر مسلمانوں کو شریعت کی پابند بنادےگی، بڑا ہی مضحکہ خیز ہے۔

بورڈ نے اپنی ا”حتجاجی مہم“ کےلئے تین قوانین کی نشاندہی کی ہے۔رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ، ڈائرکٹ ٹیکسکس کوڈ اور وقف بل ‘۔ ان مطالبات کے جواز کا الگ الگ جائزہ لینا چاہئے۔ بیشک ’حق تعلیم قانون‘RTE Act کا ذیلی مقصد مذہبی تعلیمی اداروں کو سرکاری کنٹرول میں لانا اوررفتہ رفتہ اس نظام کو ختم کرنا ہے، جس پر اعتراض حق بجانب ہے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیںکہ مدارس دین کا قلعہ ہیں، مگر گستاخی معاف یہ اس دین کا قلعہ نہیں رہ گئے ہیں جو دین حضورﷺ کی حیات مبارکہ میں اور آپ کی دعوت میں چلتا پھرتا نظرآتا ہے۔ اللہ کے رسول نے ہماری دنیا کو دین کا تابع بنایاتھا اور ہم نے 15ویں اور 16ویں صدی عیسوی کی یورپی تحریکات کے اُس نظریہ کو اپنے اوپر مسلط کرلیاہے جو دین او ر دنیا کو الگ الک خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ دور خلافت سے لیکر سقوط دہلی تک پورے عالم اسلام میں دینی مدارس صرف علوم منقولات تک محدود نہیں تھے بلکہ ہردور کی رعایت سے جدید علوم و فنون بھی شامل نصاب رہتے تھے۔ منطق، فلسفہ، تاریخ، جغرافیہ،طب، سماجیات، علم ہندسہ یا حساب ،علم ہیئت،علم کیمیا، جغرافیہ غرض ہرشعبہ علم میں مسلمانوں نے مہارت تامہ حاصل کی ۔ مسلم حکماء(سائنسدانوں) نے ہی علم و فن کی جو بنیاد ڈالی تھی اسی پر اہل یورپ نے اپنی علمی اور مادی فتوحات کے قصر تعمیرکئے۔اس کے برخلاف ہمارا موجودہ مدرسہ نظام دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ضرورت ایسے جامع تعلیمی نظام کی ہے جس میں قرآن ، حدیث اور فقہ کی بقدر ضرورت تعلیم کے ساتھ طلباءان علوم و فنون سے بھی مزین ہوں جن کی بدولت وہ کارخانہ عالم کی زمام کار سنبھالنے کے اہل بن سکیں۔جس سے فارغ ہر بچے کا اخلاق و کردار، عادات و اطوار اور عقائد تو اسلام کے سانچے میںڈھلے ہوں، لیکن ہر شعبہ حیات میں قائدانہ صلاحیت کے جوہر بھی رکھتا ہو ۔یہ کچھ مشکل بھی نہیں۔ آئی اے ایس امتحان میں مولانا وسیم الرحمٰن قاسمی کی کامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ مدارس کے طلباءذہانت اور حوصلہ میں کسی سے کم نہیں۔ ندوی، فلاحی اور اصلاحی بھی دنیا میں اپنے جوہر دکھا رہے ہیں،مگر خال خال۔ضرورت مدارس کے طلباءکی صلاحیتوں کوابھارنے اور نکھارنے کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہویہ رہا ہے کہ مدارس سے فارغین عموماًنہ تو اپنی عادات و اطوار اور اخلاق وکردارسے اور نہ اپنی ہیئت سے اچھا تاثر چھوڑتے ہیں اور نہ کارزار حیات میں دوسروں کی ہمسری کرپاتے ہیں۔ مجھے معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنے دیجئے کہ مدرسہ فارغین کا ایک طبقہ دشمنان اسلام کا آلہ کار بن گیا ہے اور وہ دین کی ایسی مسخ شدہ تصویر پیش کررہا ہے جس کی بدولت یہ دینِ رحمت دنیا کےلئے باعث زحمت وو حشت بن گیا ہے۔ ہرچند کہ ہندستانی مدارس اس لعنت سے بہت محفوظ ہیں مگرتنگ ذہنی ان میں بھی در آئی ہے۔دوسرے یہ کہ دنیا میں کہیں بھی رونما ہونے والے سانحات کا اثر یہاں بھی پڑتا ہے۔ زیر تبصرہ حق تعلیم قانون میں مدرسہ تعلیم پر کنٹرول کا جو ذیلی منصوبہ ہے وہ اسی وحشت کا شاخسانہ ہے ۔ چنانچہ بشمول امریکی انتظامیہ کئی دیگر حکومتوں کا اصرار ہے کہ قرآن سے اور مدارس کے نصاب سے بعض اجزاءکو خارج کیا جائے۔ہرچند کہ یہ مطالبہ بیجا اور دین کی اصل روح سے ناوافیت کا مظہر ہے، مگر سرکاریں دباﺅ میں ہیں۔ اس لئے خرافاتی ذہنوں کی اصلاح کی فکر ہونی چاہئے۔

ہرچند کہ ملک میں ایسے تعلیمی ادارے قائم ہورہے ہیں جن میں دینی ماحول میں عصری تعلیم دی جارہی ہے مگر مدرسہ نظام میں ایسی اصلاحات پر توجہ نہیں دی جارہی ہے جن کی بدولت یہ واقعی دین محمدی میں مطلوب مومن کامل کی نرسری بن جائیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ حکومت کویہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ادارے سے یہ سوال کرے کہ آپ جو افرادی قوت پیدا کررہے ہیں وہ ناقص ہے، اس میں اصلاح کی ضرورت ہے ۔بورڈ اس سلسلہ میںکیا رہنمائی کررہا ہے؟

ایک مسئلہ ڈائرکٹ ٹیکس کوڈ کا بھی ہے۔ خیر مسلم ادارے تو عموماً مالی بدحالی سے دوچار ہیں لیکن ایسے دھارمک ادارے بھی تو ہیں جن پر رات دن دھن برستا ہے، جن کو خود معلوم نہیں کہ ان کی تجوریوں اور تہہ خانوں میں کتنی دولت پٹی پڑی ہے؟وہ دولت کے انبار پرناگ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھے ہیں۔ ان کو سونا چاندی، نقدی اورجواہرات کی صورت میں جو نذرانے ملتے ہیں، ان کا بڑا حصہ ٹیکس چوری سے کمایا ہوا ہوتا ہے۔ اگر اس دولت کا ایک حصہ بطورٹیکس وصول کرکے فلاحی کاموں میںلگادیا جائے تو اعتراض کا کیاجوازہے؟ ہرچند کہ اس ٹیکس کی زدعملاً ایسے ہی ادارو ں پڑیگی مگر وہ تو خاموش ہیں اور شور ہم مچارہے ہیں۔کیوں؟ہمارے ادارے خودمالی طور پر کمزور ہیں، ان سے کوئی کیا ٹیکس وصول کریگا۔ہم زیاد ہ سے زیادہ یہ مطالبہ کرسکتے ہیں ٹیکس آمدنی سے خرچ منہا کرکے صرف بچت پر لگایا جائے۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ مدارس کے مالی معاملات میں شفافیت نہیں ہوتی۔آمد و خرچ کا عموماً حسا ب نہیں رکھا جاتا۔ صدر مدرس یا مہتم اپنی ضروریات تو بافراغت پوری کرلیتا ہے،مگردیگر عملہ تنگی میں رہتا ہے۔ ٹیکس عائد ہونے کے بعد یہ ممکن نہیں رہیگا کہ کوئی مدرسہ، پاٹھ شالہ،آشرم اپنی آمدنی کو چھپالے اور دولت کے انبار جمع کرلے۔

(جاری)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163348 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.