کس کروٹ بیٹھے گا یہ پاک -امریکی اختلافات کا اونٹ؟

حوالے ببانگ دہل بتا رہے ہیں کہ گذشتہ تقریبا 10 سال سے مسلم ممالک کی سرزمین پر مسلم ممالک کے پٹرول سے مسلم ممالک کی ہی حجامت بناتے ہوئے نام نہاد دہشت گردی مخالف جنگ میں اپنا سب سے گھناﺅنا چہرہ چھپانے والا امریکہ تیری جوتی تیرا ہی سر کرتے ہوئے جہادکی دھمکی سے گھبراگیا ہے کیونکہ اس مرتبہ جماعت الدعوة اور جماعت اسلامی نے امریکہ کے خلاف جہاد کا اعلان کیا ہے۔جماعت الدعوة اور جماعت اسلامی نے اپنے اعلان میں کہا ہے کہ اگر امریکہ نے 15روز کے اندر شمسی فضائی اڈے سے اپنا بوریہ بستر نہ باندھا تو جہاد چھیڑ دیا جائے گا۔ ان دونوں تنظیموں نے عوام کی تشکیل کی ہے کہ وہ جہاد کیلئے تیار رہیں۔حملہ کے دوسرے روز لاہور میں جماعت الدعوة کی طلبا تنظیم آل محمدیہ اسٹوڈنٹس پاکستان کے زیر اہتمام ایک جلسہ میں ان دونوں تنظیموں کے لیڈروں نے پاکستانی عوام سے جہاد کیلئے تیار رہنے کو کہا۔اس سلسلے میں حوالوں پر یقین کریں توجہاد سے مراد کسی نیک کام میں انتہائی طاقت و کوشش صرف کرنا اور ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کرنا ہے جبکہ امام راغب اصفہانی جہاد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ‘ ترجمہ: دشمن کے مقابلہ و مدافعت میں فوراً اپنی پوری قوت و طاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔ذرائع پر یقین کریں توجہاد کے اصطلاحی معنی شریعت اسلامی کی اصطلاح میں ’دین اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلٰی اور حصول رضائے الٰہی کیلئے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے جبکہ جہاد کی اقسام پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ جہاد کو مسلسل عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شریعت اسلامیہ کی رو سے اس کی پانچ اقسام ذکر کی گئی ہیں:پہلی‘ جہاد بالعلم۔یہ وہ جہاد ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت پر مبنی احکامات کا علم پھیلایا جاتا ہے تاکہ کفر وجہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور دنیا رشد و ہدایت کے نور سے معمور ہو جائے۔دوسری‘جہاد بالمال۔اپنے مال کو دین کی سر بلندی کی خاطر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو جہاد بالمال کہتے ہیں۔تیسری‘ جہاد بالعمل۔جہاد بالعمل کا تعلق ہماری زندگی سے ہے۔ اس جہاد میں قول کے بجائے عمل اور گفتار کی بجائے کردار کی قوت سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنا مقصود ہے۔ جہاد بالعمل ایک مسلمان کیلئے احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگی کو ان احکام کے مطابق بسرکرنے کا نام ہے۔چوتھی‘ جہادبالنفس جس میں بندہ مومن کیلئے نفسانی خواہشات سے مسلسل اور صبر آزما جنگ کا نام ہے۔ یہ وہ مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط ہے۔ شیطان براہ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر نفس کو مطیع کر لیا جائے اور اس کا تزکیہ ہو جائے تو انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔پانچویں‘ جہاد بالقتال۔یہ جہاد میدان جنگ میں کافروں اور دین کے دشمنوں کے خلاف اس وقت صف آراءہونے کا نام ہے جب دشمن سے آپ کی جان مال یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں۔ اگر کوئی کفر کے خلاف جنگ کرتا ہوا شہید ہو جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہ کہا جائے بلکہ حقیقت میں وہ زندہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔ القرآن سورة البقرہ:154۔ جماعت الدعوة اور جماعت اسلامی کا اشارہ ہوسکتاہے کہ اسی پانچویں قسم کی طرف ہو۔ اگر یہ درست ہے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ جہاد بالقتال کا حکم نبوت کے مدنی دور میں نازل ہوا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے قریش اور مسلمانوں میں بدر کے مقام پر غزوہ ہوا، جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ کیونکہ جہاد میں جان لی اور دی جاتی ہے اور جان لی نا ہم ہمیشہ سے الہامی شریعتوں میں ممنوع رہا ہے ۔سب سے پہلے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی گئی کہ اجازت مسلمانوں کو سب سے پہلے جب دی گئی تو ساتھ اس کی وجہ یہ بیان کی کہ یہ لوگ اس لئے لڑ سکتے ہیں یہ ان پر ظلم ہوا ہے۔ قرآن میں آیا ہے کہ‘ ترجمہ: جن سے جنگ کی جائے، انھیں جنگ کی اجازت دی گئی، اِس لئے کہ ان پر ظلم ہوا ہے، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دئے گئے، صرف اِس بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔لقرآن سورة الحج:39 - 40۔

اس کے ساتھ جہاد بالقتال کے لئے کچھ بنیادی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے، جن کے بغیر جہاد انسانیت کے لیے محض فتنہ و فساد کا باعث بنتا ہے جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ جہاد کی بنیادی شرائط میں درج ذیل شامل ہیں:جہاد اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوام الناس کو فردا فردا، جتھوں، یا تنظیمیوں کی صورت میں جہاد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے جبکہ جہاد کے دوران احتیاطیں بھی بتائی گئی ہیں جس کے مطابق: عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔دوسرے غیرمسلح لوگوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔تیسرے درختوں کو کاٹا نہیں جائے گا۔چوتھے شک کی بناءپر کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔پانچویں اگر کوئی کافر جنگ کے دوران موت کے خوف کی وجہ سے کلمہ پڑھ لے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے کیونکہ اسلام جنگ و جدل کا نہیں بلکہ امن و اصلاح کا دین ہے۔ احادیث میں تو یہاں تک تاکید ملتی ہے کہ اگر کوئی کافر سر پر لٹکتی تلوار دیکھ کر اسلام قبول کر لے تو اس کے قتل سے ہاتھ روک لینا ضروری ہے۔ایک مرتبہ ایک صحابی ایک کافر کو قتل کرنے ہی والے تھے کہ اس نے کلمہ طیبہ پڑھ لیامگر صحابی نے اس کے کلمے کی پرواہ نہ کی اور اسے قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت الفاظ میں اس قتل کی مذمت کی اور صحابی کے اس قول پر کہ اس کافر نے محض جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا، ارشاد فرمایا:ترجمہ : کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس مقتول کے ورثائ کو پوری دیت ادا کرنے کا حکم فرمایا۔

لیکن یہاں تو منظر ہی کچھ اور ہے۔اس امریکی حملہ کے خلاف کراچی میں امریکی قونصل خانہ کے باہر ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا۔ پاکستان نے اس حملہ کے خلاف زبردست غم و غصہ کا ظاہر کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا کہ اس حملہ کی نہ صرف وہ بلکہ پوری پاکستانی قوم مذمت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس کی پاکستان توقع بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس کا حلیف ایسی حرکت کرے گا۔ دوسری جانب امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملہ کی اپنے طور پر جانچ کرے گا کہ ایسا کیوں ہوا۔ ادھر افغانستان اور ناٹو مسلسل پاکستان کے اس دعوے کی تردید کر رہے ہیں کہ یہ غیر اشتعالی کارروائی تھی۔

پاکستان نے ناٹوفضائی حملے میں اپنے فوجیوں کی شہادت پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اظہار افسوس کو مستردکردیااور کہا کہ اس واقعے کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجرجنرل اطہر عباس نے اس خبر کو بے بنیاد قراردیا کہ ان کی فوج نے افغان سیکورٹی فورسز پر حملہ کیاتھا۔ امریکہ سے کہاگیا کہ وہ پندرہ دن کے اندر شمسی ہوائی اڈہ خالی کردے۔ امریکہ یہ اڈہ ڈرون حملوں کیلئے استعمال کررہا ہے حالانکہ امریکہ کے فوجی اہلکاروں نے پاکستان کو یقین دلایا کہ وہ اس حملے کی جانچ کرائیں گے لیکن پاکستانی حکمران اس سے مطمئن نہیں ہیں نیز یہ پاکستا ن کی سا لمیت پر حملہ تھا۔
پاکستان کی وزیرخارجہ حناربانی کھر نے اپنے ہم منصب ہلیرکلنٹن سے ٹیلی فون پر بات کی اور انہیں صاف الفاظ میں کہا کہ پاکستان ایسے حملے برداشت نہیں کرے گا۔ پاک فوج کے ترجمان نے سوال کیا کہ اگر ناٹو حملے سے پہلے پاکستان کی جانب سے کوئی کارروائی ہوئی تھی تو ناٹو یا افغان فورسز کا کیا نقصان ہوا۔انہوںنے ایسے الزامات کو محض پروپیگنڈہ قراردیا۔ کابل میں افغان حکام کا خیال ہے کہ افغان فورسز پر فائرنگ مزاحمت کاروں کی جانب سے نہیں بلکہ پاکستانی پوسٹ سے ہوئی تھی۔

امریکہ میں اس دھمکی کے بعد حفاظتی انتظامات سخت کر دئے گئے ۔ امریکہ نے اپنی اہم تنصیبات پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس کی سیکورٹی سخت کر دی ۔ اس دھمکی کو امریکہ اسلئے بھی سنجیدگی ہے کیونکہ جماعت الدعوة اور جماعت اسلامی کے جہاد کے اعلان کو ایک پیغام مانتے ہوئے دیگر دہشت گرد تنظیموں کو اس جہاد میں شامل ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔پاکستانی سرحد چوکی پر ناٹوکے پس پردہ امریکہ کے حالیہ فضائی حملے میں 28 فوجیوں کی موت کے بعد پاکستان میں عام لوگوں کا غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مظاہرین نے کئی شہروں میں امریکہ مخالف ریلی نکالی۔ کراچی میں مظاہرین نے امریکی پرچم نذر آتش کئے اور صدر باراک اوباما کا پتلا پھونکا۔ کراچی کے تاجروں نے امریکی اشیاءکا بائیکاٹ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ فوجیوں کی لاشوں کو دفنادیا گیا۔اس سے پہلے ناٹو کے حملے میں مارے گئے پاکستان نے2افسروں سمیت 24 فوجیوں کے لاشوں کو دفنا دیاجبکہ 15 زخمیوں پر کیا بیتی اس کا کچھ پتہ نہیں۔ ملک کی شمال مغربی سرحد پر ناٹو کے حملے سے عوام میں کافی غصہ ہے۔ جمعہ دیر رات ملک کے محمد قبائلی علاقے میں مارے گئے فوجیوں کیلئے پشاور کی علاقائی کمانڈ میں ایک تعزیتی مجلس منعقد کی گئی۔اس میں فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی سمیت اعلٰی فوجی کمانڈر اور خیبر پختون خواصوبے کے گورنر مسعود کوثر بھی موجود تھے۔ مردہ فوجیوں کے لاشوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد فوجیوں کے لاشوں کو تدفین کیلئے انکے گھروں کو بھیج دیا گیا۔بظاہر ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ پہلی امریکی’بھول‘ ہو جبکہ پاکستانی سرزمین پر 2001میں شروع ہونے والی افغان جنگ کے بعد غیر ملکی افواج کی جارحیت کا کوئی اولین واقعہ نہیں ہے۔میڈیا میں شائع رپورٹوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کا پہلا واقعہ جو ریکارڈ میں آیا وہ 12 جون 2008 کو موجودہ حکومت کے دور میں ہی پیش آیا جب امریکہ کی جانب سے مہمند ایجنسی میں ہی پاک افغان سرحد پر فضائی اور آرٹلری حملہ کرتے ہوئے فرنٹئیر کور کے 11 جوانوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس واقعے میں متعدد عام شہری بھی ہلاک ہوئے۔اس واقعے کے بعد بھی پاکستان کی جانب سے شدید احتجاج ہوا اور مشترکہ تحقیقات بھی ہوئی مگر کوئی کارروائی عمل میں نہ آسکی اور نہ ہی پاکستان کی جانب سے کوئی سخت جوابی ردعمل سامنے آسکا۔اسی طرح کا دوسرا واقعہ 2008میں 3 ستمبر کو اس وقت پیش آیا جب امریکی زمینی افواج عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے عنوان پر پاکستانی علاقے جنوبی وزیرستان میں گھسی اور وہاں ایک قبائلی کے گھر میں دھاوا بول کر خواتین اور بچوں سمیت 15 افراد کو ہلاک کیا اور واپس چلی گئی۔اس وقت بھی پاکستان کی جانب سے آغاز میں انتہائی شدید احتجاج اور مستقبل میں ایسی کارروائیوں پر سخت جوابی کارروائی کا عندیہ دیا گیا تاہم کچھ عرصے بعد ہی اسے فراموش کر دیا گیا۔اسی طرح اپریل 2009 میں اس قسم کی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ پاکستان اور امریکہ کی افواج مشترکہ طور پر وزیرستان کے قبائلی علاقے میں طالبان کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں۔ناٹو یا امریکی افواج کی جانب سے پاکستانی سرزمین پر فضائی حملے کے کئی حملے یکے بعد دیگرے ستمبر اور اکتوبر 2010 میں پیش آئے جس کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ان حملوں کے بعد پاکستان کی جانب سے کچھ عرصے کے لئے ناٹو کی سپلائی بند رکھی گئی مگر کچھ عرصے بعد اسے خاموشی سے بحال کر دیا گیا جبکہ اب تک ان واقعات کی تحقیقاتی رپورٹ بھی سامنے نہیں آسکی ہے۔2011میں پہلے تو امریکہ نے 2 مئی کو پاکستان کے اندر گھس کر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن سمیت کئی افراد کو قتل کیا۔اس کے بعد 12 مئی 17 مئی اور 16 جولائی کو شمالی وزیرستان اور کرم ایجنسی میں بھی ناٹو نے گھس کر حملے کئے جس میں 3 سیکیورٹی اہلکار اور 20 کے قریب عام شہری ہلاک ہوئے، تاہم موثر ردعمل سامنے نہ آنے کا نتیجہ 26 نومبر کے ہلاکت خیز واقعے کی صورت میں نکلا جبکہ اس میں 300 کے قریب ڈرون حملوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

اس مرتبہ پاکستان نے ناٹو کیلئے سپلائی بند کردی ۔ناٹو سپلائی بندہونے سے امریکی دفاعی حکام نے گھٹنے ٹیک دئے۔پاکستانی چوکیوں پر حملے کے بعدناٹوسپلائی لائن کٹ گئی۔ پاکستان کی طرف سے مزید ممکنہ اقدامات پر امریکی دفاعی حکام سخت پریشان ہیں جبکہ امریکہ نے ناٹو حملے کی تحقیقات کا بھی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی حکام جلد ایک اعلی عہدیدار کو تحقیقات کی ذمہ داریاں سونپیں گے۔ وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونیوالی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شدید ردعمل اورناٹو فورسزکی سپلائی لائن کی بندش پر امریکی حکام خاصے’ پریشان‘ ہوگئے اورحکومت کے ایوانوں میں اس حوالے سے’ غوروفکر‘ شروع کردیا ۔ امریکی دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ ناٹو کی سپلائی لائن کی بندش ایک سنگین مسئلہ ہے اور آنیوالے دنوں میں اس کی شدت میں اور بھی اضافہ ہونیکا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان سے ناٹو سپلائی بند ہونے پر پینٹاگون افغانستان میں موجود افواج کو رسد کی فراہمی کیلئے وسط ایشیائی ریاستوں کے روٹ استعمال کریگا۔ زیادہ تر سپلائی وہیں سے کی جائے گی۔ امریکی دفاعی حکام کیمطابق اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوگا اگر پاکستان نے فضائی پابندی لگاتے ہوئے امریکہ اور اتحادی ممالک کو ائیرکوریڈور کے استعمال کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ امریکی دفاعی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ اس فیصلے کے بعد فورسز کو سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑیگا۔ دوسری جانب پینٹاگون حکام نے مسئلے سے نمٹنے کیلئے ممکنہ اقدامات پرغور وخوص بھی شروع کر دیا ۔امریکی فوج کے سابق جنرل بیری مکے فری نے کہا کہ ناٹو حملے پر پاکستان سے معافی مانگی جائے۔ سپلائی بند رہی تو افغانستان آپریشن براہ راست متاثر ہوگا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق سابق امریکی جنرل بیری مکے فری نے کہا کہ ناٹو فضائی حدود کی خلاف ورزی کی غلطی تسلیم کرے اور اس واقعہ پر پاکستان سے معافی مانگے۔ افغان آپریشن کی کامیابی کیلئے پاکستان کا تعاون لازمی ہے۔ پاکستان نے ناٹو کی سپلائی مستقل طور پر بند رکھی تو نوے روز میں ناٹو کا سامان ختم ہوجائے گا جس سے افغان آپریشن جاری رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔ سپلائی کے بغیر ڈیڑھ لاکھ ناٹو فوجیوں کا گزارہ مشکل ہوجائے گا۔ جنرل بیری نے مشورہ دیا کہ پاکستان کو منانے کیلئے اگر اسے معاوضہ بھی ادا کرنا پڑے تو دینا چاہئے مگر پاکستان سے ناٹو کی سپلائی ہر صورت بحال ہونی چاہئے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان ایک اہم اتحادی ہے۔ اگر امریکی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اس اہم اتحادی کو ناراض کر کے افغان جنگ میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہوگی۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 115993 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More