امریکہ کا جنگی جنون

امریکی محکمہ دفاع کی ویب سائٹ کے مطابق جنگی جنون میں مبتلا امریکہ کی فوج بر اعظم ایشیا کے اہم ترین ملک پاکستان سمیت دنیا کے135ممالک میں 800 مقامات پر موجود ہے، پاکستان سمیت کئی ممالک میں فوجی اڈے بھی قائم ہیں۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اہم اتحادی پاکستان میں صرف 146 امریکی فوجی اہلکار موجود ہیں جن میں 130 میرین، 11 ایئر فورس اور 6 آرمی سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکی آرمی، نیوی، میرین، ایئر فورس اور کوسٹ گارڈ پر مشتمل لاکھوں فوجیوں کے دستے دنیا کے 135 ممالک کے800 سے زائد اہم جگہوں پر موجود ہیں ۔ امریکہ کی فوج اس وقت جرمنی ، برطانیہ، جاپان، اٹلی، کوریا، یورپ، سوویت یونین، پاکستان، افریقہ، ایشیا اور یورپ کے135 ممالک میں ہتھیاروں اور جنگی ساز و سامان سے مسلح ہو کر اپنے اہداف کے حصول میں مصروف ہے۔

ایک برطانوی ویب سائٹ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کے آخر تک عراق میں 85 ہزارسے زائد امریکی فوجی اہلکار موجود تھے جبکہ افغانستان میں ایک لاکھ 37 ہزار سے زائد، جرمنی میں 52 ہزار ، جاپان میں 36 ہزار کے قریب، عوامی جمہوریہ کوریا میں 29 ہزار ، اٹلی میں 10 ہزار، جب کہ برطانیہ میں 9 ہزار سے زائد امریکی فوجی موجود ہیں۔سال 2010 کے اختتام تک 78 ہزار کے قریب امریکی فوجی یورپ میں موجود تھے جب کہ سوویت یونین میں ان کی تعداد 150بتائی گئی ہے، مشرقی ایشیا کے مختلف ممالک میں 48 ہزار ، شمالی افریقہ کے مختلف ممالک میں ساڑھے تین ہزار ، جنوبی اور مشرقی افریقہ کے مختلف ممالک میں 1400 سے زائد جبکہ افریقی صحارہ کے علاقوں میں 2000 کے قریب امریکی اہلکار موجود تھے۔رپورٹ کے مطابق امریکہ کا جنگی بجٹ پوری دنیا کے دفاعی اخراجات کا 43 فیصد حصہ ہے، امریکہ کا سالانہ جنگی بجٹ 698 ارب ڈالر تک ہے جبکہ سال 2010 میں امریکی جنگی بجٹ کے لئے 553 ارب ڈالر رکھے گئے تھے۔

تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ امریکہ کے منہ کو''خون کاچسکا''لگ چکاہے،نیزجنگ اس کی مجبوری بھی ہے ،کیوں کہ اس کی معیشت کابڑی حدتک دارومدارذراعت کے بعدعالمی منڈی میں اسلحے کی تجارت پربھی ہے۔ماجی کی تاریخ اس بات پرشاہدہے کہ امریکہ ''انسانیت کاسب سے بڑاقاتل''ہے۔نومسلم میلکم ایکس نے اپنی آپ بیتی میں اس حوالے سے بڑے تلخ حقائق پیش کیے ہیں۔وہ کہتاہے: صرف1899ء تا1902کے مختصر عرصے میں دو لاکھ سے زیادہ فلپائنیوں کو قتل کیا( یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا اور مسلمان ہی اس کا خصوصی ہدف تھے) امریکا کے جانے کے بعد امریکا کی کٹھ پتلی عیسائی حکومت نے قتل وغارت جاری رکھی۔ دستیاب اعداد وشمار کے مطابق 1965ء تا1982ء کے عرصے میں دو لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید، 3لاکھ کو بیرون ملک اور 20لاکھ کو اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور کیا۔3لاکھ سے زیادہ گھروں کو تباہ اورنذر آتش کر دیا گیا۔

1607ء تا1890کے دوران میں شمالی'جنوبی اور سنٹرل امریکا کے 9کروڑ سے زیادہ افراد کو قتل کیا گیا۔1948ء کے بعد سے امریکا اور اسرائیل دونوں نے ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا(مہاجرین کی تعداد 40لاکھ سے زیادہ ہے)۔1991ء سے اب تک امریکا اور NATOکی افواج10لاکھ سے زیادہ عراقی شہری شہید کر چکی ہیں جن میں بچوں کی تعداد دو لاکھ ہے (پابندیوں کے باعث شہید ہونے والے عراقیوں کی تعداد 15لاکھ بتائی جاتی ہے)۔1991ء میں امریکا اور NATOکی افواج نے یوگوسلاویہ کے 3لاکھ شہریوں کو قتل کیا۔ 1980ء میں ایلسلو اڈور کے 75ہزار شہری امریکی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔7۔1975ء تا1999ء کے عرصے میں مشرقی تیمور کے دو لاکھ شہری امریکہ کا نشانہ بنے۔1993ء میں 500صومالیوں کو امریکہ نے قتل کیا۔ 1997ء سے اب تک 5لاکھ افغانی براہِ راست یابالواسطہ امریکا کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔1989ء میں پانامہ پر حملہ کر کے5ہزاربے گناہ شہریوں کو ہلا ک اور15ہزار کو بے گھر کر دیاگیا۔1988ء میں ایران کے ایک مسافر طیارے پر حملہ کر کے209مسافروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔1962ء تا1973ء کے دوران میں10 ہزار یونانی قتل کیے گئے۔1994ء تا1997ء کے عرصے میں چلی کے 5ہزار شہری مار دیے گئے۔1945ء تا 1974کے دوران میں ویتنام میں25لاکھ افراد ہلاک کیے گئے۔1955ء تا1973ء کے دوران میں 10تا20لاکھ کمبوڈین قتل کر دیے گئے۔1957ء تا 1973ء کے عرصے میں لٹویا کے 5لاکھ شہری ہلاک کیے۔1965ء میں انڈونیشیا میں 5تا 10لاکھ شہریوں کے قاتلوں کو امریکی مدد حاصل تھی۔6اگست1945ء کو جاپان کے شہر ہیروشیما پرجو ایٹم بم گرایا گیا، روزنامہ گارڈین کے مطابق اس سے 20ہزار فوجی اور ایک لاکھ دس ہزار شہری ہلاک ہوئے۔ جاپانی ذرائع کے مطابق3.5لاکھ آباد شہر میں 2لاکھ اموات ہوئیں۔9اگست کو ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے ایک لاکھ 40 ہزار اموات ہوئیں۔مارچ1945ء میں ٹوکیو میں بمباری سے صرف ایک رات میں 85ہزار انسان ہلاک ہوگئے۔

اس ناتمام فہرست میںنائن الیون کے بعدکی امریکی غنڈہ گردی کوبھی شامل کرلیں ،توحقیقت مزید نکھر کر سامنے آجائے گی۔

یہ درست ہے کہ امریکہ کے پاس فوجی طاقت زیادہ ہے لیکن کیا اس طاقت کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر وہ بدمعاشی بھی کرے تو دوسرا اسے چپ چاپ برداشت کرے کیونکہ کمزور ہے؟ نہیں… آج کی دنیا میں فوجی میدان میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ کئی اور بھی میدان ہیں جہاں اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور دنیا کی انصاف پسند رائے عامہ کوساتھ ملا کر اپنی پوزیشن مضبوط بنائی جا سکتی ہے اور اپنی حقانیت کو ثابت کیا جا سکتا ہے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے لیے ضروری ہوم ورک کیا جائے۔ ملک کے اندر اتحاد و یکجہتی قائم کی جائے اور پوری قوم ایک ہو کر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائے۔پاکستان کی طرف سے نیٹو کی سپلائی بند کئے ہوئے آج دوہی ہفتے ہوئے ہیں۔ امریکی اوراتحادی منت سماجت پر اترآئے ہیں کہ رسد نہ ہونے کے باعث افغانستان میں پھنسی ہوئی امریکی فوج کو شدید دشواری کا سامنا ہے اور یہ رسد چند دن نہ کھلی تو امریکیوں کو دن میں تارے نظر آنے لگیں گے ۔نیٹو کنٹینروں کی سپلائی بحال کرانے کیلئے امریکہ نے دنیابھر میں اپنے اتحادیوں سے رابطہ کر کھا ہے اور پاکستان پر مختلف طریقوں سے دبا بڑھا رہا ہے۔ امریکہ اگرچہ دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ ڈرون حملے افغانستان میں موجود اپنے اڈوں سے جاری رکھے گا مگر گزشتہ ایک ہفتے سے اس سلسلے میں خاموشی ہے اور جوابی کاروائی کے خوف سے ابھی تک کوئی ڈرون وزیر ستان کی فضا میں بلند نہیں ہوا۔ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان اسی طرح ہرمعاملے میں استقامت کے ساتھ امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے سامنے ڈٹ جائے،تووہ وقت دورنہیں جب امریکہ ہمیں اپنی کالونی بنانے کے خبط سے نکل کربرابری کی سطح پرہم سے ڈائیلاگ کرے گا۔یہی حب الوطنی کاتقاضابھی ہے اورامریکہ کے جنگی جنون کاعلاج بھی۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 280401 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More