علاج با لمثل یعنی ہومیوپیتھک کا
جب ذکر ہوگا تواس طریقہ علاج کے بانی ہانیمن کا تذکرہ بھی یقینا ہوگا۔انہوں
نے سالہا سال کی تحقیق و جستجو کے بعد بنی نوع اانسان کی فلاح وبہبود کیلئے
جو کارہائے نمایاں انجام دیئے اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ آج ساری دنیا میں
ان کا طریقہ علاج مقبول ہے۔
1781ءمیں ہانیمن ڈاکٹر آف میڈیسن بن کر روایتی ایلوپیتھک ادویات پر کام
شروع کر دیا۔ ساتھ ہی سائنسی اور طبی کتب کا ترجمہ بھی کرتا رہا۔ جلد ہی
ہانیمن کا اس زمانے کے طبی طریقے کار سے اعتقاد ختم ہو گیا اور 1783ءمیں
ڈریسڈن میں فرانزک میڈیسن forensic medicine کے شعبے کیلئے خود کو وقف کرنے
کا فیصلہ کر لیا ۔
ہانیمن کی ایلوپیتھک پریکٹس کا دورانیہ تقریباً 10 سال پر محیط تھا۔لہٰذا
ہانیمن نے سنکونا کے اثرات کا خود پر تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ
دریافت کیا کو سنکونا کھانے سے جو اثرات یا علامات اسکے اندر پیدا ہوئیں وہ
ملیریا جیسی تھیں۔ دوائی چھوڑنے کے چار روز بعد یہ علامات خود بخود ختم ہو
گئیں یہ پہلا ہومیوپیتھی ثبوت تھا اور ہومیوپیتھی کے پہلے قانون کی دریافت
Similia Similibus Curentur یا Like Cure like علاج بالمثل ہانیمن نے اپنی
اس نئی دریافت کو ہومیوپیتھی کا نام دیا -
1801ءمیں ہانیمن نے ادویات کی مقدار کو کم کرنے کے نظریے کو وسعت دی کہ
ادویات کی طاقت کو کم کرنے سے ایک ہی طاقت کے طور پر کام کرتی ہیں۔جیسے
فزکس کے قانون کے مطابق ایٹم کاذرہ جتنا زیادہ چھوٹا ہوتا جائیگا‘ اتنا ہی
طاقت ور ہوتا جائیگا۔ 1805ءمیں ہانیمن نے 27 ادویہ کے اپنے اوپر کئے گئے
تجربات ایک لاطینی کتاب میں بیان کئے۔ اس نظریے کے مطابق ان ادویات کی
آزمائش ایک صحت مند جسم پر کی جاسکتی ہے۔ اس نے سارے تجربات خود پر کئے اور
1807ءمیں اس نے اپنے طبی نظام کو ہومیوپیتھی کا نام دیا۔
1808ءمیں ہانیمن نے ایک مشہور معالج کرسٹوف ولیلم ہوف لینڈ Christoph
Wilhelm Hufeland کو ایک خط لکھا کہ میں طب کے عام طریقہ علاج پر 18 سال سے
عمل پیرا رہا ہوں اور یہ بہت سی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے کیونکہ یہ طریقہ
علاج نئی بیماری کو پیچیدہ کر سکتا ہے اس کے علاوہ یہ انتہائی بے ترتیب ہے۔
ہانیمن نے انسان کو مکمل طور پر فوقیت دی اور اس کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی پر
زور دیا۔ اسی سال جب نپولین نے لیپزگ پر حملہ کیا تو تقریباً 80,000 لوگ
مارے گئے ہانیمن نے جنگ میں بچ جانے والے اور ٹائیفائیڈ کی وباءسے متاثر
ہونے والوں کا علاج کیا جو ہومیوپیتھی طریقہ علاج کو پھیلانے میں معاون
ثابت ہوا۔
1831ءمیں ہانیمن نے ایک کتاب ”ایلوپیتھی ہر قسم کے بیمار لوگوں کےلئے
انتباہ“ شائع کی ۔ 1831-32ءمیں جب پورے یورپ کے ایک بڑے حصہ میں ہیضے کی
وباءپھوٹ پڑی تو روایتی ادویات بے کار ثابت ہو رہی تھیں تو ہانیمن کے
ہومیوپیتھی کے طریقہ علاج اوراحتیاطی تدابیرسے بہت سے مریضوںکوشفاءملی‘ جس
کی شرح علاج میں 96% تھا۔ بہ نسبت ایلوپیتھی کے 41% شرح کے۔ اس کامیابی کی
وجہ سے 1832ءمیں لیپزگ میں پہلے ہومیوپیتھک ہسپتال کا قیام عمل میں آیا جس
نے ایک جستجوکا دروازہ کھول دیا۔
ہومیوپیتھی کی ابتداء1790ءکی دہائی میں جرمنی میں ہوئی پھر فرانس اور متحدہ
برطانیہ پہنچی‘ جہاں سے یہ پچاس سال کے اندر برطانوی متحدہ ،ہندوستان کے
علاوہ دنیا کے سارے براعظموں میں کامیابی سے پھیل گئی۔ متحدہ ہندوستان میں
لاہور کو سب سے پہلے ہومیو پیتھی کا استقبال کرنے کا شرف حاصل ہے۔ Dr.
Freeburn اور میجر ڈاکٹر صادق علی نے 1920ءمیں ہندوستان کا سب سے پہلا
ہومیو پیتھک میڈیکل کالج لاہور میں ہی بنایا۔قیام پاکستان کے بعد مسعود
قریشی اور دیگر ہومیوپیتھک ڈاکٹروں نے ہومیوپیتھی کو بام عروج بخشا۔مسعود
قریشی کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ہومیو پیتھی ایک Holistic اپروچ والا سسٹم ہے جس میں مکمل مریض کو لیا جاتا
ہے۔ برطانیہ کا ایک غیر جانبدار ہفتہ روزہ میڈیکل جرنلBritish Medicine
Journal نے اپنی 7جون1986ءکی اشاعت میں ڈاکٹر رچرڈ وارٹنRichard Wharten
اور ڈاکٹر جارج لیوتھ George Lewithکے کئے گئے ایک سروے رپورٹ میں مختلف
برطانوی ایلوپیتھک ڈاکٹرز کے ہومیوپیتھی کے بارے میں خیالات پیش کئے گئے
ہیں کہ ہر 42% ڈاکٹر، اپنے مشکل مریضوں کو ایلوپیتھی اسپیشلسٹ کے بجائے
ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کی طرف refer کرتے ہیں۔ یہ ہے آج کی ہومیو پیتھی کا مقام
جو ہومیو پیتھک کو یہ مقام خیرات میں نہیں ملا، ہومیو پیتھی بذات خود
ایمرجنسی کا نظام ایلو پیتھی سے کسی طرح بھی کم نہیں بلکہ خود مختار
Independent اپروچ رکھنے والا سسٹم ہے۔
فرانس میں 1990ءکی ہومیوپیتھی کو میڈیکل کا بہترین نظام قرار دیا ہے۔یہی
وجہ ہے کہ2000ء جنیوا میں دنیا بھر سے سروے رپورٹ کے بعدWHOنے ہومیوپیتھک
کو ”امراض کی روک تھام “کا دوسرا بڑا طریقہ علاج قرار دیا ہے ۔ 2000ءہی میں
ہاﺅس آف لارڈز UKمیں اور وائٹ ہاﺅس کمیشن نے واشنگٹن ڈی سی میں 22مارچ
2002ءکو ہومیوپیتھی کی حیثیت کو تسلیم کیا۔
فرانس میں تقریباً 20 ہزار کے قریب ہومیو پیتھک فارمیسیز کام کر رہی ہیں۔
یہ فرانس ہی ہے جب ہانیمن کو جرمنی سے ملک بدر کیا گیا‘ اس نے پناہ دی اور
ہومیوپیتھک پریکٹس کرنے کی اجازت بھی دی ۔ برٹش میڈیکل جرنل ہی کی ایک سروے
رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر 100گریجوایٹس برٹش فزیشن میں سے 80%
ہومیوپیتھی میں ٹریننگ لینے کے خواہش مند ہیں۔ یورپ میں پہلے ایلوپیتھک
ڈاکٹر بننا پڑتا ہے پھر ہومیوپیتھک، کیونکہ ہومیو پیتھی، ایلوپیتھی ڈاکٹر
کو ایک اسپیشلٹی کے طور پر پڑھائی جاتی ہے اس لئے اسے Post Graduate
Specialty کا درجہ حاصل ہے اور یورپ میں ایک ہومیوپیتھ کو HMD ہومیو میڈیکل
ڈاکٹر کہا جاتا ہے۔
بانی ہومیو پیتھک ڈاکٹر سیموئیل ہانیمن بذات خود ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر MDتھے
پھر ہومیو پیتھ بن گئے۔پاکستان میں بھی اس وقت کئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر
ہومیوپیتھک پریکٹس کی طرف آ رہے ہیں۔ اور کامیابی سے ہومیوپیتھک پریکٹس کر
رہے ہیں-
پاکستان ‘ انڈیا اور دنیا کے اکثر ممالک میں ہومیو پیتھی کو ایک جداگانہ
میڈیکل سسٹم کی حیثیت حاصل ہے اور یہ حیثیت اسے قانون ساز اسمبلیوں نے
ہومیوپیتھک پریکٹیشنر ایکٹ 1965 کے تحت دی ہے۔ بھارت کا ہومیوپیتھی کی دنیا
میں ایک اہم کردار یہ بھی ہے کہ وہاں ہومیو پیتھک ڈاکٹر کی قانونی حیثیت
اور مقام ایک میڈیکل پریکٹیشنز کے برابر ہے جبکہ ہمارے ملک میں شعبہ طب اور
ہومیوپیتھک کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیاجاتا ہے۔
اگر بھارت پر ایک نظر ڈالی جائے تو وہاں متبادل طریقہ ہائے علاج کو ترویج
دینے کےلئے وزارت صحت میں علیحدہ سے ایک ڈیپارٹمنٹ موجود ہے جسے ڈیپارٹمنٹ
آف ”AYUSH“ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ڈیپارٹمنٹ ان طریقہ ہائے علاج کی ترقی
وترویج کےلئے ہرممکن مدد فراہم کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت میں صرف
ہومیو پیتھک طریقہ علاج کی 5634 ڈسپنسریاں 223 ہسپتال جن میں 11205 بستروں
کی سہولت موجود ہے۔ 178کالج جو ڈپلومہ کروا رہے ہیں اور 31کالج جو پوسٹ
گریجویشن کروا رہے ہیں موجود ہیں‘ اس کے برعکس پاکستان اس حوالے سے بہت
پیچھے ہے‘ کیونکہ سرکاری سطح پر اسکی ترویج میں کوئی حصہ نہیں لیا گیا۔
آج ہومیو پیتھک کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ 1970ءسے 1980ءکے
دوران امریکہ میں ہومیوپیتھی کی پریکٹس کرنے والوں کی تعداد ودگنی ہو گئی۔
امریکہ کے میگزین FDA کنزیومر کی رپورٹ کے مطابق 1970ءسے 1980ءکے دوران
ہومیو پیتھک دواﺅں کی فروخت 100فیصد بڑھ گئی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے
مطابق 1980ءسے 1982ءکے دوران امریکہ میں ہومیو پیتھ کی تعداد میں دوگنا
اضافہ ہوا۔ ذرا سوچیئے!آج ہومیو پیتھی دنیا میں کہاں کھڑی ہے۔ ہزاروں سال
پرانے دواﺅں کے سسٹم مثلاً یونائی، چائنیز، ہربل میڈیسن وغیرہ صرف دنیا کے
چند علاقوں تک ہی محدود ہیں جبکہ ہومیوپیتھی صرف دو سو سال میں دنیا کے
پانچ براعظموں، ایشیا، یورپ، امریکہ، افریقہ اور آسٹریلیا میں اپنے کامیاب
قدم گاڑھ چکی ہے۔
صدیاں بیت گئیں لیکن افسوس ایلوپیتھی کے دل سے تعصب کی گرہ نہ کھل سکی۔ جب
آخری عمر میں سرجری ناقابل عمل ہو جائے یا حاملہ عورتوں میں ایلوپیتھی
ناقابل برداشت ہو جائے یا جب نوزائیدہ اور شیرخوار بچوں کےلئے ایلوپیتھی
شجر ممنوعہ بن جائے یا گردے فیل کے مریض ڈائیلسس سے منکر ہو جائیں یا مریض
ایلوپیتھک دواﺅں سے الرجی ہو یا مریض کی قوت مدافعت انتہائی کمزور ہونے کی
وجہ سے ایلوپیتھک دوائیں ٹمٹماتے چراغ کیلئے آخری جھونکا ثابت ہونے کا خطرہ
ہو یا مریض کی بیماری بار بار حملہ آور ہو کر ایمرجنسی نافذ کر دیتی ہو تو
ایسے نازک وقت میں وہ ہومیوپیتھک کو Alternative System مان لیتے ہیں۔ جو
سسٹم نازک صورتحال میں کام آئے وہ زیادہ قابل اعتبار، مکمل اور بہتر ہے یا
وہ سسٹم جو مشکل وقت میں کنارہ کر جائے وہ بہتر ہے۔
بعض اوقات معالج مریض کے خون میں Troponin-T یا دوسرے پروٹین کے پازیٹو
ہونے یا عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے ہارٹ اٹیک کے خوف سے ڈائیلسس اور ہر قسم
کے آپریشن سے انکار کر دیتے ہیں اور بعض اوقات مریض اور معالج دونوں
ڈائیلسس اور آپریشن سے انکار کر دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہی کوئی ڈیڈ لاک پیدا
ہو جائے اور ہر طرف سے انکار ہو جائے تو ہومیو پیتھی مریض کو مرنے کےلئے
نہیں چھوڑ سکتی۔ ہومیوپیتھک ادویات کے ایجاد سے لےکر آج تک مضر اثرات
انسانی صحت پر مرتب نہیں ہوئے۔دوسرے طریقہ ہائے علاج کی بہت سی ادویات محض
اس لئے بند کردی جاتی ہیں کہ انہوں سے انسانی زندگی پر بے حد مضر صحت اثرات
مرتب کرنےوالی ثابت ہوئیں‘مشہور ایلوپیتھک ڈاکٹرDr.Ronalled
Livingston,MBBS Lond.M.F.Hon ایک انتہائی سادہ اور عام استعمال ہونے والی
دوائی اسپرین کے سائیڈ ایفیکٹ بتاتے ہیں جنہیں پڑھ کر انسان دہل جاتا ہے۔
یہی وجہ ایک کہ آج ملنے والی ایلوپیتھک ادویات ایک دو سال کے بعد دوبارہ
نہیں ملتی اسکی ایک خاص وجہ ان ادویات کی پروننگ جانوروں‘گنی پگ‘مینڈک‘
خرگوش اور دوسرے جانوروں پر کی جاتی ہے۔ جانوروں پر پروننگ کی ہوئی ادویات
کو انسانوں پر استعمال کرنے سے صاف اور سیدھی سی بات ہے کہ بہت ساری
پیچیدگیاں ضرور پیدا ہوں گی۔ اس کے برعکس ہومیوپیتھک واحد میڈیکل سائنس ہے
جس کی ادویات کی پروننگ براہ راست انسانوں پر کی جاتی ہے یہاں ایک غور طلب
بات ہے کہ جب ہومیوپیتھک ادویات کی انسانوں پر پرووننگ کی گئیں تو انہوں نے
خود بتایا کہ انہیں دوائی کھانے سے کیا محسوس ہو رہا ہے‘ سر کے بائیں طرف
درد شروع ہو گیا ہے ‘دل میں گھبراہٹ ہے‘ چکر آنے شروع ہو گئے ہیں‘پیٹ میں
شدید درد ہے۔پھر انکے لیبارٹری ٹیسٹ لئے جاتے ہیں‘ ہر ذی شعور انسان اس بات
کو سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائے گا کہ ہومیوپیتھک ہی حقیقت پر مبنی
سائنس ہے۔کیونکہ دوسرے طریقہ علاج کے پروور یعنی گنی پگ‘ خرگوش‘ مینڈک
وغیرہ وہ آپ کو یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ دوا کھانے کے بعد انہیں کیا محسوس
ہوا‘ تجربہ کرنے والا صرف انکی حرکات و سکنات سے ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ
ان پر اس دوا کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں‘ وہ غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا
لیبارٹری ٹیسٹ سے ہی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ یہی جہ ہے کہ ہومیوپیتھک
ایک محفوظ طریقہ علاج مانا جاتا ہے جس کی ادویات بیماری کے دوران قوت
مدافعت کو متاثر نہیں کرتی ہیں اور مریض روبہ صحت بھی ہو جاتا ہے۔ |