آپ کا اسم گرامی نعمان بن ثابت
اور کنیت ابو حنیفہ اور لقب امام اعظم ہے ۔
آپ کی ولادت با سعادت کوفہ میں 80ھ میں ہوئی ۔
آپ تابعی (جو کسی صحابی کی زیارت کرے یا ان کی صحبت میں بیٹھے ایمان کی
حالت پر اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہو)تھے آٹھ صحابہ کرام علیہم
الرضوان کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔
آپ نے علوم اسلامیہ و فنون دینیہ چار ہزار شیوخ و فقہاء سے حاصل کئے ۔
آپ کے متعلق حضور سرور دو عالم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے بشارتیں
دیں ،جس میں سے ایک روایت یہ ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ
سے روایت ہے کہ میرے بعد ایک ایسا شخص آئے گا جسے نعمان کہا جائے گا ، اس
کی کنیت ابو حنیفہ ہو گی ، اس کے ہاتھوں سے اللہ تعالٰی کا دین اور میری
سنّت زندہ ہوگی ۔( مناقب امام اعظم امام موفق بن احمد مکی)
آپ نے فقہ کی بنیاد رکھی ،اب تک جو اسلامی کتب میں مسائل اسلامیہ کی ترتیب
ہے یہ آپ کی مرتب کردہ ہے ۔
آپ کے فضائل و کمالات کا تمام زمانہ معترف ہے ، ابن کثیر نے لکھا کہ
الامام فقیہ الاسلام احدار کان العلماء احد الائمۃ الاربعہ ( البدایہ
والنہایہ )
ترجمہ ! امام اعظم اسلام کے ایک فقیہ تھے اور علماء اسلام میں ایک رکن تھے
اور آئمہ اربعہ میں سے تھے ، آپ حاضر جوابی میں بے مثال تھے، چند نمونے
بطور پہیلیاں اگلے صفحات میں ملاحظہ فرمائیں !
آپ کو قرآن مجید میں ایسی لگن تھی کہ رات میں صرف ایک رکعت میں پورا قرآن
پاک ختم کرلیتے آپ نے چار ہزار حدیثیں راویت کی ہیں ، اور اپنی تصانیف میں
ستّر ہزار سے زائد احادیث بیان کی ہیں ۔( مناقب علی القاری جلد2)
آپ عالم اسلام کے جملہ محدثین کے استاذ الاساتذہ ہیں کسی کے بالواسطہ کسی
کے بلاواسطہ ، صحاح ستّہ کے مصنفین آپ کے شاگردوں کے شاگرد ہیں ۔
آپ کے شاگردوں کی تعداد شمار سے باہر ہے ، ایک قبرستان میں چھ سو ،، محمد،،
نام والے مدفون ہیں وہ تمام آپ کے شاگرد یا شاگرد کے شاگرد تھے ۔ ( حدائق
الحنفیہ)
آپ کا تقوٰی عالم اسلام میں ضرب المثل ہے چنانچہ امام محمد لڑکپن میں بڑے
صاحب جمال تھے امام ابو حنیفہ نے ان کو صرف پہلی دفعہ دیکھا پھر انہیں نہیں
دیکھا جب انہیں سبق پڑھاتے تھے تو ستون کے پیچھے بٹھا کر پڑھاتے تاکہ ایسا
نہ ہو کہ ان پر نظر پڑجائے ۔(تذکرہ ابو حنیفہ)۔
آپ کو خلیفہ منصور نے دس ہزار درہم کی پیشکش کی لیکن آپ نے انہیں ٹھکرادیا۔
امام شعرانی علیہ الرحمہ نے فرمایا !
کہ آپ کا مذہب اسلام میں سے سے پہلے مرتب ہوا اور سب سے اخیر میں ختم ہوگا۔
آپ نہایت ہی رحم دل ،دیانتدار، عبادت گزار اور متحمل مزاج تھے پوری زندگی
کسی پر لعنت نہ کی ۔ کسی کی غیبت نہ کی ۔
آپ اپنے اساتذہ کے بڑے باادب تھے زندگی بھر اپنے استاد شیخ حماد کے گھر کی
طرف پاؤں نہیں پھیلائے حالانکہ استاد کے گھر کے درمیان چالیس گھر واقع تھے
۔ (مناقب الموافق)
آپ کے ایک صاحبزادے کا نام حماد تھا اس نے جب سورہ فاتحہ ختم کی استاد کو
پانچ سو درہم بروایت دیگر ایک ہزار درہم پیش کئے اور یہ عظمت قرآن کی
معمولی خدمت ہے اور میرے پاس اس وقت اتنے ہی تھے اگر زائد ہوتے تو پیش کرتا
۔
سراج الامہ امام الائمہ سیدنا امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ذہانت
و فطانت کا اعتراف آپ کے مخالفین کو بھی ہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ کے دور میں
آپ کے بے شمار حاسدین کے باوجود آپ کی فقہ آپکی زندگی میں تمام ممالک
اسلامیہ میں مروج ہوگئی ۔
حضرت قتادہ بن دمامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ مادر زاد نابینا تھے۔ مگر آپ کا
سینہ علوم اسلامیہ کا خزینہ تھا ، نہایت ہی بلند پایہ عالم اور جامع علوم
علامہ تھے ، بالخصوص علم حدیث اور تفسیر میں تو اپنا مثل نہیں رکھتے تھے ،
ایک مرتبہ یہ کوفہ تشریف لائے تو ان کی زیارت کے لئے عوام و خواص کا اژدھام
عظیم جمع ہوگیا ، آپ نے اس عظیم الشان مجمع کو خطاب کرتے ہوئے یہ ارشاد
فرمایا!
سلوا عمّا شئتم (یعنی مجھ سے جو چاہو پوچھ لو ۔
حاضرین پر آپ کی جلالت علمی کا ایسا سکہ بیٹھا ہوا تھا اور لوگ آپ کی عظمت
سے اس قدر مرعوب تھے کہ سب دم بخود ساکت و خاموش بیٹھے رہے۔ مگر جب آپ نے
بار بار للکارا تو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جو ابھی
کم سن تھے خود کمال ادب سے کچھ عرض نہ کر سکے مگر لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ
ان سے یہ پوچھئے کہ۔
وادی نمل میں جس چیونٹی کی تقریر سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام مسکرا کر
ہنس پڑے تھے وہ چیونٹی نر تھی یا مادہ۔
چنانچہ جب لوگوں نے یہ سوال کیا تو حضرت قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ایسے سٹ
پٹائے کہ بالکل لاجواب ہو کر خاموش ہو گئے۔ پھر لوگوں نے حضرت امام اعظم
رضی اللہ تعالٰی عنہ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ۔
وہ چیونٹی مادہ تھی، حضرت قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اس کا
ثبوت ؟ چنانچہ جواب میں آپ نے اس کا ثبوت یہ پیش کیا کہ قرآن مجید میں اس
چیونٹی کے لئے قالت نملۃ (پ19 سورہ نمل آیت 18 )
مونث کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے۔ اگر یہ چیونٹی نر ہوتی تو قال نملۃ مذکر کا
صیغہ ذکر کیا گیا ہوتا۔
حضرت قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس دلیل کو تسلیم کر لیا اور حضرت امام
اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی دانائی اور قرآن فہمی پر حیران رہ گئے اور
اپنے بڑے بول پر نادم ہوئے۔ (روح البیان ج6 ص 333)
آپ کی وفات ستر سال کی عمر میں 150ھ میں ہوئی ۔ آپ کی نماز جنازہ چھ بار
ادا کی گئی ، پہلی بار پچاس ہزار افراد نے شرکت کی ، دفن سے پہلے بیس دن تک
لوگ آپ کی نماز جنازہ پڑھتے رہے ۔ ( خطیب بغدادی)۔
آپ کا مزار بغداد میں اعظمیہ کے علاقے میں واقع ہے ، امام شافعی علیہ
الرحمۃ نے فرمایا ! کہ امام ابو حنیفہ کا مزار حاجتیں پوری ہونے کے لئے
تریاق ہے آپ کے وسیلہ سے دعا مانگتا ہوں ، تو میری حاجت پوری ہوجاتی ہے ۔
(خطیب بغدادی) |