حضور ضیاءالامت ہمہ جہت شخصیت

حضور ضیاءالامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے،جنہیں قدرت کسی خاص مقصد اور مشن کے لئے تخلیق کرتی ہے۔

آپ نامور پیر طریقت ،رہبر شریعت،دینی اور دنیاوی علوم سے بہرہ ور اور اسلامی فقہ اور قانون پر غیر معمولی دسترس رکھتے تھے،آپ کی ولادت یکم جولائی1918ءکو ہوئی آپ کے دادا نے آپ کا نام محمدکرم شاہ رکھا،ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر بھیرہ شریف ضلع سرگودہا سے حاصل کی1934ءمیں میٹرک پاس کیا،سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم اور فارسی زبان کاعلم اپنے محترم استاد محمد قاسم آف بالا کوٹ سے حاصل کرتے رہے،ایف اے اور بی اے کرنے کے بعد1941ءمیں مولوی فاضل کی امتیازی سندھ حاصل کی بعد ازاں دورہ حدیث شریف کے لیے جامع نعیمیہ مراد آباد چلے گئے جہاں اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت الشاہ احمد رضا خاں بریلویؒ کا روحانی فیض مولانا نعیم الدین مراد آبادی سے حاصل کیا،1951ءمیں جامعہ الازہر میں داخلہ لیا1951ءسے1954 ءتک تعلیم حاصل کی اور یونیورسٹی میںدوسری پوزیشن حاصل کی۔

حضور ضیاءالامت کی تعلیمی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے عیاں ہو سکتا ہے آپ خود فرمایا کرتے تھے،میری زندگی میں بہت سی راتیں آئیں جب میں عشاءکے بعد مطالعہ میں مگن ہوتا تھا کتابیں اپنے اسرار و رموز میرے سامنے منکشف کرتی جاتیں اسی محویت کے عالم میں صبح موذن کی اذان مجھے رات کی تنگ دامانی کا احساس دلاتی،حصول شوق محنت کا یہ جذبہ بیرون ملک جا کر اور شدت اختیار کر گیا،جامعہ الازہر سے واپسی کے بعدآپ نے دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کو دینی اور دنیوی علوم کا مرکز بنانے کے لیے اپنی علمی جدوجہد کا آغاز کیا۔

شرف بیعت:۔
ابھی آپ چھوٹے ہی تھے کہ آپ کے والدمحترم غازی اسلام حضرت پیر محمد شاہ ؒ نے آپ کو خواجہ ضیاءالدین سیالوی سے بیعت کروایا،بعد میں شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالویؒ سے تجدید بیعت کی۔

خواجہ قمر الدین سیالویؒ آپ سے بڑی محبت فرماتے تھے،ایک جلسے میں برلب منبر فرمایا،پیرمحمد کرم شاہ میری آنکھوں کا نور ہے صرف یہی نہیں بلکہ پیر سیال لچپال کے روضے کا مینار ہے۔

ماہرانہ تعلیمی خدمات:۔
حضور ضیاءالامت نے ایک ایسی علمی تحریک کی بنیاد رکھی جس سے امت مسلمہ قیامت تک فیض یاب ہوتی رہے گی،آپ نے آج سے نصف صدی پہلے قوم کو جو نصاب تعلیم دیا حکومتیں اس کی افادیت پر آج گھنٹوں مذاکرے اور اسکی ضرورت پر مباحثوں کا انعقاد کرتی ہیں،ایسا نصاب تعلیم دیا جو ملت کی فکری ترقی کا ضامن اور اسکی خودی کا پاسبان ہے،ملک کے طول و عرض میں دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی ذیلی شاخوں کانیٹ ورک دن بدن پھیلتا چلا جا رہا ہے۔

حضور ضیاءالامت فرمایا کرتے تھے کہ میں ایسے افراد تیار کرنا چاہتا ہوں جن کی دونوں آنکھیں روشن ہوں، جو دینی اور دنیاوی علوم پر دسترس رکھتے ہوں اور ملک و ملت کی ترقی میں مجاہدانہ کردارادا کر سکنے کی ہمت رکھتے ہوں،جب حضور ضیاءالامت ؒ نے علوم قدیمہ اور جدیدہ سے مزین نصاب رائج فرمایا تو آپؒ کو اہل سنت کے ہی افراد نے نشانہ تنقید بنایا اور آپ کو انگریز کا ایجنٹ قرار دیا لیکن آپؒ کے پایہ ثبوت میں لغزش نہ آئی کیونکہ آپ ؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں ان اعتراضات کا جواب دینے میں ٹائم ضائع کرنے کی بجائے میں محنت اور عمل کے ذریعے اپنے موقف کی سچائی عیاں کروں گا۔

آج الحمد اللہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک میں آپؒ کے قائم کردہ تعلیمی نیٹ ورک کی ضیاء پاشیاں پورے عروج پر ہیں اور حضور ضیاءالامت کا وہ فرمان پورا ہوتا ہوا نظر آتا ہے کہ” اکیسویں صدی دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی صدی ہے“
الحمداللہ علی ذلک۔

تحریری ضیاءپاشیاں
حضور ضیاءالامت ؒ کو خدائے بزرگ و برتر نے بے شمار صفات سے متصف فرمایا آپ ؒ جہاں مفسر قرآن ہیں وہاں عظیم سیرت نگاربھی،نہ صرف مقرر بلکہ انداز تکلم ایسا کہ دل موہ لیتا تھا۔

آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف تقریر اور حسن خطابت سے نواز بلکہ تحقیق و جستجو کا ملکہ بھی عطا فرمایامصر سے واپسی پر تفسیر ضیاءالقرآن کے نام سے وقت کی عظیم اور معرکتہ الاراءتفسیر کاآغازفرمایا،اور انیس سال کی مدت میں پانچ جلدیں جو3500صفحات پر مشتمل تفسیر تحریر فرمائی ہیں۔تفسیر ضیاءالقرآن کو بلا مبالغہ اردومیں عہد حاضر کی بلند ترین تفسیر کہا جا سکتا ہے۔

اور جب فتنہ انکار سنت بڑھتا جا رہا تھا اور قوم کے نوجوان نام نہاد مصلحین اور تشدد پسند بے دین دانشوروں کے جال میں گرفتار ہوتے نظر آرہے تھے تواس وقت حضور ضیاءالامت نے سنت خیر الانام کے نام سے خوبصورت تصنیف فرمائی جس سے بے شمار قلوب حق و صداقت کی ضیاءسے مالا مال ہوئے،گمراہوں کو نشان منزل مل گیا۔

حضور ضیاءالامت کی آخری دور کی یادگار تصنیف ضیاءالنبیﷺ ہے جو سات جلدوں پر مشتمل ہے جس میں سیرت طیبہ کو حضور ضیاءالامت نے عشق مصطفیﷺ میں ڈوب کر لکھا، ضیاءالنبی کا ہر ہر لفظ محبت رسول کی چاشنی سے لبریز ہے۔ قاری جیسے جیسے اس کا مطالعہ کرتا ہے اسے سیرت نبوی پر معلومات کا ذخیرہ ہی نہیں ملتا بلکہ ایک ایسی چاشنی نصیب ہوتی ہے جو اس کے قلب و نظر میں فیضان نبوت کی خوشبوئیں بکھیرتی رہتی ہے الغرض حضور ضیاءالامت کا قلم نقوش سیرت کو پورا واضح کرتا چلا جاتا ہے کہ قاری اپنے آپ کو اس عہد زریں میں محسوس کرتا ہے اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ واقعات نبوت اسکی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہور ہے ہیں۔

اس کے علاوہ قرآن مجید کا ترجمہ جمال القرآن حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے قصیدہ اطیب النعم کا اردو ترجمہ اور مختلف سیمینار میں پڑھے جانے والے مقالات جو مقالات حضور ضیاءالامت کے نام سے مرتب ہو چکے ہیں۔

وصال
پھرآئیں قدرت”کل نفس ذائقہ الموت“ آن پہنچا،7اپریل1998ءکا سورج اپنے جلو میں غم و اندوہ کی بہت آندھیاں لےکر طلوع ہوا،کیا خبر تھی کہ آج گلشن اسلام کا گل رعنا اہل چمن کو اشکبار چھوڑ کر رخصت ہو جائے گا 7اپریل1998ءکو آپؒ اس دار فانی سے دارِ بقاءکی جانب کوچ فرما گئے،اورآسمان حکمت کا یہ نیر تاباں اپنی ضیاءباریوں سے ہزاروںظلمت کدوں کو مستفید کرنے کے بعد ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا،لیکن آپؒ کا روحانی فیض تاقیامت جاری و ساری رہے گا،انشاءاللہ۔
لازم ہے زمانے پہ کرے قدر ہماری
ہم لوگ قمر لوٹ کے آیا نہیں کرتے
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لیئم
تو نے وہ گنج ہائے گر اں مایہ کیا کیئے

ٓآپؒ کا عرس مقدس19,20محرم الحرام کو بھیرہ شریف میں پورے ادب و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

اس سال بھی 15,16دسمبر بروز جمعرات کو بھیرہ شریف کےلئے قافلہ دفتر ضیاءالامت فاﺅندیشن فاضل پلازہ ڈھلیان چوک ڈنگہ سے صبح نو بجے روانہ ہوگا جس کی قیادت صدر ضیاءالامت فاﺅنڈیشن تحصیل کھاریاں فرمائیں گے قافلہ میں کھاریاںسٹی،باشنہ زون،جوڑا زون،ڈنگہ زون،ڈنگہ سٹی،کوٹلہ ککرالی زون سے سینکڑوں مریدین اور عقیدت مند شرکت کریں گے۔
Muhammad Bilal Ahmed Butt
About the Author: Muhammad Bilal Ahmed Butt Read More Articles by Muhammad Bilal Ahmed Butt: 6 Articles with 8405 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.