امام مالک بن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ

 نام ونسب :۔

نام ، مالک ۔کنیت ، ابوعبداللہ ۔لقب امام دارالہجرۃ ۔والد کا نام ، انس ہے اور سلسلہ نسب یوں ہے ۔مالک بن انس بن مالک بن انس ابی عامر بن عمرو بن الحارث بن غیمان بن خثیل الاصبحی ۔
امام مالک کے پر دادا ابوعامر انس بن عمرو جلیل القدر صحابی تھے ، غزوہ بدر کے سواتمام مشاہد میں شریک رہے ۔بزرگوں کاوطن یمن تھا ۔سب سے پہلے آپکے پر داد ا ابوعامر ہی نے مدینہ النبی میں سکونت اختیار کی ، چونکہ یمن کے شاہی خاندان حمیر کی شاخ اصبح سے تعلق رکھتے تھے اور آپکے مورث اعلی حارث اس خاندان کے شیخ تھے ، اس لئے ان کا لقب ذواصبح تھا ، اسی وجہ سے امام مالک اصبحی کہلاتے ہیں ۔

ولادت وتعلیم ۔

۰۹۳ھ میں ولادت ہوئی ، خلاف معمول شکم مادرمیں تین سال رہے ۔ بعض نے دوسال بیان کیا ہے ۔جائے مولد مدینہ الرسول ہے ۔
آپ نے جب آنکھ کھولی تومدینہ منورہ میں ابن شہاب زہری یحیی بن سعید انصاری ، زید بن اسلم ، ربیعہ اورابوالزناد وغیرہم تابعین اورتبع تابعین کاآفتاب علم وفضل نصف النہار پرچمک رہا تھا ۔
آپ نے قرآن مجید کی قرأت وسند مدینہ منورہ کے امام القرا ء نافع بن عبدالرحمن متوفی ۱۶۹ھ سے حاصل کی ۔دیگر علوم کی خواہش کے جذبات غیرمعمولی طور پر ودیعت تھے ، زمانہ طالب علمی میں آپ کے پاس سرمایہ کچھ نہ تھا ، مکان کی چھت توڑ کر اس کی کڑ یوں کو فروخت کر کے بھی کتب وغیرہ خریدی تھیں ۔ا سکے بعددولت کا دروازہ کھل گیا ، حافظہ نہایت اعلی درجہ کا
تھا ، فرماتے تھے کہ جس چیز کو میں نے محفوظ کر لیا ا سکو پھر کبھی نہیں بھولا ۔

اساتذہ۔

آپکے اساتذہ میں زیادہ تر مدینہ کے بزرگان دین شامل ہیں ، امام زرقانی فرماتے ہیں ، آپ نے نوسو سے زیادہ مشائخ سے علم حاصل کیا ۔چند حضرات کے اسماء یہ ہیں ۔
زیدبن اسلم ، نافع مولی ابن عمر ، صالح بن کیسان ، عبداللہ بن دینار ، یحے ی بن سعید ، ہشام بن عروہ ، ایوب السنحتیانی ، عبداللہ بن ابی بکر بن حزم ، جعفر صادق بن محمدباقر، حمیدبن قیس مکی ، سہل بن ابی صالح ، ابوالزبیر مکی ۔ ابوالزناد ، ابو حازم ، عامر بن عبداللہ بن العوام وغیرہم

تلامذہ ۔

تلامذہ میں انکے مشائخ معاصرین وغیرہم سب شامل ہیں ، اس لئے کہ آپ نے مستقل مسکن مدینہ منورہ کو بنالیا تھا ، لہذا اطراف واکناف سے لوگ یہاں آتے اور آپ سے اکتساب فیض کرتے ، مستفید ین کی فہرست طویل ہے چند یہ ہیں ۔
ابن شہاب زہری ، یحیی بن سعید انصاری ، اور یزید بن عبداللہ بن الھاد ، یہ مشائخ میں بھی ہیں ۔
معاصرین میں سے امام اوزاعی ، امام ثوری ، ورقاء بن عمر ، شعبہ بن الحجاج ، ابن جریج ،ابراہیم بن طہمان ، لیث بن سعد ، اور ابن عیینہ وغیرہم ۔
یحیی بن سعید القطان ، ابواسحاق فزاری ، عبدالرحمن بن مہدی ، حسین بن ولید نیشاپوری امام شافعی ، امام ابن مبارک ، ابن وہب ، ابن قاسم ، خالد بن مخلد ، سعید بن منصور ، یحیی بن ایوب مصری ، قتیبہ بن سعید ، ابو مصعب زہری ، امام محمد ۔

علم وفضل ۔

آپکے علم وفضل کی شہادت معاصرین وتلامذہ وغیرہم نے دی ہے ۔
ابومصعب زہری فرماتے تھے :۔
امام مالک ثقہ ، مامون ، ثبت ، عالم ، فقیہ ، حجت و ورع ہیں
یحیی بن معین اوریحیی بن سعید القطان نے فرمایا :۔
آپ امیرالمومنین فی الحدیث ہیں ۔
عبدالرحمن بن مہدی کاقول ہے ۔
روئے زمین پر امام مالک سے بڑ ھکر حدیث نبوی کا کوئی امانت دار نہیں ۔سفیان ثوری امام حدیث ہیں امام سنت نہیں ، اور اوزاعی امام سنت ہیں امام حدیث نہیں ، اور امام مالک دونوں کے جامع ۔
امام اعظم فرماتے ہیں :۔
میں نے امام مالک سے زیادہ جلد اور صحیح جواب دینے والا اوراچھی پرکھ والانہیں دیکھا ۔
امام شافعی فرماتے ہیں :۔
تابعین کے بعد امام مالک مخلوق خداکی حجت تھے ، اور علم تین آدمیوں میں دائر ہے ۔
مالک بن انس ، سفیان بن عیینہ ، لیث بن سعد ۔
امام احمد بن حنبل سے کسی نے پوچھا کہ اگر کسی کی حدیث زبانی یاد کرنا چاہے توکس کی کرے ، فرمایا : مالک بن انس کی ۔
امام بخاری نے اصح الاسانید کے سلسلہ میں فرمایا :۔
مالک عن نافع عن ابن عمر ۔

بشارت عظمیٰ۔

امت مسلمہ کے لئے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بشارت آپکی ذات گرامی تھی۔
حضور نے فرمایا :۔
یوشک ان یضرب الناس اکباد الابل یطلبون العلم فلایجدون عالما اعلم من عالم المدینۃ ۔
قریب ہے کہ لوگ اونٹوں پر سوار ہوکر آئیں گے اورعالم مدینہ سے بڑ ھکر کوئی عالم نہ پا ئیں گے ۔
امام عبدالرزاق اورامام سفیان بن عیینہ نے فرمایا : اس حدیث کے مصداق امام مالک ہیں ۔

عشق رسول ۔

آپکی شخصیت عشق رسالت سے معمورتھی ، مدینہ کے ذرہ ذرہ سے انہیں پیار تھا ، اس مقدس شہر کی سرزمین پر کبھی کسی سواری پر نہ بیٹھے اس خیال سے کہ کبھی اس جگہ حضورپیادہ
چلے ہوں ۔
درس حدیث کا نہایت اہتمام فرماتے ، غسل کر کے عمدہ اور صاف لباس زیب تن کرتے پھر خوشبو لگا کر مسند درس پر بیٹھ جاتے اور اسی طرح بیٹھے رہتے تھے ، ایک دفعہ دوران درس بچھو انہیں پیہم ڈنگ لگاتا رہا مگر اس پیکرعشق ومحبت کے جسم میں کوئی اضطراب نہیں آیا ، پورے انہماک واستغراق کے ساتھ اپنے محبوب کی دلکش روایات اور دلنشیں احادیث بیان کرتے رہے ۔ جب تک درس جاری رہتا انگیٹھی میں عود اورلوبان ڈالا جاتارہتا ۔

ابتلاء ۔

امام مالک کا مسلک تھا کہ طلاق مکرہ واقع نہیں ہوتی ۔انکے زمانہ کے حاکم نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا اور ان کو زدوکوب کیا ، اونٹ پرسوار کر کے شہر میں گشت بھی کرایا لیکن آپ
اس حال میں بھی بلند آواز سے یہی کہتے جاتے تھے :۔
جوشخص مجھے جانتا ہے جانتا ہے اور جو نہیں جانتا ہے وہ جان لے کہ میں مالک بن انس اصبحی ہوں ، اور میرامسلک یہ ہے کہ طلاق مکرہ واقع نہیں ہوتی ۔جعفر بن سلیمان تک جب یہ خبر
پہونچی تواس نے حکم دیا کہ اونٹ سے اتار لیا جائے ۔
بعض نے قصہ یوں بیان کیا ہے کہ جعفر بن سلیمان والی مدینہ سے کسی نے شکایت کر دی کہ امام مالک آپ لوگوں کی بیعت کو صحیح نہیں سمجھتے ، اس پر ا سکو غصہ آیا اور آپ کو بلوا کر کوڑ ے لگوائے ، آپکو کھینچا گیا اور دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں سے اتروادیا ۔ان چیزوں سے آپکی عزت و وقعت اور شہرت زیادہ ہی ہوئی ۔

حلم وبردباری ۔

خلیفہ منصور جب حج کیلئے حرمین حاضرہوا تواس نے جعفر سے امام مالک کا قصاص لینا چاہا تھا مگر آپ نے روک دیا اور فرمایا :
واللہ ! جب مجھ پر کوڑ اپڑتا تھا میں ا سکو اسی وقت حلال اور جائز کر دیتا تھا کہ ا سکو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قرابت ہے ۔

وصال ۔

یحیی بن یحیی مصمودی بیان کرتے ہیں کہ جب امام مالک کا مرض وصال طویل ہوا اور وقت آخر آپہونچا تومدینہ منورہ اور دوسرے شہروں سے علماء وفضلاء آپکے مکان میں جمع ہوگئے تاکہ امام مالک کی آخری ملاقات سے فیض یاب ہوں ۔میں باربار امام کے پاس جاتا اور سلام عرض کرتا تھا ۔کہ اس آخری وقت میں امام کی نظر مجھ پر پڑ جائے اور وہ نظر میری سعادت اخروی کا سبب بن جائے ۔میں اسی کیفیت میں تھا کہ امام نے آنکھیں کھولیں اورہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا : ۔
اللہ تعالیٰ کا شکر جس نے ہم کو کبھی ہنسایا اور کبھی رلایا ، اسکے حکم سے زندہ رہے اوراسی کے حکم سے جان دیتے ہیں ۔اسکے بعد فرمایا: موت آ گئی ، خدائے تعالیٰ سے ملاقات کا وقت
قریب ہے ۔
حاضرین نے عرض کیا : اس وقت آپکے باطن کا کیا حال ہے ؟ فرمایا: میں اس وقت اولیاء اللہ کی مجلس کی وجہ سے بہت خوش ہوں ، کیونکہ میں اہل علم کو اولیاء اللہ شمار کرتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کو حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد علماء سے زیادہ کوئی شخص پسند نہیں ۔نیز میں اس لئے بھی خوش ہوں کہ میری تمام زندگی علم کی تحصیل اور ا سکی تعلیم میں گذری ہے ۔اور میں اس سلسلہ میں اپنی تمام مساعی کو مستجاب اور مشکور گمان کرتا ہوں ۔اس لئے کہ تما م فرائض اور سنن اور انکے ثواب کی تفصیلات ہم کو زبان رسالت سے معلوم ہوئیں ۔مثلا حج کا اتنا ثواب ہے اورزکوۃ کا اتنا ، اور ان تمام معلومات کو سواحدیث کے طالب علم کے اور کوئی شخص نہیں جان سکتا ۔
ا ور یہ ہی علم اصل میں نبوت کی میراث ہے ۔
یحیی بن یحیی مصمودی کہتے ہیں : اسکے بعد امام مالک نے حضرت ربیعہ کی روایت بیان فرماتے ہوئے ارشادفرمایا کہ میں نے اب تک یہ روایت نہیں بیان کی ہے ۔
حضرت ربیعہ فرماتے ہیں کہ قسم بخدا ! کسی شخص کو نماز کے مسائل بتلانا روئے زمین کی تمام دولت صدقہ کرنے سے بہتر ہے اور کسی شخص کی دینی الجھن دورکر دینا سوحج کرنے سے افضل ہے ۔اور ابن شہاب زہری کی روایا ت سے بتلایا کہ کسی شخص کو دینی مشورہ دینا سو غزوات میں جہاد کرنے سے بہتر ہے ۔ اس گفتگو کے بعد امام مالک نے کوئی بات نہیں کی اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی ۔
۱۱!یا۱۴ ! ربیع الاول ۱۷۹ھ کو آپ نے مدینہ طیبہ میں وصال فرمایا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے ۔اولاد امجاد میں تین صاحبزادے یحیی ، محمد ، اور احمد چھوڑ ے ، کسی نے آپکی سنہ
ولادت اور سنہ وصال کو یوں نظم کیا ہے ۔
فخرالائمۃ مالک ۔نعم الامام السالک
مولدہ نجم ھدی ۔ وفاتہ فازمالک
93 179

مؤطا امام مالک

آپ نے متعددکتب تصنیف فرمائیں لیکن مؤطا آپکی مشہور ترین کتاب جو کتب خانہ اسلام کی فقہ ترتیب پر دوسری کتاب سمجھی جاتی ہے ۔اس کی تالیف وترتیب مدینہ طیبہ ہی میں ہوئی ، کیونکہ آپ کا قیام ہمیشہ مدینہ منورہ ہی میں رہا ، آپ نے حج بھی صرف ایک مرتبہ ہی کیا باقی پوری حیات مبارکہ مدینہ پاک ہی میں گذاردی ۔
امام شافعی نے اس کتاب کو دیکھ کر فرمایا تھا : کہ کتاب اللہ کے بعدروئے زمین پر اس سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں ۔
امام ابو زرعہ رازی فن جرح وتعدیل کے امام فرماتے ہیں : اگر کوئی شخص قسم کھالے کہ مؤطا کی تمام احادیث صحیح ہیں تو وہ حانث نہیں ہو گا ۔
امام مالک نے ایک لاکھ احادیث میں سے مؤطا کا انتخاب کیا ، پہلے اس میں دس ہزار احادیث جمع کی تھیں ، پھر مسلسل غور کرتے رہے یہاں تک کہ اس میں چھ سو احادیث باقی رہ گئیں ۔بعدہ مراسیل وموقوف اور اقوال تابعین کا اضافہ ہے ۔یعنی کل روایات کی تعداد ایک ہزار سات سوبیس ہے ۔
لفظ موطا’’توطیہ‘‘ کا اسم مفعول ہے جسکے معنی ہیں ، روندا ہوا ، تیار کیا ہوا ، نرم وسہل بنایا ہوا ۔ یہاں یہ سب معانی بطور استعارہ مراد لئے ہیں ۔
امام مالک خود فرماتے ہیں : میں نے اس کتاب کو لکھ کر فقہاء مدینہ میں ستر حضرات کے سامنے پیش کیا تو ان سب نے مجھ سے اتفاق کیا یعنی انظار دقیقہ سے روندا، لہذا میں نے ا سکا نام مؤطا رکھا ۔دوسرے ائمہ نے وجہ تسمیہ میں یہ بھی فرمایا ہے کہ امام مالک نے اس کتاب کو مرتب کر کے لوگوں کیلئے سہل اور آسان بنادیا ہے اس لئے ا سکو مؤطا ا مام مالک کہتے ہیں ۔
مؤطا امام مالک کے تیس سے زیادہ نسخے ہیں ، بستان المحدثین میں سولہ کا ذکر بالتفصیل ہے ۔لیکن اس وقت امت کے ہاتھوں میں دونسخے موجودہیں ۔ایک یحیی بن یحیی مصمودی کا جومؤطا امام مالک سے مشہور ہے ۔اوردوسرامام محمد بن حسن کا جومؤطا امام محمد سے شہرت یافتہ اور عام طور پر داخل نصاب ہے ۔(تہذیب التہذیب۔ا البدایۃ والنہایہ۔ تذکرۃ المحدثین)
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381656 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.